دنیا بھر میں نئے نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کے شکار افراد کی تعداد 40 لاکھ کے قریب ہوچکی ہے جبکہ 13 لاکھ 46 ہزار سے زیادہ صحتیاب بھی ہوچکے ہیں۔

مگر اب بھی بہت کچھ غیریقینی ہے یعنی یہ واضح نہیں کہ طویل المعیاد بنیادوں پر یہ بیماری کس طرح اثرانداز ہوسکتی ہے یا ایک بار بیمار ہونے کے بعد کتنے عرصے کے لیے دوبار اس سے تحفظ مل سکتا ہے۔

اس کے بارے میں جاننے میں کافی وقت لگ سکتا ہے کیونکہ ابھی اس حوالے سے سائنسدانوں کا کام جاری ہے اور اس وبا کو بھی ابھی بہت زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔

تاہم اب تک جو کچھ معلوم ہوچکا ہے وہ درج ذیل ہے۔

صحتیاب افراد کے اعدادوشمار

اگرچہ 13 لاکھ سے زائد افراد دنیا بھر میں کووڈ 19 کو شکست دے چکے ہیں مگر حقیقی تعداد اس سے زیادہ ہوسکتی ہے، کیونکہ بیشتر ممالک اور خطوں کی جانب سے ظاہر نہیں کیا جاتا کہ کتنے بیمار افراد ریکور ہوچکے ہیں۔

جونز ہوپکنز یونیورسٹی کے ترجمان ڈوگلس ڈونووین نے سی این این کو بتایا 'چین سے باہر ریکور کیسز کا ملکی سطح پر تخمینہ مقامی میڈیا رپورٹس پر لگایا جاتا ہے اور ممکنہ طور پر یہ حقیقی تعداد سے سے تعداد ہوگی'۔

کچھ ممالک میں ٹیسٹنگ کی صلاحیت محدود ہونے کے نتیجے میں متعدد کیسز کی تشخیص ہی نہیں ہوپاتی اور معمولی یا بغیر علامات والے مریض اس کے بغیر ہی ریکور ہوجاتے ہیںے، یعنی ایسے افراد مجموعی یا صحتیاب کیسز کے اعدادوشمار کا حصہ ہی نہیں بنتے۔

شکاگو کی رش یونیورسٹی میڈیکل سینٹر کے ایسوسی ایٹ چیف میڈیکل آفیسر اور وبائی امراض کے پروفیسر ڈاکٹر بالا ہوٹا نے سی این این کو بتایا 'کسی آبادی میں متاثرہ افراد کی درست تعداد کے بارے میں جاننا اس بیماری کے عروج پر جانے اور نیچے جانے کے ماڈلز کے لیے بہت مددگار ثابت ہوسکتا ہے اور اس سے ہم اندازہ لگاسکتے یں کہ کب لوگ دوبارہ اپنے روزگار پر لوٹ سکتے ہیں'۔

ریکوری کیسی ہوتی ہے؟

ریکوری کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ حالت بالکل ٹھیک ہوگئی ہے، ڈاکٹر بالا ہوٹا کے مطابق متعدد مریضوں کو معتدل کھانسی اور تھکاوٹ کا احساس ہوسکتا ہے، حالانکہ انہیں صحتیاب قرار دیا جاچکا ہوتا ہے اور وہ وائرس بھی آگے نہیں پھیلا رہے ہوتے، درحقیقت معمول پر آنے کے لیے زیادہ وقت درکار ہوتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر مائیک ریان نے مارچ میں کہا تھا 'اس بیماری سے صحتیابی کے لیے 6 ہفتے کا وقت لگ سکتا ہے، بہت زیادہ بیمار افراد کو ریکور ہونے میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں'۔

یہ عمل ان افراد میں مختلف ہوسکتا ہے جن کو وینٹی لیٹر کی ضرورت پڑتی ہے۔

یو ایس نیوز اینڈ ورلڈ رپورٹ سے بات کرتے ہوئے واشنگٹن یونیورسٹی کے ہاربور ویو میڈیکل سینٹر کے پروفیسر ڈاکٹر جے رینڈل کرٹس نے کہا 'ہم نے دیکھا ہے کہ ایسے مریض جن کو وینٹی لیترز کی ضرورت ہپڑتی ہے، انہیں کئی ہفتوں تک اس میں رہنا پڑتا ہے، اور جب وہ وینٹی لیٹر سے نکلتے ہیں، تو انہیں کئی دن تک آئی سی یو میں گزارنے پڑتے ہیں اور پھر ہسپتال کے عام یونٹ میں کئی دن یا ہفتے رہتے ہیں تاکہ مضبوطی دوبارہ حاصل کرسکیں'۔

ایک رپورٹ کے مطابق ایسے افراد جو وینٹی لیٹر پر ہوتے ہیں انہیں طویل المعیاد بنیادوں پر جسمانی اور نفسیاتی نقصان کا سامنا ہوتا ہے اور اگر سانس لینے میں مشکل کا باعث بننے والے مرض اے آر ڈی ایس کا عارضہ ہو، تو پھیپھڑوں کے ٹشوز پر خراشیں بھی پڑسکتی ہیں۔

طویل المعیاد اثر

شکاگو یونیورسٹی اسکول آف میڈیسین کے پروفیسر ڈاکٹر شو یوآن شیاؤ نے اے بی سی نیوز کو بتایا کہ کووڈ 19 کے بیشتر معتدل مریضوں میں صحتیابی کے بعد طویل المعیاد اثرات کا امکان نہیں ہوتا، مگر زیادہ بیمار ہونے والے افراد کا مستقبل کچھ زیادہ بہتر نہیں ہوتا۔

مارچ کے وسط میں ہاکنگ کانگ میں طبی ماہرین نے دریافت کیا تھا کہ نئے نوول کورونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے افراد کے پھیپھڑے کمزوری کا شکار ہوسکتے ہیں اور کچھ افراد کو تیز چلنے پر سانس پھولنے کا مسئلہ ہوسکتا ہے۔

ساﺅتھ چائنا مارننگ پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق ہانگ کانگ ہاسپٹل اتھارٹی نے یہ نتیجہ کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 سے صحت یاب ہونے والے ابتدائی مریضوں کا جائزہ لینے کے بعد نکالا۔

ڈاکٹروں نے دریافت کیا کہ 12 میں سے 2 سے تین مریضوں کے پھیپھڑوں کی گنجائش میں تبدیلیاں آئیں۔

ہسپتال کے انفیکشیز ڈیزیز سینٹر کے میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر اوئن تسانگ تک ین نے ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا 'ان افراد کا سانس کچھ تیز چلنے پر پھول جاتا ہے، جبکہ مرض سے مکمل نجات کے بعد کچھ مریضوں کے پھیپھڑوں کے افعال میں 20 سے 30 فیصد کمی آسکتی ہے'۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس مرض کے طویل المعیاد اثرات کا تعین کرنا ابھی تو قبل از وقت ہے مگر 9 مریضوں کے پھیپھڑوں کے اسکین میں شیشے پر غبار جیسا پیٹرن دریافت ہوا، جس سے عضو کو نقصان پہنچنے کا عندیہ ملتا ہے۔

مگر جیسے اوپر درج کیا جاچکا ہے کہ یہ وائرس پہلی بار دسمبر میں سامنے آیا تھا تو ابھی بھی صحتیاب مریضوں کے حوالے سے جاننا باقی ہے۔

مگر ماہرین کا خیال ہے کہ شدید نمونیا کے اثرات جسم پر برقرار رہتے ہیں، یعنی اگر سانس کے عارضے اے آر ڈی ایس کا سامنا ہوا تو پھیپھڑوں کے ٹشوز کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔

جونز ہوپکنز سینٹر فار ہیلتھ سیکیورٹی کے وبائی امراض کے ماہر ڈاکٹر امیش ادلجا نے اے بی سی نیوز کو بتایا 'یہ تو عام ہے جب کسی بھی قسم کا نمونیا اتنا زیادہ ہو کہ مریض کو آئی سی یو میں جانا پڑے تو اثرات مرتب ہوتے ہیں'۔

ڈاکٹر امیش اور ڈاکٹر شو یوآن شیاؤ دونوں کا کہنا تھا کہ کچھ بہت زیادہ بیمار افراد میں ممکنہ طور پر پھیپھڑوں کے افعال مکمل طور پر بحال نہیں ہوسکیں گے۔

اینٹی باڈیز اور وائرس سے محفوظ ہونا

کسی بیماری کے شکار افراد میں ایسی اینٹی باڈیز بن جاتی ہیں جو اس کے خلاف اس وقت متحرک ہوتی ہیں جب اس بیماری کا سامان دوبارہ وہتا ہے اور کورونا وائرس کے بارے میں بھی یہی خیال کیا جارہا ہے۔

رواں ہفتے ہی امریکا کے آئیکان اسکول آف میڈیسین کی ایک تحقیق میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ نوول کورونا وائرس کو شکست دینے والے متعدد افراد میں اس کے خلاف مزاحمت کرنے والی اینٹی باڈیز بن جاتی ہیں، چاہے عمر یا مرض کی شدت کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو۔

اس تحقیق کو فی الحال کسی طبی جریدے میں شائع نہیں کیا گیا بلکہ اسے آن لائن جاری کیا گیا ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ اس وبائی مرض کے شکار ہوکر صحتیاب ہونے والے بیشتر افراد کووڈ 19 سے محفوظ ہوجاتے ہیں۔

اس سے قبل کئی چھوٹی تحقیقی رپورٹس میں بھی کہا گیا تھا کہ کووڈ 19 کے شکار افراد میں صحتیابی کے بعد کچھ وقت کے لیے اس کے خلاف مزاحمت پیدا ہوجاتی ہے۔

یہ نئی تحقیق اب تک کی سب سے بڑی تھی جس میں 1343 افراد کے نتائج بیان کیے گئے۔

مگر چین میں 175 ریکور افراد پر ہونے والی تحقیق میں دریافت کیا گیا تھا کہ 10 فیصد مریضوں میں کوورونا وائرس کے خلاف مزاحمت کرنے والی اینٹی باڈیز نہیں بننی تھیں۔

متعدد ممالک کے طبی حکام ایسے ٹیسٹ تیار کرنے کی کوشش کررہے ہیں جو کورونا وائرس اینٹی باڈیز کو شناخت کرکے بتاسکے کہ متاثرہ فرد دوبارہ اس مرض سے محفوظ ہوچکا ہے۔

مگر اب تک بیشتر اینٹی باڈی ٹیسٹس زیادہ کامیاب ثابت نہیں ہوئے کیونکہ وہ ایسے اینٹی باڈی سگنلز دیتے ہیں جو موجود ہی نہیں ہوتے۔

چین، جنوبی کوریا اور جاپان میں ایسے کیسز بھی سامنے آئے ہیں جن میں صحتیاب افراد میں دوباری اس کی تصدیق ہوگئی جس کی ابھی تک واضح وجہ دریافت نہیں کی جاسکی۔

تبصرے (0) بند ہیں