اٹلی میں نئے نوول کورونا وائرس کی وبا کی شدت میں لگتا ہے کہ اب نمایاں کمی آنا شروع ہوگئی ہے۔

اٹلی میں گزشتہ 24 گھنٹوں میں 431 اموات ہوئیں جو کہ گزشتہ 3 ہفتوں کے دوراں سب سے کم ہیں جبکہ آئی سی یو میں زیرعلاج مریضوں کی تعداد میں کمی سے بھی عندیہ ملتا ہے کہ وبا کی شدت میں کمی آرہی ہے۔

اس سے قبل 19 مارچ کو 427 ہلاکتیں ہوئی تھیں، جس کے بعد روزانہ کی بنیاد پر تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا، مگر اب تین ہفتوں میں سب سے کم ہلاکتیں ریکارڈ ہوئی ہیں۔

اس سے ایک دن قبل اٹلی میں 619 ہلاکتیں ہوئی تھیں جبکہ مجموعی ہلاکتیں 19 ہزار 899 تک پہنچ گئیں، جبکہ امریکا کے بعد اٹلی اس وقت ہلاکتوں کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا متاثرہ ملک ہے۔

امریکا نے گزشتہ روز ہلاکتوں کی تعداد میں اٹلی کو پیچھے چھوڑا تھا اور وہاں اب تک 21 ہزار سے زائد افراد اس بیماری سے ہلاک ہوچکے ہیں۔

اٹلی میں نئے کیسز کی تعداد میں بھی کمی آئی ہے جو 4092 رہی جبکہ اس سے ایک دن قبل یہ تعداد 4694 تھی۔

اٹلی دنیا بھر میں ایک لاکھ 56 ہزار سے زائد کیسز کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے، اسپین ایک لاکھ 66 ہزار سے زائد کیسز کے ساتھ دوسرے جبکہ امریکا 5 لاکھ 37 ہزار سے زائد کیسز کے ساتھ سرفہرست ہے۔

اٹلی میں اب تیک 34 ہزار افراد اس بیماری کو شکست بھی دے چکے ہیں۔

اٹلی چین سے باہر یورپ کا پہلا ملک تھا اور 9 مارچ سے اٹلی کے 6 کروڑ افراد اپنے گھروں میں قید ہیں اور اس کا دورانیہ 3 مئی تک بڑھا دیا گیا ہے۔

نئے اعدادوشمار کے مطابق آئی سی یو میں زیرعلاج مریضوں کی تعداد میں مسلسل 9 ویں دن کمی آئی ہے جو 3 اپریل کو 4068 تک پہنچ گئی تھی۔

اسی طرح وائرس کی منتقلی اور کیسز کی تعداد میں آنے والی کمی حوصلہ بخش ہے۔

رواں ماہ کے آغاز میں ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اٹلی وائرس کے پھیلنے کی رفتار میں کمی لانے میں کامیاب ہورہا ہے۔

ماہرین کو پہلے ہی توقع تھی کہ اٹلی میں مارچ کے آخر اور اپریل کے شروع میں کیسز کی تعداد میں کمی آئے گی جس کی وجہ سے کچھ ہفتے پہلے لاک ڈائون کا اقدام ہے۔

اٹالین نیشنل انسیٹیٹوٹ آف ہیلتھ کے سائنسدانوں کے مطاق یہ بہت اہم ہے کہ ایسے شواہدد سامنے آئیں کہ جو ہم کررہے ہیں اس کے اثرات مرت ہورہے ہیں، لاک ڈائون بہت سخت اقدام ہے خصوصاً اتنے بڑے پیمانے پر جس سے سماجی اور معاشرتی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

مگر ماہرین ابھی خوشی منانے کے لیے تیار نہیں اور ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ان اعدادوشمار پر خوش نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ ابھی متعدد کیسز ایسے ہوں گے جو کووڈ 19 کے شکار ہوں گے مگر اب تک ان کے ٹیسٹ نہیں ہوئے، معتدل علامات یا بغیر علامات ظاہر ہوئے بیمار افراد کی تعداد بہت زیادہ ہوسکتی ہے۔

میلان کے ساکو ہاسپٹل کے وبائی امراض یونٹ کے سربراہ میسیمو گیلی نے کہا کہ معتدل کیسز کی تعداد بڑھ سکتی ہے جو تشخیص میں نہیں آتے' ابھی پیشگوئی کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ ابھی بہت کچھ جاننا باقی ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ نئے ڈیٹا پر کچھ ریلیف ضرور ملے گا کیونکہ اس سے عندیہ ملتا ہے کہ ہسپتالوں پر دبائو کم ہوگا اور زیادہ سنگین کیسز کی تعداد میں کمی آئے گی۔

کتنا وقت مزید درکار ہوگا؟

اٹالین سول پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ کے مطابق مزید 3 سے 4 ہفتوں میں پھیلائو کی رفتار پر ممکنہ طور پر قابو پالیا جائے گا، کیونکہ 6 سے 7 مارچ کے دوران یہ شرح 26.9 فیصد تھی جو گزشتہ ہفتوں کے دوران بہت زیادہ کم ہوچکی ہے۔

کیا دیگر ممالک اٹلی سے کچھ سیکھ سکتے ہیں؟

ماہرین کا کہنا تھا کہ دیگر ممالک کو اٹلی کی غلطیوں اور کامیابیوں دونوں سے سبق سیکھنا چاہیے۔

اٹلی کے تجربے سے ممالک سیکھ سکتے ہیں کہ انہیں اس مرض کی روک تھام کے لیے اقدامات فوری طور پر کرنے چاہئیں اور وبا کے پھیلنے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔

اٹلی میں پہلا کیس تو 20 فروری کو دریافت ہوا تھا مگر یہ وائرس اس سے بھی پہلے پھیلنا شروع ہوچکا تھا، بس پکڑ میں نہیں آیا تھا۔

کچھ حلقوں کے مطابق وائرس کی دریافت کے بعد بھی اٹلی کے حکام نے لاک ڈاؤن لگانے میں بہت تاخیر کی کیونکہ اسے لڑکھڑاتی معیشت میں مزید خرابی کا ڈر تھا۔

ماہرین کہتے ہیں کہ اٹلی کے تجربے دیگر ممالک کو سبق ملتا ہے کہ وہ اس مسئلے کو مزید نظرانداز نہیں کرسکتے اور انہیں اٹلی کی غلطیوں سے سیکھنا چاہیے۔

مگر ماہرین کے مطابق دنیا کو یہ بھی سیکھنا چاہیے کہ اٹلی نے کیا کچھ درست کیا۔

نئے کیسز کی تعداد میں کمی کی بڑی وجہ سخت قسم کا لاک ڈاؤن ہی ہے جس میں ہر طرح کے کاروبار کو بند کردیا گیا، غیر ضروری نقل و حمل روک دی گئی، جس سے وائرس کے پھیلائو کی شرح میں کمی آئی اور اس کا حجم سکڑنے لگا۔

ماہرین کے مطابق اٹلی کی حکومت نے شروع میں سست ردعمل کا اظہار کیا مگر پھر بہت جارحانہ قسم کی پالیسی اختیار کی اور اٹلی میں یورپی یونین کے دیگر ممالک کے مقابلے میں زیادہ ٹیسٹ کیے گئے۔

اٹلی کی غلطیوں اور کامیابیوں سے قطع نظر وہاں اموات کی شرح بہت زیادہ ہونا دنیا کو یہ بتاتا ہے کہ یہ وائرس کتنا خطرناک ہوسکتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں