'دنیا پر حکمرانی خوبصورت جنگی ہتھیار نہیں، عوام کرتے ہیں'

اپ ڈیٹ 21 جنوری 2020
جواد ظریف نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے عوام کے جذبات کو سمجھنا ہو گا — فائل فوٹو: اے ایف پی
جواد ظریف نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے عوام کے جذبات کو سمجھنا ہو گا — فائل فوٹو: اے ایف پی

ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا ہے کہ خوبصورت فوجی ہتھیار نہیں بلکہ عوام دنیا پر حکمرانی کرتے ہیں اور عوام اب اس خطے میں امریکا کو نہیں دیکھنا چاہتے۔

واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے امریکی ڈرون حملے میں ایران کی قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی ہلاک ہوگئے تھے جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان حالات انتہائی کشیدہ ہو گئے تھے۔

مزید پڑھیں: امریکا کی ایران کو غیرمشروط مذاکرات کی پیشکش

گزشتہ روز ایران نے جنرل سلیمانی کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے عراق میں موجود امریکی فوجی اڈوں پر 20 میزائل فائر کیے تھے اور ان حملوں میں 80 امریکی فوجیوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا جسے امریکا نے مسترد کردیا تھا۔

دونوں ممالک کے درمیان اس کشیدہ صورتحال کے دوران ایرانی وزیر خارجہ جواب ظریف نے تہران ڈائیلاگ فورم کے موقع پر امریکی نشریاتی ادارے سی این این سے گفتگو کرتے ہوئے خطے میں امریکی کردار اور مشرق وسطیٰ میں اس کی ساکھ پر گفتگو کی۔

انہوں نے اس انٹرویو کا ویڈیو کلپ سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بھی شیئر کیا۔

انہوں نے کہا کہ امریکا اب زیادہ عرصے تک خطے میں قیام نہیں کر سکتا اور ڈونلڈ ٹرمپ کو یہ سمجھنا ہو گا کہ امریکا کو خطے کے حوالے سے غلط معلومات فراہم کی گئی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی فوجی اڈوں پر حملے کے بعد بغداد کے گرین زون میں بھی راکٹ حملہ

جواد ظریف نے امریکا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے خوبصورت جنگی ہتھیاروں پر 2 ہزار ارب ڈالر خرچ کیے لیکن یہ ہتھیار نہیں بلکہ عوام دنیا پر حکمرانی کرتے ہیں اور خطے کے عوام اب یہاں امریکا کو نہیں دیکھنا چاہتے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے امریکی صدر سے گفتگو کی کوئی تک نہیں بنتی کیونکہ انہیں خود خطے کی صورتحال کو سمجھنا چاہیے، انہیں حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے عوام کے جذبات کو سمجھنا ہو گا، انہیں معافی مانگنی چاہیے اور اپنا طریقہ کار تبدیل کرنا چاہیے کیونکہ یہ صورتحال امریکا کے لیے ہر گزرتے دن کے ساتھ خراب ہوتی جا رہی ہے۔

جواد ظریف نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایک بعد ایک غلطی کرتے جا رہے ہیں اور امریکی آئین کو بھی تباہ کر رہے ہیں، وہ امریکی سیاسی عمل اور قانون کی حکمرانی کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: 52 اہداف کا ذکر کرنے والوں کو 290 کا نمبر بھی یاد کرنا چاہیے، ایرانی صدر

انہوں نے کہا کہ امریکی صدر کہتے ہیں کہ انہوں نے خطے میں 7 ہزار ارب ڈالر خرچ کیے تو کیا اتنی رقم خرچ کرنے کے بعد اب امریکا زیادہ محفوظ ہے؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران کے 52 مقدس و مذہبی مقامات کو نشانہ بنانے کے حوالے سے کی گئی ٹوئٹ پر ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ اگر ایسا ہوا تو ہم قانون کے مطابق کارروائی کریں گے، ہم ٹرمپ کی طرح لاقانون لوگ نہیں۔

ایران-امریکا کشیدگی

ایران اور امریکا کے درمیان حالیہ کشیدگی میں شدت اس وقت آئی تھی جب 27 دسمبر کو بغداد کے شمال میں کرکوک میں عراقی فوجی اڈے پر 30 راکٹ فائر ہونے کے نتیجے میں ایک امریکی شہری کی ہلاکت ہوئی۔

جس کے جواب میں امریکی فورسز نے 29 دسمبر کو عسکری آپریشن (او آئی آر) کے تحت ایران کی حامی ملیشیا کتائب حزب اللہ کے عراق اور شام میں 5 ٹھکانوں پر حملہ کیا جس سے 25 جنگجو ہلاک ہوگئے تھے۔

جنگجوؤں کی ہلاکت پر ہزاروں افراد نے بغداد میں موجود امریکی سفارتخانے پر دھاوا بول دیا تھا تاہم اس سے قبل ہی امریکی سفارتکار اور سفارتخانے کے عملے کے بیشتر ارکان کو باحفاظت وہاں سے نکال لیا گیا تھا۔

مظاہرین نے سفارت خانہ بند کرنے کے مطالبے اور پارلیمنٹ سے امریکی فورسز کو ملک چھوڑنے کا حکم دینے پر مبنی پوسٹرز تھامے ہوئے تھے جنہوں نے نہ صرف سفارتخانے پر پتھراؤ کیا بلکہ دیواروں پر نصب سیکیورٹی کیمرے اتار کر پھینک دیے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بغداد میں امریکی سفارتخانے پر مظاہرین کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے اس کا ذمہ دار ایران کو قرار دیا اور تہران کو خبردار کیا تھا کہ اسے اس کی ’بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی‘۔

جس کے جواب میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے عراق میں فضائی حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی تھی کہ ان کا ملک خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔

اس تمام تر تنازع میں مزید کشیدگی اس وقت شدید تر ہوگئی جب امریکا کے ڈرون حملے میں ایران کی القدس فورس کے سربراہ اور انتہائی اہم کمانڈر قاسم سلیمانی مارے گئے ان کے ساتھ عراقی ملیشیا کمانڈر ابو مہدی المہندس بھی حملے میں ہلاک ہوئے۔

پینٹاگون سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’اس حملے کا مقصد مستقبل میں ایرانی حملوں کی منصوبہ بندی کو روکنا تھا اور امریکا اپنے شہریوں اور دنیا بھر میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ناگزیر اقدامات کرتا رہے گا‘ـ

مزید پڑھیں: امریکی سیکریٹری دفاع کا آرمی چیف کو فون،'خطے کی کشیدگی میں کمی کے خواہاں ہیں'

قاسم سلیمانی کی ہلاکت پر ایران کی جانب سے سخت ردِ عمل سامنے آیا اور تہران نے امریکا کو سخت نتائج کی دھمکی دیتے ہوئے اس قتل کا بدلہ لینے کا عزم ظاہر کیا۔

ایران کے ریاستی ٹی وی نے قاسم سلیمانی کے قتل کو جنگ عظیم دوئم کے بعد امریکا کی سب سے بڑے غلطی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ خطے کے عوام اب امریکا کو یہاں مزید قیام کا کوئی موقع نہیں دیں گے۔

بعدازاں 4 جنوری کو عراق کے دارالحکومت بغداد کے گرین زون میں امریکی فوجیوں کے ایک بیس پر راکٹ حملہ کیا گیا تھا تاہم کسی قسم کے نقصان کی اطلاع موصول نہیں ہوئی تھی۔

تبصرے (1) بند ہیں

Mian RASHID IQBAL Jan 09, 2020 09:52pm
Nice informative article