امریکا نے عراق سے فوجی انخلا کے حوالے سے خط کو 'غلطی' قرار دے دیا

اپ ڈیٹ 08 جنوری 2020
امریکی ڈیفنس سیکریٹری مارک ایسپر نے کہا کہ خط امریکی موقف کی عکاسی نہیں کرتا— فائل فوٹو: اے ایف پی
امریکی ڈیفنس سیکریٹری مارک ایسپر نے کہا کہ خط امریکی موقف کی عکاسی نہیں کرتا— فائل فوٹو: اے ایف پی

ایرانی فوجی جنرل کی ہلاکت کے بعد عراق میں امریکی فوجی حکمت عملی تذبذب کا شکار ہے اور امریکی جنرل کی جانب سے عراقی ہم منصب کو عراق سے امریکی فوج کے انخلاف کے حوالے سے خط کو پینٹاگون نے غلطی قرار دے دیا ہے۔

یاد رہے کہ جمعہ کو عراق میں امریکی فضائی حملے میں ایران کی پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ قاسم سلیمانی سمیت 9 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

مزید پڑھیں: امریکا ایران تنازع: عالمی سطح پر تیل اور سونے کی قیمتوں میں اضافہ

اس ہلاکت کے بعد دونوں ممالک کے حالات کشیدہ ہو گئے تھے اور عراق نے بھی غیرملکی افواج سے انخلا کا مطالبہ کیا تھا۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق امریکی بریگیڈیئر جنرل ولیم سیلی نے اتوار کو اپنے عراقی ہم منصب کو لکھے گئے خط میں کہا تھا کہ امریکی افواج عراق سے نکلنے کو تیار ہیں۔

اس خط کی عراقی اور امریکی دفاعی حکام کی جانب سے تصدیق کی گئی ہے جس میں امریکی بریگیڈیئر جنرل نے کہا تھا کہ ہم آپ کی جانب سے ہماری افواج کی روانگی کے حکمنامے کی خودمختاری کا احترام کرتے ہیں۔

انہوں نے امریکی افواج کی کسی دوسری جگہ تعیناتی کا عندیہ دیتے ہوئے خط میں مزید کہا کہ اس عمل کی انجام دہی کے لیے اتحادی افواج کو چند اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ عراق سے باہر نقل و حرکت محفوظ اور موثر طریقے سے انجام دی جا سکے گی۔

یہ بھی پڑھیں: 52 اہداف کا ذکر کرنے والوں کو 290 کا نمبر بھی یاد کرنا چاہیے، ایرانی صدر

ان کا کہنا تھا کہ ان تیاریوں کے سلسلے میں ہیلی کاپٹر بغداد کے گرین زون میں آتے جا تے رہیں گے جہاں امریکی سفارتخانہ بھی واقع ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی نے تصدیق کی کہ پیر کی رات بغداد میں امریکی ہیلی کاپٹرز پرواز کر رہے تھے۔

تاہم پینٹاگون کے جوائنٹ چیفس کے چیئرمین مارک میلی نے خط ارسال کرنے کو ایک غلطی قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ محض ایک ڈرافٹ تھا اور اسے بھیجا نہیں جانا چاہیے تھا، یہ ایک غلطی ہے، یہ ایک غیر دستخط شدہ ڈرافٹ تھا کیونکہ ہم اپنی افواج کی نقل و حرکت کر رہے ہیں۔

امریکی سیکریٹری دفاع مارک ایسپر نے بھی امریکی افواج کے عراق سے انخلا کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ یہ خط امریکی موقف کی عکاسی نہیں کرتا۔

مزید پڑھیں: ایران: جنرل قاسم سلیمانی کی تدفین کےدوران بھگدڑ، 35 افراد ہلاک

قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد ایران اور عراق میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے جہاں اتوار کو عراقی پارلیمنٹ نے حکومت سے ملک میں موجود تمام غیرملکی افواج کے انخلا کا مطالبہ کیا تھا۔

داعش کے شدت پسندوں سے لاحق خطرات میں مقامی افواج کی مدد کے لیے عراق کے مختلف فوجی اڈوں پر مجموعی طور پر 5 ہزار 200 امریکی فوجی تعینات ہیں جہاں 2014 میں عراق نے شدت پسند گروپوں کے خلاف لڑائی میں مدد کے لیے امریکا سے مدد کی درخواست کی تھی اور اس وقت سے دونوں ممالک کی افواج اتحادیوں کی شکل میں ملک میں شدت پسند گروپوں کے خلاف برسرپیکار ہیں۔

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنائی نے پیر کو تہران یونیورسٹی کے اطراف قاسم سلیمانی کی نماز جنازہ پڑھائی تھی جس میں رپورٹس کے مطابق 10 لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی تھی۔

62 سالہ فوجی جرنل کی ہلاکت کے بعد ایران نے جوہری معاہدے کی مزید پاسداری نہ کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد دونوں ملکوں میں مزید کشیدگی کے امکانات ظاہر کیے جارہے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ایران کے ساتھ تناؤ میں کمی کی کوششوں پر امریکا، وزیراعظم عمران خان کا معترف

یورپی یونین کے ڈپلومیٹک سربراہ جوزیپ بوریل نے ایران کے اس اعلان پر افسوس کا اظہار کیا تھا جبکہ یورپی یونین نے ایران اور عراق دونوں کو خبردار کیا کہ کشیدگی میں اضافہ دونوں ممالک کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ کا جارحانہ طرز عمل برقرار ہے اور انہوں نے دھمکی دی تھی کہ اگر ایران نے کسی بھی قسم کی کارروائی کی تو وہ ان کے 52 ثقافتی مقامات کو نشانہ بنائیں گے۔

اس کے بعد انہوں نے واضح الفاظ میں خبردار کیا کہ ایران کے پاس کبھی بھی جوہری ہتھیار نہیں ہوں گے۔

امریکی دھمکی کے جواب میں ایران کے صدر حسن روحانی نے سخت موقف اپناتے ہوئے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ ‘جو 52 کے نمبر کا حوالہ دے رہے ہیں انہیں آئی آر 655 کے 290 کے نمبر کو بھی یاد کرلینا چاہیے’۔

مزید پڑھیں: امریکا کا ایرانی وزیرخارجہ کو ویزا دینے سے انکار

عراق نے اقوام متحدہ کو لکھے گئے خط میں مطالبہ کیا کہ سیکیورٹی کونسل امریکی ڈرون حملے کی مذمت کرے تاکہ جنگل کے قانون کو پروان چڑھنے کی اجازت نہ دی جائے۔

امریکا کے ہاتھوں ایرانی فوجی کمانڈر کی ہلاکت کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں پیدا ہونے والے بحران کے بعد تیل اور سونے کی قیمتیں 6 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں