اسرائیل: نیتن یاہو حریف سیاستدان سے سمجھوتا کرکے وزیر اعظم بن گئے

اپ ڈیٹ 21 اپريل 2020
معاہدے کے تحت 18 ماہ بعد نیتن یاہو وزارت عظمیٰ سے ہٹ جائیں گے—فوٹو: ہارتز
معاہدے کے تحت 18 ماہ بعد نیتن یاہو وزارت عظمیٰ سے ہٹ جائیں گے—فوٹو: ہارتز

اسرائیل کے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے ملک میں طویل عرصے سے جاری سیاسی کشیدگی اور عدم استحکام کو ختم کرتے ہوئے اپنے سب سے بڑے سیاسی حریف بینی گینٹز کے ساتھ معاہدہ کرتے ہوئے ایک بار پھر وزارت عظمیٰ کا اہم عہدہ حاصل کرلیا۔

بینجمن نیتن یاہو دسمبر 2018 سے نگران وزیر اعظم کی خدمات سر انجام دے رہے تھے اور اسرائیلی قوانین کے مطابق جب تک منتخب وزیر اعظم عہدہ نہیں سنبھالتا، تب تک سابق وزیر اعظم ہی وزارت عظمیٰ کی ذمہ داریاں نبھا سکتا ہے۔

نیتن یاہو کی منتخب وزیر اعظم کی مدت دسمبر 2018 میں ختم ہوگئی تھی اور اسرائیل میں اپریل 2019 میں انتخابات بھی کرائے گئے تھے مگر انتخابات میں کسی بھی سیاسی جماعت نے واضح اکثریت حاصل نہیں کی تھی۔

بعد ازاں سیاسی جماعتوں کی جانب سے اتحادی حکومت بنائے جانے پر اتفاق نہ کیے جانے کے بعد ستمبر 2019 میں ایک ہی سال میں دوبارہ انتخابات کرائے گئے مگر ان انتخابات میں بھی کسی جماعت نے واضح اکثریت حاصل نہ کی تو ملک میں تیسری بار انتخابات کرانے کا اعلان کیا گیا۔

اور پھر مارچ 2020 میں ڈیڑھ سال کے دوران اسرائیل میں تیسری بار انتخابات کرائے گئے مگر اس بار بھی کسی بھی سیاسی جماعت نے واضح اکثریت حاصل نہ کی اور پھر کورونا کی وبا آنے کی وجہ سے منتخب حکومت بنانے کا عمل تاخیر کا شکار ہو گیا۔

مارچ 2020 میں ہونے والے انتخابات میں کسی پارٹی نے واضح اکثریت حاصل نہیں کی تھی مگر نیتن ہاہو نے حکومت بنانے کا ارادہ ظاہر کیا تھا—فوٹو: رائٹرز
مارچ 2020 میں ہونے والے انتخابات میں کسی پارٹی نے واضح اکثریت حاصل نہیں کی تھی مگر نیتن ہاہو نے حکومت بنانے کا ارادہ ظاہر کیا تھا—فوٹو: رائٹرز

اسرائیلی صدر نے ابتدائی طور پر مارچ میں نیتن یاہو کو حکومت بنانے کی پیش کش کی تھی مگر وہ کسی بھی سیاسی جماعت سے اتحاد کرنے میں ناکام ہوگئے تھے جس کے بعد اسرائیلی صدر نے انتخابات میں دوسرے نمبر پر آنے والی جماعت بلیو اینڈ وائٹ کو حکومت بنانے کی دعوت دی۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس پر سیاست کرنے کا الزام، اسرائیلی وزیر اعظم کیخلاف مظاہرے

مارچ 2020 میں ہونے والے انتخابات میں نیتن یاہو کی جماعت لیکوڈ اور بینی گینٹز کی جماعت بلیو اینڈ وائٹ نے ایک جتنی نشستیں حاصل کی تھیں مگر دونوں جماعتیں کسی تیسری سیاسی جماعت کے ساتھ مل کر حکومت بنانے میں ناکام ہوگئیں تھیں۔

تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے ایک ماہ سے زائد وقت میں حکومت نہ بنائے جانے کے بعد اس بات کے امکانات پیدا ہوگئے تھے کہ اسرائیل میں چوتھی بار انتخابات کرائے جائیں گے مگر صدر کی جانب سے چوتھی بار انتخابات کے اعلان سے قبل ہی سب سے بڑے سیاسی حریفوں یعنی نیتن یاہو اور بینی گینٹز نے اتحاد کرکے سب کو حیران کردیا۔

ماضی میں بینی گینٹز واضح طور پر کسی بھی قیمت پر نیتن یاہو کے ساتھ معاہدہ نہ کرنے کا اعلان کر چکے تھے مگر اب انہوں نے اپنے سب سے بڑے سیاسی حریف کے ساتھ سمجھوتہ کرکے انہیں وزیر اعظم بنا دیا۔

بینی گینٹز ماضی میں نیتن یاہو کے ساتھ اتحاد نہ کرنے کا اعلان کر چکے تھے—فوٹو: اے ایف پی
بینی گینٹز ماضی میں نیتن یاہو کے ساتھ اتحاد نہ کرنے کا اعلان کر چکے تھے—فوٹو: اے ایف پی

خبر رسان ادارے رائٹرز کے مطابق نیتن یاہو اور بینی گینٹز نے 20 اپریل کو تصدیق کی کہ ان کے درمیان معاہدہ طے پاگیا۔

دونوں سیاسی جماعتوں کی جانب سے میڈیا کو جاری معاہدے کے مندرجات میں بتایا گیا ہے کہ سمجھوتے کے تحت پہلے 18 ماہ تک نیتن یاہو وزیر اعظم رہیں گے جس کے بعد دوسری مدت کے لیے بینی گینٹز کو وزیر اعظم بنایا جائے گا۔

معاہدے کے تحت بینی گینٹز وزیر اعظم نہ بننے تک ملک کے وزیر دفاع کی خدمات سر انجام دیں گے جب کہ ان کی سیاسی جماعت کو اہم ترین یعنی دفاع، خارجہ، داخلہ، کمیونی کیشن، تعلیم اور ثقافت جیسی وزارتیں بھی سونپی جائیں گی۔

معاہدے کے مطابق اگر آئندہ 18 ماہ سے قبل نیتن یاہو اپنی مرضی سے وزارت عظمیٰ چھوڑیں گے تو بینی گینٹز وزارت عظمیٰ کی ذمہ داریاں سنبھالیں گے جب کہ نیتن یاہو دوسری مدت میں نائب وزیر اعظم کی ذمہ داریاں نبھائیں گے،

مزید پڑھیں: اسرائیلی وزیر اعظم پر کرپشن،دھوکے وعوام کو ٹھیس پہچانے کی فرد جرم عائد

دونوں حریف سیاسی جماعتوں میں معاہدے طے پاجانے کے بعد اب جلد ہی اسرائیلی کابینہ کا اعلان بھی کردیا جائے گا۔

نیتن یاہو 2009 سے اسرائیل کے وزیر اعظم ہیں—فائل فوٹو: اے ایف پی
نیتن یاہو 2009 سے اسرائیل کے وزیر اعظم ہیں—فائل فوٹو: اے ایف پی

یروشلم پوسٹ کے مطابق معاہدے کے تحت اسرائیلی کابینہ میں 36 وزیر رکھے جائیں گے جب کہ 16 ڈپٹی وزیر بھی ہوں گے۔

علاوہ ازیں معاہدے میں اس بات کا بھی عندیہ دیا گیا کہ اگر کوئی تیسری سیاسی جماعت بھی اتحادی حکومت کا حصہ بننے کے لیے راضی ہوگئی تو اسے بھی حکومت میں شامل کرلیا جائے گا۔

معاہدہ طے پاجانے کو نیتن یاہو اور بینی گینٹز نے تاریخی قرار دیا اور کہا کہ انہوں نے ملک و قوم کے لیے ایسا قدم اٹھایا تاکہ مشکل کی اس گھڑی میں حکومت کورونا وائرس جیسی وبا سے نمٹنے کے لیے مؤثر حکمت عملی بنا سکے۔

خیال رہے کہ نیتن یاہو کے خلاف کرپشن اور عوام سے جھوٹ بولنے جیسے الزامات کے تحت دیگر کیسز بھی زیر التوا ہیں اور ان پر اسرائیلی اٹارنی جنرل کی جانب سے کرپشن، دھوکے وعوام کو ٹھیس پہچانے کی فرد جرم بھی عائد کی جا چکی ہے۔

نیتن یاہو کے خلاف ان ہی الزامات کے تحت آئندہ ماہ مئی میں اسرائیلی عدالتوں میں ٹرائل ہونا تھا تاہم کورونا وائرس کی وجہ سے عدالتوں کو بند کیے جانے کی وجہ سے اب یہ ممکن نہیں، تاہم اس حوالے سے تاحال کوئی وضاحت سامنے نہیں آ سکی۔

اب نیتن یاہو کے دوبارہ وزیر اعظم بن جانے کے بعد خیال کیا جا رہا ہے کہ ان کے خلاف ٹرائل شروع نہیں کیا جائے گا۔

نیتن یاہو کے خلاف کرپشن کے کیسز بھی زیر التوا ہیں—فائل فوٹو: اے ایف پی
نیتن یاہو کے خلاف کرپشن کے کیسز بھی زیر التوا ہیں—فائل فوٹو: اے ایف پی

نیتن یاہو 2009 سے مسلسل اسرائیل کے وزیر اعظم بنتے آ رہے ہیں، اس عرصے کے دوران وہ 2 عام انتخابات میں جیت کے بعد وزیر اعظم بنے جب کہ باقی وہ اسرائیلی قوانین کے تحت نگران وزیر اعظم بنے اور اب ایک بار پھر وہ سیاسی معاہدے کے تحت وزیر اعظم بنے ہیں۔

سال 2009 سے قبل بھی 1996 کے انتخابات کے بعد بننے والے سیاسی اتحاد کے تحت نیتن یاہو وزیر اعظم بنے تھے۔

نیتن یاہو پر کرپشن الزامات کے باعث کورونا وائرس کے دنوں میں بھی ان کے خلاف احتجاج جاری ہے اور گزشتہ ہفتے ان کے خلاف تل ابیب، یروشلم اور حائفہ سمیت دیگر شہروں میں مظاہرے کیے گئے تھے۔

ان پر کورونا وائرس کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے جیسے الزامات بھی لگائے جا رہے ہیں اور ان کے مخالفین کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے وبا سے نمٹنے کے لیے مؤثر حکمت عملی نہیں بنائی۔

اسرائیل میں 21 اپریل کی دو پہر تک کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد بڑھ کر 14 ہزار کے قریب جب کہ ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر 180 سے زائد ہو چکی تھی۔

نیتن یاہو پر کورونا کو سیاست کے لیے استعمال کرنے جیسے الزامات لگائے جا رہے ہیں—فوٹو: ٹائمز آف اسرائیل
نیتن یاہو پر کورونا کو سیاست کے لیے استعمال کرنے جیسے الزامات لگائے جا رہے ہیں—فوٹو: ٹائمز آف اسرائیل

تبصرے (0) بند ہیں