جنگلات کی زمین قبضہ مافیا سے حاصل کی جائے، سپریم کورٹ کا حکومت سندھ کو حکم

اپ ڈیٹ 06 فروری 2020
چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی — فائل فوٹو: اے ایف پی
چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی — فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے حکومت سندھ کو صوبے میں زمینوں سے قبضہ چھڑوانے، جنگلات کی زمین کی تمام غیر قانونی الاٹمنٹس کی منسوخی اور اس کا قبضہ حاصل کرنے کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس گلزار احمد کے تحریر کروائے گئے فیصلے میں کہا گیا کہ ’اس سلسلے میں کوئی غفلت برداشت نہیں کی جائے گی اور چیف کنزرویٹر عدالتی احکامات پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں‘۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

یہ بھی پڑھیں:بحریہ ٹاؤن بھی محکمہ جنگلات کی زمین پر قابض ہے، چیف جسٹس

درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ حکومت سندھ کو صوبے کے جنگلات پر ہاؤسنگ اسکیمز، ٹاؤن شپز، زمین کی تقسیم، زمینی اصلاحات اور دیگر اسکیمز اور پالیسیز متعارف کروانے سے روکا جائے جو جنگلات کی کٹائی یا اراضی پر قبضے کی وجہ بن رہی ہے۔

سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے چیف کنزرویٹو برائے جنگلات اعجاز نظامانی کو عدالتی احکامات پر عملدرآمد کروانے کے لیے چیف سیکریٹری سندھ کی معاونت حاصل کرنے کا حکم دیا۔

عدالت نے آئندہ سماعت پر چیف کنزرویٹو کی جانب سے جی آئی ایس (جغرافیائی معلوماتی نظام) تصویری رپورٹ کے ساتھ صوبے کے جنگلات کی تمام اراضی کی نشاندہی پر مشتمل جامع رپورٹ طلب کرلی۔

گزشتہ سماعت میں سندھ کے چیف کنزرویٹو برائے جنگلات نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ صوبے میں جنگلات کی 28 لاکھ ایکڑ زمین میں سے 50 ہزار ایکڑ زمین پر قبضہ ہے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کا سندھ میں جنگلات کی کٹائی کا کیس نیب کو بھجوانے کا عندیہ

انہوں نے کہا کہ ’محکمہ جنگلات کی جانب سے زمین واپس حاصل کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں، ساتھ ہی انہوں نے سندھ ریونیو ڈپارٹمنٹ کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہا کہ زمین کے وسیع حصے کو غیر قانونی طور پر الاٹ کیا گیا۔

اپنے حکم میں سپریم کورٹ نے کہا کہ محکمہ جنگلات کے اہلکار بھی جنگلات کی زمین پر قبضوں اور غیر قانونی الاٹمنٹ میں ملوث ہیں، زیادہ تر ان افراد کے ذریعے جو اقتدار میں ہیں۔

خیال رہے کہ درخواست گزار قاضی اطہر نے وزیراعلیٰ سندھ کی جانب سے 2010 میں تیار کردہ جنگلات کی حیثیت تبدیل کر کے ’ریونیو لینڈ‘ کرنے کی سمری کو چیلنج کیا اور سال 2012 میں بورڈ آف ریونیو کے لینڈ یوٹیلائزیشن ڈپارٹمنٹ کے لیے جنگلات کی حیثیت میں تبدیلی کے نوٹیفکیشن کی منسوخی کے لیے محکمہ جاتی اقدامات پر بھی سوال اٹھائے۔

درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی کہ سندھ میں جنگلات کی تمام 28 لاکھ، 58 ہزار 748 ایکڑ زمین کو قومی اثاثہ اور محفوظ علاقہ قرار دیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: جنگلات کی 21ہزار ایکڑ کی الاٹمنٹ پر حکم امتناع

اس کے ساتھ انہوں نے یہ بھی درخواست کی کہ جنگلات کی زمین سے قبضہ مافیا کو بے دخل اور زمین کی الاٹمنٹ یا لیز کو منسوخ کیا جائے۔

درخواست میں کہا گیا کہ 19 جون 2015 کو سندھ کے وزیراعلیٰ نے مالکانہ حقوق کی بنیاد پر 9 ہزار 552 ایکڑ زمین پاک فوج کے شہید جوانوں کے اہلِخانہ میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

جس کے لیے وزیراعلیٰ نے چیف سیکریٹری اور محکمہ جنگلات کو ضلع شکار پور اور دیگر اضلاع میں موجود جنگلات کی حیثیت میں تبدیلی کی سمری منظوری کے لیے بھیجنے کی ہدیات کی تھی۔

درخواست میں کہا گیا کہ شہید بینظیر آباد (نوابشاہ) کا نصری جنگل بحریہ ٹاؤن کو ان کے میگا پروجیکٹ کی تعمیر کے لیے دے دیا گیا۔

درخواست گزار نے بتایا کہ کراچی میں کاٹھور ریزرو فاریسٹ اورگرین بیلٹ کی ہزاروں ایکڑ زمین بحریہ ٹاؤن کو الاٹ کی گئی، ملک بھر میں جنگلات کی زمین پر قبضہ ان کی لاہور اور راولپنڈی کے محفوظ جنگلات کے حوالے سے پچھلی پریکٹسز کا ہی ایک حصہ ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں