شریف خاندان کی شوگر ملز پر چھاپہ، چینی کی 55 ہزار بوریاں ضبط

اپ ڈیٹ 25 فروری 2020
ضلعی پولیس افسر کے ترجمان جام ساجد نے اس بات کی تصدیق کی کہ ملز پر چھاپہ مارا گیا تھا—تصویر: شٹراسٹاک
ضلعی پولیس افسر کے ترجمان جام ساجد نے اس بات کی تصدیق کی کہ ملز پر چھاپہ مارا گیا تھا—تصویر: شٹراسٹاک

بہاولپور: پولیس، خفیہ اداروں کے اہلکاروں اور صوبائی محکمہ صنعت کے عہدیداروں پر مشتمل ایک ٹیم نے چنی گوٹھ کے نزدیک شریف خاندان کی زیر ملکیت شوگر ملز پر چھاپہ مار کر چینی کی ’55 ہزار ذخیرہ کردہ بوریاں برآمد کرلیں‘۔

پولیس اور دیگر ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ مذکورہ چھاپہ پولیس کی اسپیشل برانچ سے ایک خفیہ اطلاع موصول ہونے پر مارا گیا۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ احمد پور کے اسسٹنٹ کمشنر کی سربراہی میں محکمہ صنعت کے ضلعی افسران، پولیس کی اسپیشل برانچ اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں پر مشتمل ٹیم نے ملز کے گودام پر چھاپہ مار کر چینی قبضے میں لے لی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ لاکھوں روپے مالیت کی چینی کی بوریاں قبضے میں لینے کے بعد گودام کو مہر بند (سیل) کردیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: ہمیں معلوم ہے کہ سندھ میں چینی کہاں ذخیرہ ہورہی ہے، فردوس عاشق اعوان

خیال رہے کہ چنی گوٹھ میں شریف خاندان کی زیر ملکیت ملز میں حالیہ کرشنگ سیزن کے دوران کام نہیں ہوا کیوں وہ قانونی چارہ جوئی کے باعث بند پڑی تھیں۔

تاہم کسی بھی سرکاری محکمے کی جانب سے ذخیرہ کردہ چینی کی برآمدگی کے حوالے سے باضابطہ طور پر کوئی پریس ریلیز جاری نہیں کی گئی۔

دوسری جانب ضلعی پولیس افسر کے ترجمان جام ساجد نے اس بات کی تصدیق کی کہ ملز پر چھاپہ مارا گیا تھا، انہوں نے بتایا کہ چھاپے کے بعد گودام کو سیل کردیا گیا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ مقامی پولیس کو ملز انتظامیہ کے خلاف کی گئی کسی بھی کارروائی کی اطلاع نہیں دی گئی اور ضلعی انتظامیہ اس معاملے کی نگرانی کررہی ہے۔

مزید پڑھیں: اومنی گروپ کی شوگر ملیں چل رہی ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں، جہانگیر ترین

اس ضمن جیو ٹی وی چینل نے اتفاق شوگر ملز کے منیجر کے حوالے سے بتایا کہ مذکورہ اسٹاک 2 سیزن سے زائد پرانا ہے جسے قانونی چارہ جوئی کے باعث استعمال نہیں کیا جاسکا، انہوں نے ذخیرہ اندوزی کے معاملے کو مسترد کردیا۔

خیال رہے کہ ستمبر 2017 میں لاہور ہائی کورٹ نے شریف خاندان کے اراکین کی زیر ملکیت اتفاق شوگر ملز (چنی گوٹھ)، حسیب وقاص شوگر ملز (مظفر گڑھ) اور چوہدری شوگر ملز (رحیم یار خان) کو 3 ماہ کی مدت میں ان کے سابقہ مقام پر منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔

لاہور ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور جے ڈبلیو شوگر ملز کے مالک جہانگیر ترین کی دائر کردہ درخواست پر سنایا تھا جس میں انہوں نے موقف اختیار کیا تھا کہ شوگر ملز کی منتقلی پر پابندی عائد ہونے کے باجود ان ملز کو نئے مقام پر منتقل کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم نے چینی کی قیمتوں میں اضافے کی تحقیقات کیلئے کمیٹی قائم کردی

اس سے قبل مارچ 2017 میں لاہور ہائی کورٹ نے شریف خاندان کی زیر ملکیت 3 میں سے 2 ملز کو مہر بند (سیل) کرنے کا حکم دیا تھا۔

بعدازاں ستمبر 2018 میں سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف شریف خاندان کی جانب سے دائر درخواستیں مسترد کردیں تھیں اور تینوں شوگر ملز کو جنوبی پنجاب سے واپس وسطی پنجاب میں ان کے گزشتہ مقام پر منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔


یہ خبر 25 فرری 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں