عراقی پارلیمنٹ کا ایرانی جنرل کی ہلاکت کے بعد امریکی فوج کے انخلا کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 05 جنوری 2020
عراقی پارلیمنٹ کا غیرمعمولی اجلاس ہوا—فوٹو:رائٹرز
عراقی پارلیمنٹ کا غیرمعمولی اجلاس ہوا—فوٹو:رائٹرز

عراق کی پارلیمنٹ نے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد حکومت پر دباؤ بڑھاتے ہوئے ملک میں موجود ہزاروں امریکی فوجیوں کو فوری طور پر واپس بھیجنے کا مطالبہ کردیا۔

خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق عراقی پارلیمنٹ کے اسپیکر محمد ریکان الحلبوسی نے اعلان کیا کہ ‘پارلیمنٹ نے عراقی حکومت سے عالمی اتحادیوں سے داعش کے خلاف لڑنے کے لیے مدد کی درخواست کو واپس لینے کے حق میں ووٹ دیا ہے’۔

عراقی کابینہ کسی بھی فیصلے کی حتمی منظوری دے گی لیکن وزیراعظم پہلے ہی امریکی فوجیوں کی واپسی کا اشارہ دے چکے ہیں۔

وزیراعظم نے اراکین پارلیمنٹ سے کہا تھا کہ ‘ان کے پاس دو راستے ہیں کہ یا تو غیر ملکی فوجیوں کی فوری بے دخلی کے حق میں ووٹ دیں یا پارلیمانی عمل کے ذریعے ان کے اختیارات کا دوبارہ جائزہ لیں’۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز امریکی حملے میں ایرانی پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد عراق میں امریکی تنصیات کو درپیش خطرات میں اضافہ ہوگیا ہے جہاں رات گئے بغداد میں امریکی سفارت خانے کے قریب راکٹ حملہ کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں:ایرانی کمانڈر قاسم سلیمانی کا جسد خاکی ایران منتقل

بغداد ایئرپورٹ کے قریب ایرانی جنرل کے ہمرا عراقی پیراملیٹری کے سربراہ ابو مہدی المہندس کی ہلاکت کے بعد عراق اور امریکا کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی تھی۔

عراقی وزارت خارجہ نے اسی معاملے پر امریکی سفیر کو طلب کیا تھا جبکہ قائم مقام وزیراعظم عادل عبدالمہدی نے پارلیمنٹ کے غیرمعمولی اجلاس میں شرکت کی تھی جہاں اس حملے میں ہلاک افراد کے واقعے کو سیاسی قتل قرار دیا گیا۔

وزیراعظم عادل عبدالمہدی نے پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت کی جہاں 168 اراکین موجود تھے جبکہ 329 اراکین کی حامل پارلیمنٹ میں کورم پورا کرنے کے لیے اتنے ہی اراکین کی موجودگی ضروری ہوتی ہے۔

رپورٹس کے مطابق عراق میں موجود امریکی فوجیوں کی تعداد 5 ہزار 200 کے قریب ہے جو مختلف علاقوں میں تعینات ہیں اور مقامی فوج کو داعش کے خلاف لڑنے کے لیے تربیت بھی دے رہے ہیں۔

امریکی اتحادیوں میں دراڑ

عراق میں داعش کے خلاف لڑنے والی حشید الشعبی فورس سے منسلک اور ایران کے قریب تصور کیے جانے والے کئی اراکین پارلیمنٹ نے سخت ردعمل دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ غیرملکی فوجیوں کو فوری طور پر ملک سے نکال باہر کردیا جائے۔

اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق پارلیمنٹ کے اجلاس میں کرد سمیت کئی علاقوں سے تعلق رکھنے والے اراکین نے شرکت نہیں کی جو ایران کی موجودگی میں امریکی فوج کی تعیناتی کے حق میں ہیں۔

حشید الشعبی سے منسلک اراکین نے انہیں دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر انہوں نے بائیکاٹ کیا تو اس کو عراق سے غداری تصور کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں:'ایرانی کمانڈر پر حملے میں امریکا نے سعودی عرب سے مشاورت نہیں کی'

امریکا کے سابق عہدیدار اور اٹلانٹک کونسل کے موجودہ فیلو ٹام ویرک کا کہنا تھا کہ جنرل قاسم سلیمانی اور حشید الشعبی کے اندر موجود ایرانی حامی طبقہ پہلے بھی امریکی انخلا کا خواہاں تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘اگر امریکا فوجیوں کو دستبردار کردیتا ہے تو یہ بعد از مرگ قاسم سلیمانی کی فتح ہو سکتی ہے’۔

پارلیمنٹ کے اجلاس میں امریکی اتحادی نے اعلان کیا کہ وہ بیس میں خون ریز راکٹ حملوں کے نتیجے میں عراق میں اپنی سرگرمیوں کو معطل کررہے ہیں۔

بیان میں کہا گیا کہ ‘ہمیں اپنے شراکت داروں کے ساتھ ان کی تربیت اور داعش کے خلاف آپریشن کے لیے راستے محدود ہوگئے ہیں اسی لیے ہمیں اپنی سرگرمیوں کو روکنا پڑا ہے جس پر مسلسل جائزہ لیا جائے گا’۔

تبصرے (0) بند ہیں