ہیومن رائٹس واچ کا سعودی عرب میں فلسطینی، اردنی شہریوں کے ’ٹرائل‘ پر اظہار تشویش

اپ ڈیٹ 18 اپريل 2020
زیر حراست افراد کے اہلِ خانہ احتجاج کرتے ہوئے—فائل فوٹو: اے پی
زیر حراست افراد کے اہلِ خانہ احتجاج کرتے ہوئے—فائل فوٹو: اے پی

دنیا بھر میں انسانی حقوق کی نگرانی کرنے والی عالمی تنظیم ہومن رائٹس واچ نے سعودی عرب میں قید فلسطینی اور اردنی شہریوں کے بڑے پیمانے پر مقدموں اور استحصال کے الزامات پر سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ نیوز کی رپورٹ کے مطابق مارچ 2018 میں سعودی حکام نے نامعلوم ’دہشت گرد تنظیم‘ سے تعلق کے الزام میں ملک میں فلسطینی اور اردنی رہائشیوں کے گروہ کو ہدف بناتے ہوئے بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ قیدیوں کو 2 سال تک بغیر کسی الزام کے زیر حراست رکھنے کے بعد سعودی حکام نے گزشتہ ماہ ریاض کی خصوصی کرمنل کورٹ میں بند دروازوں کے پیچھے بڑے پیمانے پر مقدمے چلانے شروع کیے۔

یہ بھی پڑھیں: لاپتہ ہوجانے والی شہزادی کی ایک سال بعد سعودی حکومت سے مدد کی اپیل

ایچ آر ڈبلیو کے مطابق ان قیدیوں کے اہلِ خانہ نے چارج شیٹ کے کچھ حصے دیکھے جس میں ’دہشت گرد تنظیم‘ سے ’تعلق‘ یا حمایت کا الزام ہے لیکن تنظیم کا نام شامل نہیں۔

اس ضمن میں ہیومن رائٹس واچ مشرق وسطیٰ کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل پیج نے کہا کہ ’سعودی عرب کے غیر منصفانہ ٹرائل ریکارڈ سے اس بات کا خدشہ ہے کہ اردنی اور فسطینی شہریوں کو سنگین الزامات اور سخت سزاؤں کا سامنا ہو گا حالانکہ کچھ نے سنگین استحصال کا الزام بھی عائد کیا ہے‘۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ ’ایک ایسے وقت کہ جب کورونا وائرس کی وبا قیدیوں کے لیے خطرناک ہے سعودی عرب کو حراست کے متبادل پر غور کرنا چاہیے بالخصوص ان کے لیے جو مقدمے سے قبل قید کیے گئے‘۔

مزید پڑھیں: سعودی عرب میں کئی فلسطینیوں پر ‘حماس سے تعلق کے الزام’ پر مقدمات قائم

ہیومن رائٹس واچ نے 7 قیدیوں میں سے 6 کے اہلِخانہ سے بات کی جن میں سے ہر ایک نے اپنے یا زیر حراست رشتہ داروں کے خلاف انتقامی کارروائی کے خوف سے نام نہ ظاہر کرنے کی درخواست کی۔

رپورٹ کے مطابق ان اہلِخانہ کا کہنا تھا کہ سعودی سیکیورٹی سروسز نے 5 قیدیوں کو گھروں پر چھاپے مار کر گرفتار کیا جبکہ دیگر دو افراد کو بیرونِ ملک جاتے ہوئے ایئرپورٹس سے گرفتار کیا گیا تھا۔

اس کے علاوہ قیدیوں کے رشتہ داروں نے سعودی حکام کی جانب سے حراست کے بعد استحصال کے مختلف طریقوں کا بھی ذکر کیا جس میں جبری گمشدگی اور طویل عرصے تک قید تنہائی شامل ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب میں ’سیکیورٹی کریک ڈاؤن‘ فوجی افسران تک پھیل گیا

ہیومن رائٹس واچ کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کے انسداد دہشت گردی قانون میں دہشت گردی کی مبہم اور حد سے زیادہ وسیع تعریف شامل ہے جس کے کچھ معاملات میں سزائے موت تک دی جاسکتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں