قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے شریف خاندان کے خلاف احتساب عدالت میں دائر 3 مختلف ریفرنس کی سماعت کے دوران 3 گواہان کے بیانات قلمبند کرلیے گئے جبکہ استغاثہ کے دو مزید گواہان کو طلبی کا سمن جاری کردیا گیا۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے شریف خاندان کے خلاف نیب کی جانب سے دائر ریفرنسز کی سماعت کی۔

نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف ریفرنسز کی سماعت کے دوران استغاثہ کے گواہ اور نجی بینک کے برانچ مینجر یاسر بشیر نے اپنا بیان قلمبند کروایا۔

ان کا کہنا تھا کہ نیب کی جانب سے مریم نواز اور نواز شریف کے اکاؤنٹس کی تفصیلات طلب کی گئیں جسے 2 اگست 2017 کو نیب آفس پہنچ کر مطلوبہ ریکارڈ فراہم کیا تھا۔

تفتیشی آفسر نے ریکارڈ وصول کرتے وقت مجھ سے دستخط کرائے تھے۔

مزید پڑھیں: نیب ریفرنس: شریف خاندان کی درخواست پر احتساب عدالت کی سماعت ملتوی

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے نیب کو مریم نواز کی بینک اسٹیٹمنٹ کی تصدیق شدہ کاپی فراہم کی تھی جن میں ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ جدہ کی جانب سے مریم نواز کے اکاؤنٹ میں منتقل کی جانے والی رقوم کی تفصیلات بھی شامل تھیں۔

انہوں نے بتایا کہ ہل میٹل اسٹیبمشنٹ کے ڈبیٹ وچر کے ذریعے ایک مرتبہ 78 لاکھ 87 ہزار روپے مریم کے اکاونٹ میں متنقل کیے گئے۔

انہوں نے کہا کہ ایک اور ٹرانزکشن کے ذریعے ایک کروڑ 91 لاکھ 24 روپے اور 1 کروڑ 73 لاکھ 31 ہزار روپے مریم کے اکاونٹ میں منتقل ہوئےتھے۔

گواہ یاسر بشیر نے نواز شریف کے اکاونٹ کی 12 فروری 2010 سے 30 جون 2017 کی تفصیلات پیش کردیں۔

ان کا کہنا تھا کہ تصدیق شدہ دستاویزات پر تاریخ درج نہیں کی تھی۔

یاسر بشیر نے عدالت کو بتایا کہ نیب کو فراہم کیے گئے ریکارڈ میں ایک دستاویز پر میرے دستخط موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف اور مریم نواز کے اکاونٹ میں کسی قسم کے بےقاعدگی اور بےضبطگی نہیں پائی گی اور نہ ہی مریم نواز کے اکاؤنٹ کے حوالے سے ایسی کوئی شکایت موصول ہوئیں۔

جس پر وکیل کا کہنا تھا کہ گواہ کی جانب سے پیش کی گئی دستاویزات خود انہوں نے تیار نہیں کیں اگر گواہ نے دستاویزات کو بغور پڑھا ہوتا تو انہیں رقوم زبانی یاد ہوتیں۔

احتساب عدالت میں فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کے دوران قطری شہزادے شیخ حماد بن جاسم کی جانب سے واجد ضیا کو لکھے گئے سر بمہر خط کی تفصیلات پیش کی گئیں۔

یہ بھی پڑھیں: نیب ریفرنسز: شریف خاندان کے خلاف گواہان کے بیان قلمبند

تفصیلات استغاثہ کے گواہ اور وزارت خارجہ کے ڈائریکٹر آفاق احمد کی جانب سے پیش کی گئیں۔

آفاق احمد نے احتساب عدالت کو بتایا کہ 28 مئی 2017 کو قطری شہزادے کے سیکریٹری عبدالحامد عبدالرشید آلبریدہ دوحہ میں پاکستان سفارتخانے آئے تھے جہاں انہوں نے جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا کو لکھا گیا سر بمہر خط پاکستانی سفارتخانے کے حوالے کیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ تیس مئی کو خط سفارتخانے نے واجد ضیا کو بھجوایا جبکہ 31 مئی کو جے آئی ٹی نے سیکریٹری خارجہ کو خط لکھا اور مجھے طلب کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ سیکریٹری خارجہ کی ہدایت پر یکم جون کو جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوا اور اپنا بیان ریکارڈ کرایا تھا۔

شریف خاندان کے وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ خط اس گواہ کو نہیں دفتر خارجہ کو لکھا گیا تھا۔

جس پر آفاق احمد نے عدالت کو بتایا کہ قطری شہزادے کے بند لفافے کو میں نے نہیں کھولا۔

احتساب عدالت میں ایون فیلڈ پراپرٹی ریفرنس کی سماعت کے دوران نیب کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر شکیل انجم کا بیان بھی قلمبند کیا گیا۔

شکیل انجم کا کہنا تھا کہ انہوں نے 10 اگست کو رجسٹرار سپریم کورٹ کو جے آئی ٹی کی تصدیق شدہ رپورٹ کی نقول فراہم کرنے کی درخواست کی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ 15 اگست کو رجسٹرار سپریم کورٹ کو دوسری درخواست دی جس کے بعد 17 اگست کو رجسٹرار آفس نے جے آئی ٹی رپورٹ فراہم کی تھی۔

مزید پڑھیں: نیب ریفرنس: نواز شریف کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور

انہوں نے کہا کہ ہمیں والیم ایک سے والیم نو تک تین سیٹ فراہم کئے گئے جبکہ والیم دس کی چار تصدیق شدہ نقول بھی نیب کو فراہم کی گئیں تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جو ریکارڈ رجسٹرار آفس سے ملا اسی روز نیب لاہور کے حوالے کردیا تھا اور 25 اگست 2017 کو نیب کے تفتیشی افسر کے سامنے بیان ریکارڈ کرایا تھا۔

بعد ازاں عدالت نے استغاثہ کے مزید دو گواہوں کو طلبی کے سمن جاری کرتے ہوئے سماعت کو تین جنوری تک کے لیے ملتوی کردی۔

پیشی سے قبل سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پیغام دیتے ہوئے مریم نواز نے کسی ادارے کی نشاندہی کیے بغیر کہا کہ'ایک بار بھی نہیں کہا کہ روز روز بلاتے ہیں'۔

احتساب عدالت کے باہر نواز شریف کی میڈیا سے گفتگو

سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے احتساب عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عدلیہ کو تنقید نشانہ بنایا اور کہا کہ 'آپ لاڈلے کو نا اہلی سے روک دیتے ہیں، انصاف کے یہ دوہرے معیار کو ہم نہیں چلنے دیں گے۔'

انہوں نے کہا کہ ہم پاگل یا بیوقوف نہیں جو انصاف کا خون ہونے دیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'انصاف کا ترازو چلنا چاہیے تحریک انصاف کا نہیں'۔

انہوں نے مزید کہا کہ عدلیہ کی بحالی کے لئے تحریک چلائی تھی اب انصاف کے لئے چلائیں گے۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے پاناما پیپرز کیس کے حتمی فیصلے میں دی گئی ہدایات کی روشنی میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے نواز شریف اور ان کے صاحبزادوں حسن نواز اور حسین نواز کے خلاف 3 ریفرنسز دائر کیے گئے تھے جبکہ مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کا نام ایون فیلڈ ایونیو میں موجود فلیٹس سے متعلق ریفرنس میں شامل ہے۔

سپریم کورٹ نے نیب کو 6 ہفتوں کے اندر شریف خاندان کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت جاری کی تھی، تاہم نیب نے 8 ستمبر کو عدالت میں ریفرنسز دائر کیے تھے۔

احتساب عدالت کی اب تک کی کارروائی

اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نیب ریفرنسز پر 13 ستمبر کو پہلی مرتبہ سماعت کرتے ہوئے شریف خاندان کو 19 ستمبر کو طلب کر لیا تھا تاہم وہ اس روز وہ پیش نہیں ہوئے جس کے بعد عدالتی کارروائی 26 ستمبر تک کے لیے مؤخر کردی گئی تھی جہاں نواز شریف پہلی مرتبہ عدالت میں پیش ہوئے۔

دوسری جانب احتساب عدالت نے اسی روز حسن نواز، حسین نواز، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے 2 اکتوبر کو پیش ہونے اور 10، 10 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

خیال رہے کہ 2 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران نواز شریف عدالت میں پیش ہوئے لیکن ان پر فردِ جرم عائد نہیں کی جاسکی۔

تاہم نواز شریف کے صاحبزادوں حسن نواز، حسین نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف عدالت میں پیش نہ ہونے پر ناقابلِ ضمانت وارنٹ جبکہ مریم نواز کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے تھے۔

نواز شریف 5 اکتوبر کو اپنی اہلیہ کی تیمارداری کے لیے لندن روانہ ہوگئے تھے جہاں سے وہ عمرہ کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب چلے گئے تھے۔

بعد ازاں مریم نواز اپنے شوہر کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کے ہمراہ 9 اکتوبر کو احتساب عدالت میں پیش ہونے کے لیے اسی روز صبح کے وقت لندن سے اسلام آباد کے بینظیر انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچی تھیں جہاں پہلے سے موجود نیب حکام نے کیپٹن (ر) صفدر کو ایئرپورٹ سے گرفتار کر لیا تھا جبکہ مریم نواز کو جانے کی اجازت دے دی تھی۔

کیپٹن (ر) صفدر کو نیب حکام اپنے ساتھ نیب ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد لے گئے تھے جہاں ان کا بیان ریکارڈ کیا گیا اور بعدازاں طبی معائنے کے بعد احتساب عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔

9 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران احتساب عدالت نے 50 لاکھ روپے کے علیحدہ علیحدہ ضمانتی مچلکے جمع کرانے کے بعد مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کی ضمانت منظور کر لی تھی جبکہ عدالت نے حسن اور حسین نواز کا مقدمہ دیگر ملزمان سے الگ کرکے انہیں اشتہاری قرار دیتے ہوئے ان کے دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر دیئے تھے۔

یاد رہے کہ احتساب عدالت نے 19 اکتوبر کو سبکدوش ہونے والے وزیراعظم، ان کی صاحبزادی اور داماد کیپٹن (ر) صفدر پر ایون فیلڈ فلیٹ کے حوالے سے دائر ریفرنس میں فرد جرم عائد کی تھی۔

عدالت نے نواز شریف کو العزیزیہ اسٹیل ملز اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے دائر علیحدہ ریفرنسز میں فرد جرم عائد کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس: نواز شریف، مریم اور کیپٹن صفدر پر فردِ جرم عائد

ان تمام کیسز میں ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا تھا، اس کے علاوہ حسن اور حسن نواز بھی اپنے والد کے ہمراہ ریفرنسز میں نامزد ملزمان ہیں۔

نواز شریف پر العزیزیہ اسٹیل ملز اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ میں فردِ جرم عائد ہونے کے ایک روز بعد (20 اکتوبر) اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نیب کی جانب سے دائر فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں بھی فردِ جرم عائد کردی تھی۔

عدالت نے 26 اکتوبر کو نواز شریف کے خلاف 3 ریفرنسز میں سے 2 ریفرنسز میں عدالت میں پیش نہ ہونے پر قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے تھے اور انہیں 3 نومبر کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم جاری کیا تھا۔

بعد ازاں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے ہمراہ 3 نومبر کو احتساب عدالت میں پیش ہوئے اور نیب کی جانب سے دائر ریفرنسز کو یکجا کرنے کے حوالے سے درخواست دائر کی جس پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا تھا۔

نواز شریف 8 نومبر کو اپنی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کے ہمراہ احتساب عدالت پیش ہوئے تھے جہاں احتساب عدالت کی جانب سے سابق وزیرِاعظم کو کٹہرے میں بلا کر باقاعدہ فردِ جرم عائد کی گئی تھی۔

15 نومبر کو احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نوازشریف کی استثنیٰ کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں عدالتی کارروائی سے ایک ہفتے کے لیے استثنیٰ دے دیا اور اس دوران ان کی عدم موجودگی میں ان کے نمائندے ظافر خان کو عدالت میں یپش ہونے کی اجازت دے دی تھی۔

22 نومبر کو ہونے والی سماعت کے دوران نواز شریف نے احتساب عدالت سے التجا کی تھی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے شریف خاندان کے خلاف ریفرنسز کو یکجا کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر رکھا ہے اور فیصلہ سامنے آنے نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کی جانب سے عدالت میں حاضری سے مزید استثنیٰ دی جائے، عدالت سے مزید استثنیٰ 5 دسمبر تک کے لیے مانگی گئی تھی۔

6 دسمبر کو ہونے والی سماعت کے دوران استغاثہ کے گواہ ملک طیب نے نواز شریف کے مختلف بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات پیش کیں۔

7 دسمبر کو سماعت کے دوران احتساب عدالت نے عائشہ حامد کی جانب سے دائر درخواست مسترد کردی تھی جبکہ نجی بینک کی منیجر نورین شہزاد کی جانب سے پیش کی گئی دستاویزات کو ریکارڈ کا حصہ بنانے کا حکم دے دیا تھا۔

11 دسمبر کو سماعت کے دوران احتساب عدالت نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ریفرنس میں مزید 2 گواہان کو طلب کرلیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں