قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے شریف خاندان کے خلاف احتساب عدالت میں دائر 3 مختلف ریفرنس کی سماعت کے دوران استغاثہ کے 2 گواہان کے بیانات قلمبند کرلیے گئے جبکہ 6 مزید گواہان کو طلبی کا سمن جاری کردیا گیا۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے شریف خاندان کے خلاف نیب کی جانب سے دائر ریفرنسز کی سماعت کی۔

سماعت کے آغاز میں استغاثہ کے گواہ ان لینڈریونیو آفیسر تسلیم خان عدالت میں پیش ہوئے اور اپنا بیان قلمبند کرایا۔

تسلیم خان نے کا کہنا تھا کہ وہ کمشنر ان لینڈ ریونیو فضا بتول کی ہدایت پر نیب راولپنڈی میں پیش ہوئے اور نواز شریف، ان بچوں کا انکم اور ویلتھ ٹیکس ریکارڈ پیش کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ نیب کے تفتشی افسر کامران اور محبوب عالم نے ان کی موجودگی میں ان لینڈ ریونیو ڈیپارمنٹ کے جہانگیر احمد کا بیان بھی قلمبند کیا۔

انہوں نے بتایا کہ نیب کو فراہم کی گئی دستاویزات کی اصل کاپی بھی پیش کی گئی تاہم تفتیشی افسر نے اصل دستاویزات دیکھنے کے بعد جہانگیر احمد کو واپس کردیں جس کی تصدیق کمشنر ان لینڈ ریونیو فضا بتول نے کی۔

استغاثہ کے دوسرے گواہ زاور منظور نے اپنا بیان قلمبند کرواتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ یاسر شبیر نے نواز شریف کے مختلف اکاونٹس کا ٹرانزیکشن ریکارڈ جبکہ سدرہ منصور نے حدیبییہ پیپر ملز کا ریکارڈ پیش کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پیشی افسر نے ان کی موجودگی میں ریکارڈ کا سیزر میمو بنایا جس پر انہوں نے بطور گواہ دستخط کیے تھے۔

زاور منظور کا کہنا تھا کہ گواہ محمد رشید اور مظہر رضا خان بنگش کا بیان بھی ان کی موجودگی میں قلمبند کیا گیا۔

نجی بینک کے آپریشنل مینجر یاسر شبیر نے عدالتی حکم پر اضافی دستاویزات بھی پیش کردیں۔

بعد ازاں عدالت نے استغاثہ کے مزید 6 گواہوں کو طلبی کے سمن جاری کرتے ہوئے سماعت کو 9 جنوری تک کے لیے ملتوی کردی۔

نواز شریف کی میڈیا سے گفتگو

سابق وزیر اعظم نواز شریف نے احتساب عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب محبت کرنے والا ملک ہے، میرا سعودی عرب جانا کوئی عجوبہ نہیں، معلوم نہیں لوگ کیوں باتیں بنارہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ کیسی دھاندلی ہے جو آج تک نہیں ملی، مجھ پر کوئی جرم ثابت ہی نہیں ہوسکا، میں نے کبھی معافی نہیں مانگی۔

سابق وزیر اعظم نے عمران خان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ نیازی کمپنی کیا کرتی تھی وہ ہم جانتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان ریکارڈ پر اقبال جرم کربیٹھے ہیں جس کے بعد انہوں نے کہا تھا کہ مجھے معافی دی جائے میں یہ جرم کربیٹھا ہوں۔

انہوں نے مزید کہا کہ عدالت نے عمران خان کو صادق اور امین قرار دے دیا لیکن جب انہوں نے چوری نہیں کی تو معافی کیوں مانگی تھی۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے پاناما پیپرز کیس کے حتمی فیصلے میں دی گئی ہدایات کی روشنی میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے نواز شریف اور ان کے صاحبزادوں حسن نواز اور حسین نواز کے خلاف 3 ریفرنسز دائر کیے گئے تھے جبکہ مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کا نام ایون فیلڈ ایونیو میں موجود فلیٹس سے متعلق ریفرنس میں شامل ہے۔

سپریم کورٹ نے نیب کو 6 ہفتوں کے اندر شریف خاندان کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت جاری کی تھی، تاہم نیب نے 8 ستمبر کو عدالت میں ریفرنسز دائر کیے تھے۔

احتساب عدالت کی اب تک کی کارروائی

اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نیب ریفرنسز پر 13 ستمبر کو پہلی مرتبہ سماعت کرتے ہوئے شریف خاندان کو 19 ستمبر کو طلب کر لیا تھا تاہم وہ اس روز وہ پیش نہیں ہوئے جس کے بعد عدالتی کارروائی 26 ستمبر تک کے لیے مؤخر کردی گئی تھی جہاں نواز شریف پہلی مرتبہ عدالت میں پیش ہوئے۔

دوسری جانب احتساب عدالت نے اسی روز حسن نواز، حسین نواز، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے 2 اکتوبر کو پیش ہونے اور 10، 10 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

خیال رہے کہ 2 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران نواز شریف عدالت میں پیش ہوئے لیکن ان پر فردِ جرم عائد نہیں کی جاسکی۔

تاہم نواز شریف کے صاحبزادوں حسن نواز، حسین نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف عدالت میں پیش نہ ہونے پر ناقابلِ ضمانت وارنٹ جبکہ مریم نواز کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے تھے۔

نواز شریف 5 اکتوبر کو اپنی اہلیہ کی تیمارداری کے لیے لندن روانہ ہوگئے تھے جہاں سے وہ عمرہ کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب چلے گئے تھے۔

بعد ازاں مریم نواز اپنے شوہر کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کے ہمراہ 9 اکتوبر کو احتساب عدالت میں پیش ہونے کے لیے اسی روز صبح کے وقت لندن سے اسلام آباد کے بینظیر انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچی تھیں جہاں پہلے سے موجود نیب حکام نے کیپٹن (ر) صفدر کو ایئرپورٹ سے گرفتار کر لیا تھا جبکہ مریم نواز کو جانے کی اجازت دے دی تھی۔

کیپٹن (ر) صفدر کو نیب حکام اپنے ساتھ نیب ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد لے گئے تھے جہاں ان کا بیان ریکارڈ کیا گیا اور بعدازاں طبی معائنے کے بعد احتساب عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔

9 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران احتساب عدالت نے 50 لاکھ روپے کے علیحدہ علیحدہ ضمانتی مچلکے جمع کرانے کے بعد مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کی ضمانت منظور کر لی تھی جبکہ عدالت نے حسن اور حسین نواز کا مقدمہ دیگر ملزمان سے الگ کرکے انہیں اشتہاری قرار دیتے ہوئے ان کے دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر دیئے تھے۔

یاد رہے کہ احتساب عدالت نے 19 اکتوبر کو سبکدوش ہونے والے وزیراعظم، ان کی صاحبزادی اور داماد کیپٹن (ر) صفدر پر ایون فیلڈ فلیٹ کے حوالے سے دائر ریفرنس میں فرد جرم عائد کی تھی۔

عدالت نے نواز شریف کو العزیزیہ اسٹیل ملز اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے دائر علیحدہ ریفرنسز میں فرد جرم عائد کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس: نواز شریف، مریم اور کیپٹن صفدر پر فردِ جرم عائد

ان تمام کیسز میں ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا تھا، اس کے علاوہ حسن اور حسن نواز بھی اپنے والد کے ہمراہ ریفرنسز میں نامزد ملزمان ہیں۔

نواز شریف پر العزیزیہ اسٹیل ملز اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ میں فردِ جرم عائد ہونے کے ایک روز بعد (20 اکتوبر) اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نیب کی جانب سے دائر فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں بھی فردِ جرم عائد کردی تھی۔

عدالت نے 26 اکتوبر کو نواز شریف کے خلاف 3 ریفرنسز میں سے 2 ریفرنسز میں عدالت میں پیش نہ ہونے پر قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے تھے اور انہیں 3 نومبر کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم جاری کیا تھا۔

بعد ازاں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے ہمراہ 3 نومبر کو احتساب عدالت میں پیش ہوئے اور نیب کی جانب سے دائر ریفرنسز کو یکجا کرنے کے حوالے سے درخواست دائر کی جس پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا تھا۔

نواز شریف 8 نومبر کو اپنی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کے ہمراہ احتساب عدالت پیش ہوئے تھے جہاں احتساب عدالت کی جانب سے سابق وزیرِاعظم کو کٹہرے میں بلا کر باقاعدہ فردِ جرم عائد کی گئی تھی۔

15 نومبر کو احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نوازشریف کی استثنیٰ کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں عدالتی کارروائی سے ایک ہفتے کے لیے استثنیٰ دے دیا اور اس دوران ان کی عدم موجودگی میں ان کے نمائندے ظافر خان کو عدالت میں یپش ہونے کی اجازت دے دی تھی۔

22 نومبر کو ہونے والی سماعت کے دوران نواز شریف نے احتساب عدالت سے التجا کی تھی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے شریف خاندان کے خلاف ریفرنسز کو یکجا کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر رکھا ہے اور فیصلہ سامنے آنے نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کی جانب سے عدالت میں حاضری سے مزید استثنیٰ دی جائے، عدالت سے مزید استثنیٰ 5 دسمبر تک کے لیے مانگی گئی تھی۔

6 دسمبر کو ہونے والی سماعت کے دوران استغاثہ کے گواہ ملک طیب نے نواز شریف کے مختلف بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات پیش کیں۔

7 دسمبر کو سماعت کے دوران احتساب عدالت نے عائشہ حامد کی جانب سے دائر درخواست مسترد کردی تھی جبکہ نجی بینک کی منیجر نورین شہزاد کی جانب سے پیش کی گئی دستاویزات کو ریکارڈ کا حصہ بنانے کا حکم دے دیا تھا۔

11 دسمبر کو سماعت کے دوران احتساب عدالت نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ریفرنس میں مزید 2 گواہان کو طلب کرلیا تھا۔

19 دسمبر 2017 کو احتساب عدالت میں 3 گواہان کے بیانات قلمبند کرلیے گئے تھے جبکہ استغاثہ کے دو مزید گواہان کو طلبی کا سمن جاری کردیا گیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں