سندھ: کورونا وائرس متاثرین کیلئے 'صرف 144' وینٹی لیٹرز کی موجودگی کا انکشاف

اپ ڈیٹ 18 اپريل 2020
عدالت عظمیٰ نے معاملے پر ازخود نوٹس لیا تھا—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
عدالت عظمیٰ نے معاملے پر ازخود نوٹس لیا تھا—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ آف پاکستان میں سندھ حکومت نے کورونا وائرس ازخود نوٹس میں تفصیلی رپورٹ جمع کروادی، جس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ صوبے کی تقریباً 4 کروڑ 80 لاکھ آبادی کے لیے سرکاری ہسپتالوں میں 383 وینٹی لیٹرز ہیں جس میں سے کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے صرف 144 مختص کیے گئے ہیں۔

سندھ حکومت کی جانب سے کورونا وائرس ازخود نوٹس کیس میں عدالت عظمیٰ میں رپورٹ جمع کروائی گئی، جس میں سندھ حکومت کی جانب سے کورونا وائرس کے حوالے سے اٹھائے گئے اقدامات، راشن کی تقسیم، کراچی کے ضلع شرقی کی 11 یونین کونسلز کو سیلر کرنے اور وینٹی لیٹرز سے متعلق تفصیلات بھی بتائی گئی۔

مذکورہ رپورٹ کے مطابق صوبے میں سرکاری ہسپتالوں میں 383 وینٹی لیٹرز فعال ہیں جس میں سے کووڈ 19 کے تشویش ناک مریضوں کے لیے 12 انتہائی نگہداشت یونٹ (آئی سی یو) میں 144 وینٹی لیٹر مختص کیے گئے ہیں۔

ان ویٹی لیٹرز کی تفصیلات پر اگر نظر ڈالی جائے تو اوجھا انسٹی ٹیوٹ میں 10، انڈس ہسپتال کراچی میں 11، ایس آئی یو ٹی کراچی میں 10، سول ہسپتال کراچی میں 12، لیاقت یونیورسٹی ہسپتال حیدرآباد میں 28، پی ایم یو ہسپتال ایس بی اے میں 14، کے ایم سی/ سی ایچ خیرپور میں 10، جی ایم ایم ایم سی سکھر میں 6، سی ایم سی ہسپتال لاڑکانو میں 14، اے کیو ایس جے گمبٹ میں 20، ساسم سیہون میں 4 اور ڈی ایچ کیو کوٹری میں 5 وینٹی لیٹرز ہیں۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے سندھ کی کارکردگی پر برہم

ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا کہ صوبے میں مجموعی طور پر ایک ہزار 56 آئیسولیشن سینٹرز قائم کیے گئے ہیں جس میں 327 ہسپتال آئیسولیشن، 58 فیلڈ آئیسولیشن سینٹرز اور 671 ہوم آئیسولیشن ہیں۔

تاہم رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ سرکاری ہسپتالوں کے لیے 100 مزید وینٹی لیٹرز خریدنے کے احکامات دے دیے گئے ہیں۔

عدالت میں جمع کروائی گئی رپورٹ میں کراچی میں سیل کی گئی 11 یونین کونسل (یوسیز) کے بارے میں بھی تفصیل فراہم کی گئی۔

کراچی کے ضلع شرقی میں سیل کی گئی ان یونین کونسلز کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا گیا کہ یہاں مجموعی آبادی 6 لاکھ 74 ہزار 704 ہے جس میں 1210 لوگوں کے ٹیسٹ کیے گئے۔

سپریم کورٹ میں جمع رپورٹ کے مطابق ان 1210 افراد میں سے 194 میں وائرس کی تشخیص ہوئی جبکہ ایک ہزار 16 کے نتائج منفی آئے۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ ان یونین کونسلز کو کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد بڑھنے کے باعث سیل کیا گیا۔

مذکورہ رپورٹ میں صوبہ سندھ کی جانب سے کورونا وائرس سے متاثرہ افراد میں راشن فراہم کرنے کی تفصیلات بھی شامل کی گئیں۔

اس تفصیلات میں بتایا گیا کہ صوبے میں 2 لاکھ 85 ہزار 49 لوگوں میں راشن بیگ تقسیم کیے گئے، جس میں کراچی ڈویژن میں 78 ہزار 688، حیدرآباد ڈویژن میں 82 ہزار 243، لاڑکانہ ڈویژن میں 38 ہزار 196، سکھر ڈویژن میں 29 ہزار 227، میرپورخان ڈویژن میں 26 ہزار 834 اور شہید بینظیر آباد میں 29 ہزار 861 راشن بیگ تقسیم کیے گئے۔

خیال رہے کہ عدالت عظمیٰ نے 10 اپریل کو کورونا وائرس سے متعلق حکومتی اقدامات پر ازخود نوٹس لیا تھا اور متعلقہ حکام کو طلب کرلیا تھا۔

اس کیس کی پہلی سماعت 13 اپریل کو ہوئی تھی جہاں سپریم کورٹ نے ملک میں کورونا وائرس کی روک تھام کے اقدامات کے حوالے سے سندھ حکومت کی کارکردگی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت سندھ کی کارکردگی افسوسناک ہے۔

سندھ کی صورتحال کے حوالے سے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ وزیراعلیٰ سندھ نے سنی سنائی باتوں پر کراچی کے کئی علاقے بند کردیے، کل کو پورا کراچی بند کردیں گے۔

انہوں نے کہا تھا کہ حکومت لوگوں کو سپورٹ کرے تو وہ بات مانیں گے تاہم عدالت نے کراچی کی 11 یوسیز کو بند کرنے کی وجہ بھی معلوم کی تھی، جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا تھا کہ ان علاقوں سے کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔

چیف جسٹس نے کہا تھا کہ سندھ حکومت کے دعوؤں اور زمینی حقائق میں بہت فرق ہے۔

بعدازاں سپریم کورٹ نے اپنے حکم نامے میں وفاق، چاروں صوبوں اور گلگت بلتستان سے تفصیلی رپورٹس اور آج ہونے والے اعلیٰ سطح کے اجلاس کے فیصلوں کی تفصیلات طلب کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: کس قسم کی ٹیم کورونا پر کام کررہی، حکومتی عہدیداران پر الزامات ہیں، سپریم کورٹ

اگلے روز عدالت عظمیٰ نے تحریری فیصلے میں کہا تھا کہ کراچی میں 11 یونین کونسلز کو کیوں سیل کیا گیا اس کی سندھ حکومت نے کوئی ٹھوس وجہ نہیں بتائی جبکہ حکومت کو یونین کونسلز میں متاثرہ افراد کی تعداد کا بھی علم نہیں، سندھ میں عوام انتظامیہ سے تنگ آکر سراپا احتجاج ہیں۔

حکم نامے میں کہا گیا تگا کہ عدالت کے نوٹس میں یہ بات لائی گئی کہ حکومتِ سندھ کی جانب سے 8 ارب روپے کا مفت راشن تقسیم کیا گیا جو ہمیں نہیں معلوم کے کس حد تک سچ ہے البتہ یہ بات واضح ہے کہ سندھ حکومت کی جانب سے راشن کی خریداری اور تقسیم کے حوالے سے عدالت میں کوئی دستاویز پیش نہیں کی گئی۔

مزید برآں عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے صوبائی حکومت کے اقدامات پر مشتمل جامع رپورٹ آئندہ سماعت پر طلب کرلی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں