• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:09pm
  • LHR: Zuhr 11:47am Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 11:52am Asr 3:28pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:09pm
  • LHR: Zuhr 11:47am Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 11:52am Asr 3:28pm

امریکا نے فوج کے انخلا کیلئے مشاورت کی عراقی درخواست مسترد کردی

شائع January 11, 2020
عراقی پارلیمنٹ نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ امریکی فوجیوں کو واپس بھیج دیا جائے—فائل/فوٹو:ڈان
عراقی پارلیمنٹ نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ امریکی فوجیوں کو واپس بھیج دیا جائے—فائل/فوٹو:ڈان

امریکا نے عراقی وزیر اعظم عادل عبدالمہدی کی جانب سے 5 ہزار 200 فوجیوں کے انخلا کے حوالے سے مشاورت کے لیے کیے گئے مطالبے کو مسترد کردیا۔

غیر ملکی خبر ایجنسی 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق عراق کے وزیراعظم عادل عبدالمہدی نے امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو سے کہا تھا کہ وہ فوجی کی دستبرداری شروع کرنے کے انتظامات کے لیے ایک وفد بھیج دیں۔

یہ مطالبہ انہوں نے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد پارلیمنٹ کی قرارداد کی روشنی میں کیا تھا۔

تاہم امریکا کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کا کہنا تھا کہ ‘وہ گفتگو کے لیے تیار ہیں لیکن فوجیوں کو منتقل نہیں کیا جائے گا’۔

مزید پڑھیں:امریکا اپنی فوج نکالنے کی تیاری کیلئے وفد عراق بھیجے، عادل عبدالمہدی

اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ترجمان مورگن اورٹگس نے ایک بیان میں کہا کہ ‘اس وقت جو وفد عراق بھیجا جائے گا اس کا عزم ہوگا کہ ہماری اسٹریٹجک شراکت داری کو کیسے بہتربنایا جائے نہ کہ فوجیوں کی دستبرداری کے لیے جائے گا، بلکہ ہماری ترجیح مشرق وسطیٰ میں مناسب فورس کی تعیناتی ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ فورس بہتری کے لیے ہوگی کیونکہ ہم بطور دوست، شراکت دار عراق کو ایک آزاد، خوش حال اور مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں’۔

یاد رہے کہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ماضی میں اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ 2003 میں امریکا کی عراق میں مداخلت ایک غلطی تھی اور امریکی فوجیوں کی تعیناتی پر تنقید کی تھی جبکہ اب عراق کی حکومت کے مطالبے کو مسترد کردیا گیا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی فوجیوں کی بے دخلی کے حوالے سے عراقی حکومت اور پارلیمنٹ کی حالیہ کوششوں پر جارحانہ جواب دیا بلکہ دھمکی بھی دی تھی کہ عراق پر پابندیاں عائد کی جائیں گی۔

یہ بھی پڑھیں:عراقی پارلیمنٹ کا ایرانی جنرل کی ہلاکت کے بعد امریکی فوج کے انخلا کا مطالبہ

سیکریٹری اسٹیٹ مائیک پومپیو نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘عراق میں امریکی فوجیوں کی موجودگی بہت واضح ہے جس کا مقصد مقامی فورسز کی تربیت اور داعش کے خلاف لڑنا ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘جیسے ہی وقت بدل جائے اور ایسا موقع آئے جب صدر اور ہم سمجھیں کہ مشن میں کمی لائی جائے تو ہم ایسا کریں گے’۔

واضح رہے کہ امریکا کی جانب سے 3 جنوری کو فضائی حملے میں ایرانی قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کو بغداد ایئرپورٹ کے قریب نشانہ بنانے کے بعد عراقی پارلیمنٹ نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ ملک میں موجود ہزاروں امریکی فوجیوں کو فوری طور پر واپس بھیج دیا جائے۔

عراقی پارلیمنٹ کے اسپیکر محمد ریکان الحلبوسی نے اعلان کیا تھا کہ ‘پارلیمنٹ نے عراقی حکومت سے عالمی اتحادیوں سے داعش کے خلاف لڑنے کے لیے مدد کی درخواست کو واپس لینے کے حق میں ووٹ دیا ہے’۔

وزیراعظم عادل عبدالمہدی نے اراکین پارلیمنٹ سے کہا تھا کہ ‘ان کے پاس دو راستے ہیں کہ یا تو غیر ملکی فوجیوں کی فوری بے دخلی کے حق میں ووٹ دیں یا پارلیمانی عمل کے ذریعے ان کے اختیارات کا دوبارہ جائزہ لیں’۔

ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد عراق کی وزارت خارجہ نے اسی معاملے پر امریکی سفیر کو طلب کیا تھا جبکہ وزیر اعظم عادل عبدالمہدی نے پارلیمنٹ کے غیر معمولی اجلاس میں شرکت کی تھی، جہاں اس واقعے کو سیاسی قتل قرار دیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں:امریکا نے عراق سے فوجی انخلا کے حوالے سے خط کو 'غلطی' قرار دے دیا

وزیراعظم عادل عبدالمہدی نے پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت کی جہاں 168 اراکین موجود تھے جبکہ 329 اراکین کی حامل پارلیمنٹ میں کورم پورا کرنے کے لیے اتنے ہی اراکین کی موجودگی ضروری ہوتی ہے۔

اس کے اگلے روز امریکی بریگیڈیئر جنرل ولیم سیلی نے اپنے عراقی ہم منصب کو لکھے گئے خط میں کہا تھا کہ 'امریکی افواج عراق سے نکلنے کو تیار ہیں'۔

بعد ازاں 10 جنوری کو عادل عبدالمہدی نے امریکی سیکریٹری اسٹیٹ مائیک پومپیو سے ٹیلی فون پر گفتگو میں ان سے درخواست کی تھی کہ'عراق سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے پارلیمنٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے طریقہ کار طے کرنے امریکا اپنے وفود بغداد بھیجے'۔

یاد رہے کہ امریکا نے 3 جنوری کو بغداد ایئرپورٹ کے قریب ایک فضائی حملے میں ایرانی سپاہ پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ میجر جنرل قاسم سلیمانی سمیت دیگر افراد کو ہلاک کردیا تھا، جس کے بعد ایران نے امریکا سے بدلہ لیتے ہوئے عراق میں امریکی و اتحادی فورسز کے زیر اثر 2 فوجی اڈوں پر درجن سے زائد بیلسٹک میزائل داغے تھے۔

ایران نے اس حملے میں 80 امریکیوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا جبکہ امریکا نے اس دعویٰ کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ تمام امریکی محفوظ ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 14 نومبر 2024
کارٹون : 13 نومبر 2024