آج کے بجٹ اعلان میں کیا نظر آنا چاہیے؟

سب سے اہم ترین نمبر جو بجٹ کو بیان کرتا ہے وہ ریونیو (آمدنی) کا ہدف ہے۔

اس معاملے پر کچھ بحث ہوسکتی ہے لیکن پاکستان میں آمدنی کے ہدف کا حجم آئندہ سال میں حکومت کی جانب سے خود کے لیے ترتیب دیے گئے چیلنج کو بیان کرتا ہے چونکہ ایسی معیشت میں آمدنی حاصل کرنا بہت مشکل ہے جہاں معیشت کا بڑا حصہ غیر دستاویزی ہو۔

اس سال حکومت آئندہ سال کے لیے ریونیو ہدف میں تقریباً 35 فیصد کے تاریخی اضافے کا اعلان کرنے جارہی ہے، جس کا مطلب یہ ہوگا کہ اسے پورا کرنے کے لیے ایک بہت زیادہ جارحانہ ٹیکس منصوبہ اور دستاویزی ڈرائیو شروع کرنا ہوگا۔

مزید پڑھیں: غیر ملکی قرضے ایک کھرب 5 ارب ڈالر سے تجاوز کرگئے

اگر حکومت اپنے سہ ماہی آمدنی اہداف کے حصول میں ناکام رہتی ہے تو اسے ساتھ ہی اخراجات میں کمی کی طرف دیکھنا ہوگا، جو اس وقت اس کا اپنا مسئلہ ہے خاص طور پر جب شرح سود میں اضافے اور کرنسی کی قدر میں کمی کی وجہ سے اقتصادی سرگرمی کی رفتار پہلے ہی دباؤ کا شکار ہے۔

بجٹ میں ٹیکس منصوبہ بندی کے لیے دیکھیں خاص طور پر یہ کہ کس طرح یہ حقیقت پسندانہ ہے۔

دفاعی بجٹ میں کٹوتی کے اعلان کو کیسے دیکھیں؟ کیا یہ واقعی مثالی قدم ہے؟

پاکستان جیسا ملک جو مختلف سیکیورٹی چیلنجز سمیت ملک میں دہشت گرد گروپس کے خلاف جاری فوجی آپریشن کا سامنا کررہا ہے اس کے لیے دفاعی اخراجات میں کمی خاص طور پر مشکل ہے۔

اس وقت جو ہم کٹوتی کے بارے میں جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ یہ بنیادی طور پر فوجی افسران کے لیے تنخواہ کے اخراجات پر لاگو ہوگا اور فوجی حکام کی جانب سے اس کے لیے خود سے رضاکارانہ طور پر اتفاق کیا گیا ہے۔

یہ غیر معمولی ہے لیکن اگر کوئی سوچتا ہے کہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تو غلط ہے۔

مثال کے طور پر ہر سال دفاعی اخراجات کے تحت مختص بجٹ کی رقم اور اس سال کے دوران اصل میں ادا کی گئی رقم کے درمیان فرق کو دیکھ لیں۔

یہ بھی پڑھیں: آمدن میں اضافہ نہ ہوسکا، مالی خسارہ 5 فیصد، معیشت شدید مشکلات کا شکار

مالی سال 2009 سے دیکھیں تو گراف ہر سال اس میں فرق ظاہر کرتے ہیں، اُس سال ادا کی گئی رقم دفاع کے لیے بجٹ سے اصل میں 11.42 فیصد زیادہ تھی، تاہم یہ فرق اس کے بعد کئی برسوں میں نیچے آتا رہا اور اصل میں مالی سال 2013 سے 2016 تک یہ منفی تک پہنچ گیا، جس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے بجٹ میں مختص رقم سے کم ادا کی گئی۔

بعد ازاں پھر اس فرق میں اضافہ دیکھنے میں آیا اور حکومت نے ایک مرتبہ پھر بجٹ میں مختص رقم سے زائد ادائیگی اس وقت تک کی جب تک مالی سال 2018 کے اختتام تک انتخابات سے قبل اعداد و شمار دوبارہ 11 فیصد سے تجاوز نہیں کرگئے۔

اس بجٹ میں آئی ایم ایف کا کیا کردار ہے؟

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ( آئی ایم ایف) کے ساتھ پاکستان کا پروگرام تاحال شروع نہیں ہوا ہے، ہمارے پاس اس عملے کی سطح پر منظوری موجود ہے، حکومت اور آئی ایم ایف کے عملے کی جانب سے ایڈجسٹمنٹ پروگرام میں تفصیلات پر اتفاق کیا گیا ہے۔

اس میں دوسرا مرحلہ آئی ایم ایف بورڈ کی جانب سے منظوری کا ہے، ایک مرتبہ یہ مرحلہ مکمل ہوجائے تو پروگرام کا آغاز ہوجائے گا اور چند دنوں میں پہلے مرحلے میں رقم جاری کردی جائے گی۔

مزید پڑھیں: ڈالر ایک ہفتے میں 9 روپے مہنگا ہوکر 154 کا ہوگیا

آئی ایم ایف بورڈ کی منظوری کے لیے حکومت کو پروگرام کے پہلے سال کے اہداف مکمل کرنے میں سنجیدگی دکھانی ہوگی اور اسے بجٹ میں شامل کرنا ہوگا۔ قومی اسمبلی سے بجٹ منظور ہونے کے بعد یہ عملے کی سطح پر منظوری کے ساتھ آئی ایم ایف بورڈ کی جانب جائے گا جس کے آئندہ 3 سال کے لیے اسی نوعیت کے اہداف ہیں۔

تاہم آئی ایم ایف پروگرام اب تک شروع نہیں ہوا، بجٹ کو معیشت کے استحکام کے لیے آئی ایم ایف کی ہدایت پر عمل درآمد کی جانب پہلا قدم قرار دیا جاسکتا ہے۔


یہ رپورٹ 11 جون 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں