سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود ملک میں او پی ڈیز مکمل بحال نہ ہوسکیں

صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں او پی ڈیز کو مکمل طور پر فعال نہیں کیا جا سکا — فائل فوٹو: ڈان
صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں او پی ڈیز کو مکمل طور پر فعال نہیں کیا جا سکا — فائل فوٹو: ڈان

سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم کے باوجود ملک بھر کے سرکاری ہسپتالوں میں ابھی تک او پی ڈیز مکمل طور پر فعال نہیں ہو سکیں اور صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں او پی ڈیز تقریباً مکمل طور پر بند ہیں۔

سپریم کورٹ نے عوام کی مشکلات کو دیکھتے ہوئے ہسپتالوں کو فوری طور پر او پی ڈیز کھولنے اور عوام کو سہولیات کی فراہمی کی ہدایت کی تھی۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں کورونا وائرس سے 4416 افراد متاثر، 500 سے زائد صحتیاب

سندھ

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی جانب سے تنقید اور حکم کے بعد حکومت سندھ نے بدھ کو سرکاری ہسپتالوں کی او پی ڈیز کھولنے کا فیصلہ کیا تھا۔

جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل کالج کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سیمی جمالی نے کہا کہ ہسپتال میں او پی ڈی کھلی ہوئی ہے لیکن کورونا وائرس کے سبب لگائی گئی پابندیوں کی وجہ سے مریضوں کی تعداد معمول سے انتہائی کم ہے۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ جناح ہسپتال نے اپنی او پی ڈی بند نہیں کی تھی جبکہ این سی ایچ میں بھی یہی صورتحال تھی کیونکہ وہاں بھی او پی ڈیز کھلی ہوئی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: اے ڈی بی نے کورونا وائرس سے نمٹنے کیلئے پاکستان کو مزید 5 کروڑ ڈالر دینے کا اعلان کردیا

البتہ ڈاکٹر سیمی جمالی نے بتایا کہ سیکیورٹی اسٹاف اور ایک ڈپٹی ڈائریکٹر کو تعینات کردیا گیا ہے تاکہ ہسپتال میں بھیڑ جمع نہ ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ جے پی ایم سی غریبوں کا ہسپتال ہے لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے مریضوں کی تعداد انتہائی کم ہوگئی ہے کیونکہ پہلے تقریباً 5 ہزار مریض یومیہ آتے تھے لیکن اب بمشکل 350 سے 380 مریض آتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ عام دنوں میں 1500 سے 1700 مریض روزانہ ایمرجنسی کا دورہ کرتے تھے لیکن اب یہ تعداد بھی کم ہو کر 700 سے 800 تک پہنچ گئی ہے۔

ایگزیکٹو ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ خصوصی کلینکس میں 800 مریض روزانہ کی بنیاد پر آتے تھے لیکن وہاں بھی تعداد کم ہو کر 150 ہو گئی ہے۔

مزید پڑھیں: لاک ڈاؤن میں کن چیزوں میں نرمی کرنی ہے یہ فیصلہ صوبوں کا ہوگا،عمران خان

ڈاکٹر رتھ فاؤ ہسپتال کراچی کے ایک سینئر عہدیدار نے کہا کہ او پی ڈی کھلی تو لوگوں کی بھیڑ جمع ہو گئی لہٰذا محکمہ صحت کو وائرس سے بچاؤ اور اس کے تدارک کے لیے خصوصی ہدایات جاری کرنی چاہیئیں۔

انہوں نے تجویز دی کہ طبی عملے کو مرکزی دروازے پر تعینات کردینا چاہیے تاکہ وہ مریضوں کا معائنہ کر سکیں اور وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے انہیں صرف ایک فرد کے ساتھ اندر آنے دیں۔

ادھر عباسی شہید ہسپتال میں موجود ذرائع نے بتایا کہ او پی ڈی ابھی بھی بند ہیں۔

پنجاب

دوسری جانب پنجاب کی وزیر صحت یاسمین راشد نے کہا کہ ہسپتالوں کی او پی ڈیز کھل گئی ہیں لیکن چند ڈپارٹمنٹس ابھی بھی بند ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ حکومت کا بجلی، گیس صارفین، کرایہ داروں کے ریلیف کیلئے بڑا فیصلہ

ان کا کہنا تھا کہ ہسپتالوں کے او پی ڈی میں ای این ٹی، ڈینٹسٹ، ڈرماٹولوجسٹ سمیت 4 ڈپارٹمنٹ تاحال بند ہیں کیونکہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے تمام ڈپارٹمنٹس ایک دم نہیں کھول سکتے جبکہ آؤٹ ڈورز میں کچھ محکمے لوگوں کے رش کو روکنے کی وجہ سے نہیں کھولے گئے۔

انہوں نے کہا کہ صوبائی دارالحکومت لاہور میں کورونا کے مریضوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے اور لاہور کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر تھوڑا سا مسئلہ رہے گا۔

مزید پڑھیں: کورونا کے خلاف مزید احتیاط اور ذمہ داری کی ضرورت ہے، ظفر مرزا

وزیر صحت کا کہنا تھا کہ میو ہسپتال میں ٹرائی ایج کا سسٹم شروع کیا ہوا ہے جبکہ ٹرائی ایج میں مشکوک علامات کے افراد کے ٹیسٹ کیے جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ جن لوگوں کے کورونا کے ٹیسٹ مثبت آئے ہیں انہیں میو ہسپتال، پی کے ایل آئی اور ایکسپو سینٹر میں داخل کریں گے۔

خیبر پختونخوا

خیبرپختونخوا میں صورتحال انتہائی تشویشناک ہے اور کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے مریضوں اور عملے کی کمی کے سبب صوبے کے 80 سے 90 فیصد ہسپتالوں کی او پی ڈیز بند ہیں۔

پشاور میں لیڈی ریڈنگ ہسپتال سمیت اکثر ہسپتالوں میں او پی ڈیز نہیں کی جا رہیں جبکہ ضلعی ہسپتالوں میں بھی عملے کی کمی کی وجہ سے او پی ڈیز بند پڑی ہیں۔

ضلعی ہسپتال کے ایک سینئر عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان کو بتایا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے ہمیں اسٹاف کی شدید کمی کا سامنا ہے جس کی وجہ سے او پی ڈیز چلانا ممکن نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ قرنطینہ وارڈ قائم کر دیے ہیں جس میں اسٹاف 24 گھنٹے دستیاب ہے لیکن دو دن بعد حفاظتی تدابیر کے طور پر طبی عملے کو بھی آئسولیشن میں رکھنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے عملہ انتہائی کم ہو گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بل کلنٹن و مونیکا کا اسکینڈل سامنے لانے والی خاتون چل بسیں

ان کا کہنا تھا کہ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ایمرجنسی کو بھی چلانا ہوتا ہے لہٰذا ایسی صورتحال میں اتنے کم عملے کے ساتھ ہم او پی ڈیز کو کیسے آپریشنل رکھ سکتے ہیں۔

صوبے کے تمام ٹیچنگ ہسپتالوں میں صرف ایمرجنسی کیسز کو دیکھا جا رہا ہے اور ڈاکٹرز اور عملے کی قلت کی وجہ سے معمولی بیماریوں کے حامل مریضوں کو نہیں دیکھا جا رہا۔

بلوچستان

بلوچستان میں بھی سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود او پی ڈیز کو فی الحال نہیں کھولا گیا۔

بلوچستان کے کسی بھی ہسپتال میں او پی ڈیز نہیں کھلیں اور فی الحال یہ کہنا مشکل ہے کہ بلوچستان میں او پی ڈیز کب تک کھلیں گی۔

یہ بھی پڑھیں: ڈاؤ یونیورسٹی کے ماہرین نے کورونا کی راہ میں مزاحم جینیاتی تبدیلیاں دریافت کرلیں

دوسری جانب بلوچستان میں احتجاج کرنے والے ڈاکٹرز اور حکومت کے درمیان آج مذاکرات ہوئے لیکن اس میں کوئی خاطر خواہ پیشرفت نہیں ہو سکی۔

اسلام آباد

تاہم وفاقی دارالحکومت اسلام آباد نے دفعہ 144 کے نفاذ کے نتیجے میں او پی ڈیز کی بندش پر عائد پابندی عوام کی مشکلات کو دیکھتے ہوئے ہٹا لی ہے۔

او پی ڈیز کو کھولنے کے ساتھ ساتھ تمام ہسپتالوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے حکومت کی جانب جاری کردہ ہدایات خصوصاً سماجی فاصلے پر سختی سے عملدرآمد یقینی بنائیں۔

مزید پڑھیں: 'قابل اعتراض مواد نشر کرنے پر بول ٹی وی کے پروگرام چیمپیئنز پر پابندی برقرار'

یاد رہے کہ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں کورونا وائرس ہر گزرتے دن کے ساتھ پھیلتا جا رہا ہے اور اب تک ملک بھر میں 4 ہزار 479 افراد وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں جبکہ 65 افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔

وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے ملک بھر کے ہسپتالوں میں او پی ڈیز کو بند کردیا گیا لیکن عوام کی مشکلات کو دیکھتے ہوئے سپریم کورٹ نے ہسپتالوں کی او پی ڈیز کھولنے کا حکم دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں