امریکا کی طالبان کو پرتشدد واقعات نہ روکنے پر جوابی کارروائی کی دھمکی

03 مئ 2020
امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدے کے بعد سے افغان طالبان ساڑھے 4ہزار سے زائد حملے کر چکے ہیں— فائل فوٹو: اے ایف پی
امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدے کے بعد سے افغان طالبان ساڑھے 4ہزار سے زائد حملے کر چکے ہیں— فائل فوٹو: اے ایف پی

افغانستان میں بڑھتے ہوئے پرتشدد واقعات کے سبب امن عمل کے خراب ہونے کے خدشے کے پیش نظر امریکی فوج نے طالبان کو خط لکھ معاملے کے سیاسی حل پر زور دیا ہے۔

طالبان کو لکھے گئے دو صفحے کے خط میں افغانستان میں امریکی افواج کے ترجمان کرنل سونی لیگٹ نے کہا کہ مزید خون بہا روکنے کے لیے تمام فریقین کو تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

مزید پڑھیں: افغانستان میں کشیدگی میں اضافہ، امن عمل خطرات سے دوچار

انہوں نے طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کو براہ راست لکھے گئے خط میں مخاطب کرتے ہوئے واضح کیا کہ اگر پرتشدد واقعات میں کمی نہ آئی تو ہم جواب دینے پر مجبور ہوں گے۔

انہوں نے لکھا کہ تمام فریقین کو سیاسی حل کی جانب لوٹنا چاہیے، افغانیوں کو مل بیٹھ کر افغانستان کے مستقبل کے کے بارے میں گفتگو شروع کرنی چاہیے۔

یہ خط ایک ایسے موقع پر لکھا گیا ہے جب چند دن قبل 28 اپریل کو افغانستان میں امریکا اور نیٹو افواج کے سربراہ جنرل اسکاٹ ملر نے طالبان کو متنبہ کیا تھا کہ بڑھتے ہوئے پرتشدد واقعات میں کمی نہ آئی تو انہیں اس کے نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

29 فروری کو امریکا اور طالبان کے درمیان تاریخی معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت طالبان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ امریکا اور غیر ملکی افواج پر حملے نہیں کریں گے اور قیدیوں کےتبادلے کے بدلے کابل انتظامیہ سے امن مذاکرات شروع کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: افغان طالبان اور امریکا میں امن معاہدہ،14 ماہ میں غیر ملکی افواج کا انخلا ہوگا

اس کے بدلے امریکا اور غیر ملکی افواج نے 14 ماہ میں افغان سرزمین چھوڑنے کا وعدہ کیا تھا۔

طالبان اور امریکا میں معاہدہ ہوا تھا کہ امریکی افواج طالبان پر حملہ نہیں کریں گی لیکن اگر افغان فورسز پر حملہ کیا گیا تو وہ طالبان پر حملے کا حق رکھتے ہیں۔

سونی لیگٹ نے کہا کہ طالبان نے حملوں میں 80 فیصد کمی اور شہری علاقوں پر حملے روکنے کا وعدہ کیا تھا لیکن اس کے بجائے حملوں کی شدت میں بے انتہا اضافہ دیکھا گیا ہے۔

طالبان کی جانب سے غیر ملکی افواج پر حملے نہیں کیے جا رہے لیکن معاہدے کے بعد سے ان کی جانب سے مسلسل حملے جاری ہیں اور وہ اب اوسطاً روزانہ 55 حملے کر رہے ہیں۔

دوسری جانب قیدیوں کھے تبادلے کا عمل ایک مرتبہ پھر تعطل کا شکار ہو گیا ہے کیونکہ کابل انتظامیہ اہم طالبان قیدیوں کو رہا کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ یہ دوبارہ جنگ کے لیے میدان میں اتر جائیں گے۔

مزید پڑھیں: افغان حکومت نے مزید 100 طالبان قیدی رہا کردیے، مجموعی تعداد 300 ہوگئی

لیگٹ کے خط کے جواب میں طالبان نے اشتعال انگیز بیانات دینے پر امریکا کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنی جانب سے جنگ کے خاتمے کے لیے پرعزم ہیں اور اپنی جانب سے معاہدے کا احترام کر رہے ہیں۔

خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال 29 فروری کو معاہدے پر دستخط کے بعد سے اب تک طالبان ساڑھے 4 ہزار سے زائد حملے کر چکے ہیں اور اس میں سب سے زیادہ وہ صوبے متاثرہ ہوئے ہیں جہاں اب تک کورونا وائرس کے سب سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں