بچوں کے جھگڑے پر والد کو قتل کیا گیا، ٹک ٹاک اسٹار غنی ٹائیگر

اپ ڈیٹ 06 مئ 2020
غنی ٹائیگر کے والد کے قتل کا واقعہ 2 مئی کو پیش آیا تھا—اسکرین شاٹ انسٹاگرام ویڈیو
غنی ٹائیگر کے والد کے قتل کا واقعہ 2 مئی کو پیش آیا تھا—اسکرین شاٹ انسٹاگرام ویڈیو

چند دن قبل پنجاب کے ضلع سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے ٹک ٹاک اسٹار غنی ٹائیگر نے ایک ویڈیو کے ذریعے بتایا تھا کہ طلبہ تنظیم کے اسلحہ بردار لڑکوں نے ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے والد کو قتل اور بھائی کو زخمی کردیا۔

غنی ٹائیگر نے ویڈیو میں روتے ہوئے بتایا تھا کہ ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے والد کو قتل کیا گیا، ان کے والد کا کوئی قصور نہیں تھا، انہیں قتل کرنے والے افراد کے پاس نہ صرف لوہے کی سلاخیں تھیں بلکہ ان کے پاس اسلحہ بھی تھا۔

ٹک ٹاک اسٹار کی جانب سے ویڈیو شیئر کرنے کے بعد کئی شوبز اسٹار و اہم شخصیات نے بھی ان کے والد کے قتل کے خلاف ’جسٹس فار داؤد‘ کی مہم چلائی تھی اور بعد ازاں پولیس کا مؤقف بھی سامنے آیا، جس میں پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ مذکورہ واقعہ دونوں پارٹیوں کی دشمنی کے باعث پیش آیا۔

ٹک ٹاک اسٹار کے والد کے قتل کے خلاف معروف شخصیات کی جانب سے مہم چلائے جانے کے بعد پولیس حرکت میں آئی اور بعد ازاں وزیراعلیٰ پنجاب کے فوکل پرسن برائے ڈیجیٹل میڈیا اظہر مشوانی نے سوشل میڈیا پر بتایا کہ مذکورہ واقعے میں ملوث تین ملزمان کو گرفتار کرکے ان کے خلاف مقدمہ دائر کردیا گیا۔

پولیس نے ملزمان کے خلاف 302 سمیت چار مختلف شقوں کے تحت مقدمہ دائر کیا تھا اور پولیس کے مطابق مجموعی طور پر 5 ملزمان گرفتار کیے گئے، جن میں سے 2 کو زخمی حالت میں گرفتار کیا گیا تھا، جنہیں ہسپتال منتقل کردیا گیا۔

پولیس کے مطابق قتل کے واقعے کے دوران دونوں جانب سے فائرنگ کی گئی تھی، تاہم ٹک ٹاک اسٹار نے ایسی کسی بات کا ذکر نہیں کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ٹک ٹاک اسٹار غنی ٹائیگر کے والد کا قتل، 3 ملزمان گرفتار

بعد ازاں غنی ٹائیگر نے پولیس کی جانب سے ملزمان کو گرفتار کرنے پر پولیس کا شکریہ بھی ادا کیا۔

لیکن اب ٹک ٹاک اسٹار غنی ٹائیگر نے ٹی وی پرسنالٹی و سوشل میڈیا اسٹار وقار ذکا سے اپنے والد کو قتل کیے جانے کے واقعے پر کھل کر بات کی ہے، جس میں انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ ان کے والد کو دراصل بچوں کے جھگڑے کے بعد قتل کیا گیا۔

A photo posted by Instagram (@instagram) on

وقار ذکا سے بات کرتے ہوئے غنی ٹائیگر نے بتایا کہ ماہ رمضان کے ابتدائی دنوں میں محلے کے دو بچوں کے درمیان جھگڑا ہوا جن میں سے ایک بچے کا تعلق ان کے خاندان سے تھا اور اس سے پہلے بھی ایسے واقعات پیش آ چکے تھے لیکن اس بار انہیں سمجھ نہیں آیا کہ بات اس حد تک کیسے بڑھ گئی؟

غنی ٹائیگر کا کہنا تھا کہ بچوں کے جھگڑوں کا علم نہ صرف انہیں تھا بلکہ ان کے دیگر اہل خانہ کو بھی تھا اور انہوں نے ہی اپنے والد اور چچا کو بتایا کہ وہ بچوں کے جھگڑے کے معاملے پر سب میں صلح کروادیں گے۔

غنی ٹائیگر کا کہنا تھا کہ جس وقت ان کے والد کو قتل کیا گیا، اس سے کچھ دیر قبل ہی وہ والد سے بات کر رہے تھے اور انہیں بتا رہے تھے کہ وہ بچوں کے جھگڑے کی صلح کروادیں گے اور اسی دوران ہی باہر سے لڑنے جھگڑنے کی آوازیں آئیں تو وہ گھر سے نکل آئے۔

غنی ٹائیگر نے دعویٰ کیا کہ جیسے ہی وہ گھر سے باہر آئے تو انہوں نے اپنے ہی ایک دوست کو گولی لگنے کے بعد زخمی حالت میں دیکھا اور پھر اچانک ان کے ایک کزن کو بھی گولی لگی اور وہ بھی زخمی ہوگئے، انہیں سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ گولیاں کس طرف سے کون چلا رہا ہے۔

ٹک ٹاک اسٹار کے مطابق بچوں کی لڑائی پر دوسری پارٹی کے لڑکوں نے طلبہ تنظیم انجمن طلبہ اسلام (اے ٹی آئی) کا نام استعمال کرکے دیگر لڑکوں کو بھی اپنے ساتھ ملایا اور تقریبا 11 لڑکے ان کے محلے میں آئے اور ان کی فائرنگ سے پورا محلہ گونج اٹھا۔

انہوں نے آبدیدہ ہوتے ہوئے بتایا کہ جب ان کے ایک دوست اور کزن کو گولی لگی اور حالات مزید کشیدہ ہوگئے تو ان کے والد بھی گھر سے نکل آئے اور پھر ان پر بھی کسی نے گولی چلادی اور ان کے والد زندگی کی بازی ہار گئے۔

ان کے مطابق ان کے والد کو سر میں گولی لگی اور گولی لگنے کے بعد ان کے سر پر ڈنڈا بھی مارا گیا، ان پر بیہمانہ تشدد کیا گیا۔

غنی ٹائیگر کا کہنا تھا کہ جن لڑکوں نے فائرنگ کی وہ ان کے پرانے دوست تھے، کبھی وہ سب مل کر ایک ساتھ کھیلتے تھے اور پہلے بھی ان کے محلے میں ایسے ہی بچوں کے معاملے پر لڑائی جھگڑے ہوتے رہے ہیں۔

ٹک ٹاک اسٹار غنی ٹائیگر نے واضح کیا کہ اصل جھگڑا بچوں کی لڑائی پر ہوا تھا، جس کے بعد دوسری جانب کے لڑکوں نے ان کے چچا سے بھی بدتمیزی کی اور پھر وہ اسلحہ لے کر لڑنے آئے اور ان کے بھائی اور کزن کو زخمی کرنے سمیت ان کے والد کو قتل کردیا گیا۔

ٹک ٹاک اسٹار اپنے مقتول والد اور زخمی بھائی کے ہمراہ—فوٹو: غنی ٹائیگر انسٹاگرام
ٹک ٹاک اسٹار اپنے مقتول والد اور زخمی بھائی کے ہمراہ—فوٹو: غنی ٹائیگر انسٹاگرام

غنی ٹائیگر کے مطابق ان کے پاس اسلحہ نہیں تھا اور اگر ہوتا تو وہ سب سے پہلے اپنے تحفظ کے لیے اسے استعمال کرتے لیکن پولیس کے مطابق واقعے میں دو طرفہ فائرنگ ہوئی تھی۔

قتل کرنے والے لڑکوں کا تعلق اے ٹی آئی سے رہا ہوگا مگر انہیں زخمی کس نے کیا؟ طلبہ تنظیم

دوسری جانب ٹک ٹاک اسٹار کے والد کو قتل کرنے والے لڑکوں کا تعلق طلبہ تنظیم اے ٹی آئی سے بتائے جانے کے بعد اسی تنظیم کے مرکزی ترجمان عامر اسمٰعیل نے بھی وقار ذکا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اس بات کا علم نہیں کہ اصل معاملہ کیا ہے، لیکن انہیں بھی پتہ چلا ہے کہ مذکورہ واقعہ بچوں کی لڑائی کے بعد پیش آیا۔

عامر اسمٰعیل نے ٹک ٹاک اسٹار کے والد کو قتل کیے جانے کی مذمت کرتے ہوئے واقعے کو افسوس ناک قرار دیا اور کہا کہ اگر کسی ملزم پر جرم ثابت ہوتا ہے تو اسے ضرور سزا دی جانی چاہیے۔

عامر اسمٰعیل نے وضاحت کی کہ مذکورہ واقعے میں طلبہ تنظیم کا نام لے کر تنظیم کو بدنام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جب کہ مذکورہ واقعہ کچھ افراد کا ذاتی معاملہ تھا۔

طلبہ تنظیم کے ترجمان کے مطابق وہ اس بات سے انکار نہیں کرتے کہ فائرنگ کرنے والے لڑکوں کا تعلق ان کی تنظیم سے نہیں ہوگا یا وہ اس میں شامل نہیں رہے ہوں گے، تاہم اس میں تنظیم کو ملوث قرار دینا غلط ہے۔

اے ٹی آئی کے ترجمان کے مطابق ان کی تنظیم کسی طرح کے بھی تشدد پر یقین رکھتی، تنظیم کے کسی بھی رکن اور فرد کو اس طرح کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی اجازت نہیں ہوتی۔

انہوں نے سوال کیا کہ جن لڑکوں پر ٹک ٹاک اسٹار کے والد کو قتل کرنے کا الزام لگایا جا رہا ہے، ان میں سے ایک لڑکے کو 6 گولیاں لگی ہیں، ایک کو 3 گولیاں لگیں جبکہ تیسرے لڑکے کو خنجر کے وار سے زخمی کیا گیا، سوال یہ ہے کہ ان لڑکوں کو زخمی کس نے کیا؟

ان کے مطابق انہوں نے ذاتی طور پر علاقے کے تنظیمی لڑکوں سے معلومات حاصل کی تو انہیں بتایا گیا کہ مذکورہ واقعے میں دونوں طرف سے فائرنگ کا تبادلہ ہوا اور اب پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس بات کی تحقیق کریں کہ اصل واقعہ کیا تھا؟

ان کے مطابق کسی طرح بھی تنظیم کے کسی رکن کو کسی انسان کی جان لینے کی اجازت نہیں ہے اور ایسے جرم میں ملوث افراد کو سزا ملنی چاہیے مگر یہ بھی دیکھا جائے کہ جن افراد پر الزام لگایا جا رہا ہے، انہیں زخمی کس نے کیا اور یہ کہ اس واقعے میں تنظیم کا نام استعمال کرنے کے بجائے ان لڑکوں کے ذاتی کردار پر بات کی جائے۔

تبصرے (0) بند ہیں