اسلام آباد: پاناما پیپرز کیس میں سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے کی روشنی میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کے حوالے سے دائر نیب ریفرنس میں احتساب عدالت نے نواز شریف اور مریم نواز کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست پر محفوظ کیا گیا فیصلہ سناتے ہوئے درخواست مسترد کردی۔

اسلام آباد کی احتساب عدالت میں جج محمد بشیر نے شریف خاندان کے خلاف دائر نیب ریفرنسز کی سماعت کی، سماعت کے دوران نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران استغاثہ کی جانب سے ایون فیلڈ ریفرنس میں پیش کردہ مزید 4 گواہوں کا بیان ریکارڈ کیا گیا، جس پر نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے جرح بھی کیا۔

سماعت کے دوران استغاثہ کے گواہ توقیر شاہ، وقاص احمد، زاور منظور اور سلطان نذیر نے اپنا بیان قلمبند کرایا۔

گواہ توقیر شاہ نے عدالت کو بتایا کہ وہ 5 جنوری کو نیب کے تفتیشی افسر کے سامنے پیش ہوا اور حسن نواز کے بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو کا ریکارڈ میں نے نیب کے حوالے کیا جبکہ تفتیشی افسر نے میرا بیان ریکارڈ نہیں کیا۔

انہوں نے بتایا کہ نیب کے خط پر اوور رائٹنگ اور کٹنگ کی گئی جبکہ حسن نواز کے انٹرویو کا متن میں نے نہیں بلکہ سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی نے تیار کیا۔

توقیر شاہ نے بتایا کہ پتہ نہیں حسن نواز کا انٹرویو یوٹیوب پر کس نے اپ لوڈ کیا اور میں تصدیق نہیں کرسکتا کہ یہ انٹرویو مکمل تھا یا نہیں جبکہ مجھے اس انٹرویو کی تاریخ کا بھی پتہ نہیں ہے۔

اس دوران عدالت میں جج محمد بشیر نے ریمارکس دیے کہ حسن نواز کے انٹرویو کو عدالت میں چلا لیتے ہیں اور دیکھ لیتے ہیں کہ کہیں سی ڈی خالی ہی نہ ہو۔

سماعت کے دوران نیب کی جانب سے پیش کردہ دوسرے گواہ اور نجی نیوز جینل جیو کے کو آرڈینیٹر وقاص احمد کا بیان بھی قلمند کیا گیا اور اس پر جرح بھی کی گئی۔

وقاص احمد نے عدالت کو بتایا کہ میں نے پروگرام لیکن اور کیپیٹل ٹاک کے چند ٹرانسکرپ تفتیشی افسر کو دیے اور اس کے علاوہ میرا کوئی کام نہیں تھا۔

نیب ریفرنسز کی سماعت کے دوران تیسرے گواہ ڈپٹی ڈائریکٹر نیب لاہور زاور منظور نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے تفتیشی افسر کو 10 صفحات پر مشتمل نواز شریف کے انٹرویو اور قومی اسمبلی میں خطاب کا ٹرانسکرپٹ فراہم کیا۔

انہوں نے بتایا کہ 22 صفحات پر مشتمل نواز شریف کے انٹرویوز کا ٹرانسکرپٹ بھی تفتیشی افسر کے حوالے کیا اور اپنا بیان بھی ریکارڈ کروایا۔

سماعت کے دوران استغاثہ کے چوتھے گواہ سلطان نذیر نے اپنا بیان قلمبند کرایا جس پر خواجہ حارث کی جانب سے جرح مکمل کیا گیا۔

سماعت کے دوران دو ضمنی ریفرنسز کی نقول نوازشریف کے حوالے کی گئی جبکہ فلیگ شپ ریفرنس کے 6 اور عزیزیہ ریفرنس کے 3 والیم بھی سابق وزیر اعظم کو دیے گئے۔

اس موقع پر نواز شریف اور مریم نواز کی جانب سے نیب ریفرنس میں 19 فروری سے 2 ہفتوں کے لیے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست سے متعلق معاملہ زیر غور آیا۔

مزید پڑھیں: ’ججز جس طرح کی زبان استعمال کررہے وہ ان کے منصب کی توہین ہے‘

جس پر نیب پراسیکیوٹر نے نواز شریف کی درخواست مسترد کرنے کی استدعا کرتے ہوئے اعتراض کیا کہ نیب کی جانب سے نواز شریف اور مریم نواز کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کی سفارش کی گئی ہے لہٰذا انہیں حاضری سے استثنیٰ نہیں دی جائے۔

بعد ازاں عدالت نے تمام فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر نیب ریفرنسز کی سماعت 22 فروری تک ملتوی کردی۔

احتساب عدالت کی اب تک کی کارروائی

اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نیب ریفرنسز پر 13 ستمبر کو پہلی مرتبہ سماعت کرتے ہوئے شریف خاندان کو 19 ستمبر کو طلب کر لیا تھا تاہم وہ اس روز وہ پیش نہیں ہوئے جس کے بعد عدالتی کارروائی 26 ستمبر تک کے لیے مؤخر کردی گئی تھی جہاں نواز شریف پہلی مرتبہ عدالت میں پیش ہوئے۔

دوسری جانب احتساب عدالت نے اسی روز حسن نواز، حسین نواز، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے 2 اکتوبر کو پیش ہونے اور 10، 10 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

خیال رہے کہ 2 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران نواز شریف عدالت میں پیش ہوئے لیکن ان پر فردِ جرم عائد نہیں کی جاسکی۔

تاہم نواز شریف کے صاحبزادوں حسن نواز، حسین نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف عدالت میں پیش نہ ہونے پر ناقابلِ ضمانت وارنٹ جبکہ مریم نواز کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے تھے۔

نواز شریف 5 اکتوبر کو اپنی اہلیہ کی تیمارداری کے لیے لندن روانہ ہوگئے تھے جہاں سے وہ عمرہ کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب چلے گئے تھے۔

بعد ازاں مریم نواز اپنے شوہر کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کے ہمراہ 9 اکتوبر کو احتساب عدالت میں پیش ہونے کے لیے اسی روز صبح کے وقت لندن سے اسلام آباد کے بینظیر انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچی تھیں جہاں پہلے سے موجود نیب حکام نے کیپٹن (ر) صفدر کو ایئرپورٹ سے گرفتار کر لیا تھا جبکہ مریم نواز کو جانے کی اجازت دے دی تھی۔

کیپٹن (ر) صفدر کو نیب حکام اپنے ساتھ نیب ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد لے گئے تھے جہاں ان کا بیان ریکارڈ کیا گیا اور بعدازاں طبی معائنے کے بعد احتساب عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔

9 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران احتساب عدالت نے 50 لاکھ روپے کے علیحدہ علیحدہ ضمانتی مچلکے جمع کرانے کے بعد مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کی ضمانت منظور کر لی تھی جبکہ عدالت نے حسن اور حسین نواز کا مقدمہ دیگر ملزمان سے الگ کرکے انہیں اشتہاری قرار دیتے ہوئے ان کے دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر دیئے تھے۔

یاد رہے کہ احتساب عدالت نے 19 اکتوبر کو سبکدوش ہونے والے وزیراعظم، ان کی صاحبزادی اور داماد کیپٹن (ر) صفدر پر ایون فیلڈ فلیٹ کے حوالے سے دائر ریفرنس میں فرد جرم عائد کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: نیب ریفرنس: احتساب عدالت میں ہائیکورٹ کا حکم نامہ پیش

عدالت نے نواز شریف کو العزیزیہ اسٹیل ملز اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے دائر علیحدہ ریفرنسز میں فرد جرم عائد کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس: نواز شریف، مریم اور کیپٹن صفدر پر فردِ جرم عائد

ان تمام کیسز میں ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا تھا، اس کے علاوہ حسن اور حسن نواز بھی اپنے والد کے ہمراہ ریفرنسز میں نامزد ملزمان ہیں۔

نواز شریف پر العزیزیہ اسٹیل ملز اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ میں فردِ جرم عائد ہونے کے ایک روز بعد (20 اکتوبر) اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نیب کی جانب سے دائر فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں بھی فردِ جرم عائد کردی تھی۔

عدالت نے 26 اکتوبر کو نواز شریف کے خلاف 3 ریفرنسز میں سے 2 ریفرنسز میں عدالت میں پیش نہ ہونے پر قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے تھے اور انہیں 3 نومبر کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم جاری کیا تھا۔

بعد ازاں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے ہمراہ 3 نومبر کو احتساب عدالت میں پیش ہوئے اور نیب کی جانب سے دائر ریفرنسز کو یکجا کرنے کے حوالے سے درخواست دائر کی جس پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا تھا۔

نواز شریف 8 نومبر کو اپنی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کے ہمراہ احتساب عدالت پیش ہوئے تھے جہاں احتساب عدالت کی جانب سے سابق وزیرِاعظم کو کٹہرے میں بلا کر باقاعدہ فردِ جرم عائد کی گئی تھی۔

15 نومبر کو احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نوازشریف کی استثنیٰ کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں عدالتی کارروائی سے ایک ہفتے کے لیے استثنیٰ دے دیا اور اس دوران ان کی عدم موجودگی میں ان کے نمائندے ظافر خان کو عدالت میں یپش ہونے کی اجازت دے دی تھی۔

22 نومبر کو ہونے والی سماعت کے دوران نواز شریف نے احتساب عدالت سے التجا کی تھی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے شریف خاندان کے خلاف ریفرنسز کو یکجا کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر رکھا ہے اور فیصلہ سامنے آنے نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کی جانب سے عدالت میں حاضری سے مزید استثنیٰ دی جائے، عدالت سے مزید استثنیٰ 5 دسمبر تک کے لیے مانگی گئی تھی۔

6 دسمبر کو ہونے والی سماعت کے دوران استغاثہ کے گواہ ملک طیب نے نواز شریف کے مختلف بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات پیش کیں۔

7 دسمبر کو سماعت کے دوران احتساب عدالت نے عائشہ حامد کی جانب سے دائر درخواست مسترد کردی تھی جبکہ نجی بینک کی منیجر نورین شہزاد کی جانب سے پیش کی گئی دستاویزات کو ریکارڈ کا حصہ بنانے کا حکم دے دیا تھا۔

11 دسمبر کو سماعت کے دوران احتساب عدالت نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ریفرنس میں مزید 2 گواہان کو طلب کرلیا تھا۔

19 دسمبر 2017 کو احتساب عدالت میں 3 گواہان کے بیانات قلمبند کرلیے گئے تھے جبکہ استغاثہ کے دو مزید گواہان کو طلبی کا سمن جاری کیا تھا۔

مزید پڑھیں: نیب ریفرنس: شریف خاندان کی درخواست پر احتساب عدالت کی سماعت ملتوی

3 جنوری 2018 کو سماعت کے دوران طلب کیے گئے دونوں گواہان کے بیانات قلمبند اور ان سے جرح بھی مکمل کی گئی تھی جس کے بعد احتساب عدالت نے 5 مزید گواہان کو طلبی کا سمن جاری کیا تھا۔

9 جنوری 2018 کو سماعت کے دوران مزید طلب کیے گئے 4 گواہان کے بیانات قلمبند کیے تھے۔

16 جنوری 2018 کو احتساب عدالت میں سماعت کے دوران 2 گواہوں کے بیان ریکارڈ کیے گئے تھے، تاہم ایک گواہ آفاق احمد کا بیان قلمبند نہیں ہوسکا تھا۔

22 جنوری کو سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کے صاحبزادے حسن نواز اور حسین نواز، صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف لندن میں ایون فیلڈز اپارٹمنٹس سے متعلق ریفرنس میں نیب کی جانب سے ملزمان کے خلاف ضمنی ریفرنس دائر کیا تھا۔

نیب کی جانب سے دائر اس ضمنی ریفرنس کی مدد سے مرکزی ریفرنس میں مزید 7 نئے گواہان شامل کئے گئے تھے جن میں سے 2 کا تعلق برطانیہ سے تھا۔

23 جنوری کو ہونے والی سماعت کے دوران دو گواہان کے بیانات قلمبند کرلیے گئے جبکہ مزید دو گواہان کو طلبی کے سمن جاری کردیئے تھے۔

30 جنوری 2018 کو نیب کی جانب سے شریف خاندان کے خلاف دائر 3 مختلف ریفرنسز میں احتساب عدالت نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس پر نیب کے ضمنی ریفرنس سے متعلق سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کے اعتراضات مسترد کرتے ہوئے اسے سماعت کے لیے منظور کر لیا تھا۔

نواز شریف اور ان کے اہلِ خانہ کے وکلا کی عدم موجودگی کی وجہ سے 6 فروری کو نیب ریفرنسز کی سماعت ملتوی کردی گئی تھی۔

بعد ازاں 13 فروری کو ہونے والی سماعت معروف قانون دان اور انسانی حقوق کی کارکن عاصمہ جہانگیر کے انتقال پر سوگ کے باعث ملتوی کردی گئی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں