افغان حکومت اور طالبان معاہدے پر عمل نہیں کررہے، امریکا

اپ ڈیٹ 06 مئ 2020
مارک ایسپر نے دونوں فریقین کو مل کر کام کرنے پر زور دیا—فوٹو:رائٹرز
مارک ایسپر نے دونوں فریقین کو مل کر کام کرنے پر زور دیا—فوٹو:رائٹرز

امریکا کے ڈیفنس سیکریٹری مارک ایسپر نے افغانستان میں سیاسی جمود اور طالبان کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کے باعث امن معاہدے کو درپیش خطرات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغان حکومت اور طالبان دونوں رواں برس ہوئے معاہدے پر عمل نہیں کررہے ہیں۔

خبرایجنسی رائٹرز کے مطابق مارک ایسپر نے صحافیوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ میرا نہیں خیال کہ طالبان اپنے وعدے پر عمل کررہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میرا ماننا ہے کہ افغان حکومت بھی اپنی یقین دہانیوں پر پورا نہیں اتررہی۔

مزید پڑھیں:امریکا کی طالبان کو پرتشدد واقعات نہ روکنے پر جوابی کارروائی کی دھمکی

خیال رہے رواں برس فروری کے آخر میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغانستان میں جاری طویل جنگ کے خاتمے کے لیے امریکا اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ ہوا تھا تاہم اس معاہدے میں افغان حکومت فریق نہیں تھی۔

معاہدے کے بعد افغانستان میں طالبان کے حملوں میں تیزی دیکھی جارہی ہے جو افغان حکومت کے فورسز تک محدود ہے جبکہ غیر ملکی افواج کو معاہدے کےمطابق نشانہ نہیں بنایا جارہا ہے۔

مارک ایسپر نے کہا کہ افغان حکومت اور طالبان 'دونوں کو ایک ہونے اور طے کی گئیں شرائط پر عمل کرنے کی ضرورت ہے'۔

افغانستان میں گزشتہ برس ستمبر میں منعقدہ صدارتی انتخاب کے بعد صدر اشرف غنی اور ان کے سیاسی مخالف عبداللہ عبداللہ کے درمیان انتخاب جیتنے کے دعوؤں اور اختلافات کے باعث حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات بھی تاخیر کا شکار ہوگئے تھے۔

صدر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان سیاسی اختلافات کے دوران طالبان اپنی کارروائیوں میں تیزی لائے اور افغان سیکیورٹی فورسز کو مختلف علاقوں میں نشانہ بنایا۔

رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق طالبان نے امریکا سے امن معاہدے کے بعد 45 دنوں میں افغانستان کے اندر 4 ہزار 500 حملے کیے ہیں جبکہ امریکا معاہدے کے مطابق اپنی فوج کو وہاں سے دستبردار کرے گا۔

یہ بھی پڑھیں:افغانستان میں کشیدگی میں اضافہ، امن عمل خطرات سے دوچار

امریکا موسم گرما کے دوران افغانستان سے متوقع طور پر 8 ہزار 600 فوجی واپس بلالے گا اور دستبرداری کا عمل بتدریج جاری ہے۔

افغانستان کی صورت حال پر نظررکھنے والے مغربی اور افغان تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ بڑھتے ہوئے حملوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان رواں برس فروری میں ہوئے معاہدے کے تحت کشیدگی کو کم کرنے تیار نہیں ہیں۔

دوسری جانب کورونا وائرس کے باعث دنیا بھر کی طرح افغانستان میں بھی خطرات ہیں جہاں عالمی وبا تیزی سے پھیل رہی ہے۔

افغانستان میں اب تک کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد 3 ہزار 392 ہے اور 104 افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور یہ کیسز تمام بڑے صوبوں میں رپورٹ ہوئے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق طالبان کے حملوں میں وہ صوبے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں جہاں کورونا وائرس کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

خیال رہے کہ افغانستان میں کشیدگی کے پیش نظر 3 مئی کو بھی امریکا نے طالبان کو پرتشدد واقعات سے گریز کرنے اور معاملے کا سیاسی حل نکالنے پر زور دیا تھا۔

مزید پڑھیں:امریکا اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدہ ہوگیا،14 ماہ میں غیر ملکی افواج کا انخلا ہوگا

افغانستان میں امریکی افواج کے ترجمان کرنل سونی لیگٹ نے طالبان کو ایک خط میں کہا تھا کہ خون کو مزید بہنے سے روکنے کے لیے تمام فریقین کو تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کو اپنے خط میں واضح کیا تھا کہ اگر پرتشدد واقعات میں کمی نہ آئی تو ہم جواب دینے پر مجبور ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ کہ تمام فریقین کو سیاسی حل کی جانب لوٹنا چاہیے، افغانوں کو مل بیٹھ کر افغانستان کے مستقبل کے بارے میں مذاکرات شروع کرنے چاہیے۔

طالبان نے اپنے جواب میں امریکی بیانات کو اشتعال انگیز قرار دیتے ہوئے مذمت کی تھی اور کہا کہ ہم اپنی جانب سے جنگ کے خاتمے کے لیے پرعزم ہیں اور معاہدے کا احترام کر رہے ہیں۔

قبل ازیں 28 اپریل کو افغانستان میں امریکا اور نیٹو افواج کے سربراہ جنرل اسکاٹ ملر نے طالبان کو متنبہ کیا تھا کہ بڑھتے ہوئے پرتشدد واقعات میں کمی نہ آئی تو انہیں اس کے نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں