کیا ایک مریض 2 بار کووڈ 19 کا شکار ہوسکتا ہے؟

09 مئ 2020
جرمنی میں ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو
جرمنی میں ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو

نئے نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کے حوالے سے سائنسدان ایک سوال کا جواب جاننے کی کئی ماہ سے کوشش کررہے ہیں کہ اس کے شکار افراد دوبارہ اس میں مبتلا ہوسکتے یا نہیں۔

اب ایک نئی تحقیق میں اس سوال کا جواب دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ نوول کورونا وائرس کو شکست دینے والے متعدد افراد میں اس کے خلاف مزاحمت کرنے والی اینٹی باڈیز بن جاتی ہیں۔

اس میں عمر، جنس یا بہت زیادہ بیمار ہونے والے افراد بھی شامل ہیں۔

اینٹی باڈی ایک ایسا پروٹین ہے جو پلازما خلیات میں بنتا ہے جو کسی انفیکشن کے خلاف ردعمل ظاہر کرتا ہے اور یہ اس بات کی نشانی ہوتا ہے کہ جسم وائرس کے خلاف لڑنے کی کوشش کررہا ہے۔

امریکا کے آئیکان اسکول آف میڈیسین کی اس تحقیق کو فی الحال کسی طبی جریدے میں شائع نہیں کیا گیا بلکہ اسے آن لائن جاری کیا گیا ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ اس وبائی مرض کے شکار ہوکر صحتیاب ہونے والے بیشتر افراد کووڈ 19 سے محفوظ ہوجاتے ہیں۔

اس تحقیق کے لیے آئیکان اسکول آف میڈیسین کی ایک محقق فلورین کریمر کے ٹیسٹ پر انحصار کیا گیا جو اینٹی باڈیز کے نتائج کے حوال سے 99 فیصد سے زیادہ درست نتائج فراہم کرتا ہے،

کولمبیا یونیورسٹی کی وائرلوجسٹ ڈاکٹر اینجلا راسموسین نے نیویارک ٹائمز کو بتایا 'اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بیشتر افراد میں اینٹی باڈیز بن جاتی ہیں جو وائرس کو ناکارہ بنانے کی صلاحی رکھتی ہیں'۔

متعدد ممالک کے طبی حکام ایسے ٹیسٹ تیار کرنے کی کوشش کررہے ہیں جو کورونا وائرس اینٹی باڈیز کو شناخت کرکے بتاسکے کہ متاثرہ فرد دوبارہ اس مرض سے محفوظ ہوچکا ہے۔

مگر اب تک بیشتر اینٹی باڈی ٹیسٹس زیادہ کامیاب ثابت نہیں ہوئے کیونکہ وہ ایسے اینٹی باڈی سگنلز دیتے ہیں جو موجود ہی نہیں ہوتے۔

اس سے قبل کئی چھوٹی تحقیقی رپورٹس میں بھی کہا گیا تھا کہ کووڈ 19 کے شکار افراد میں صحتیابی کے بعد کچھ وقت کے لیے اس کے خلاف مزاحمت پیدا ہوجاتی ہے۔

یہ نئی تحقیق اب تک کی سب سے بڑی تھی جس میں 1343 افراد کے نتائج بیان کیے گئے۔

جسم میں اینٹی باڈیز کی موجودگی وائرس سے محفوظ ہوجانا نہیں ہوتا مگر ڈاکٹر کریمر کی سابقہ تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ اینٹی باڈیز کی سطح وائرس کو غیرمسلح کرنے سے تعلق رکھتی ہے۔

یہ محققین اب ان افراد کو اس تحقیق میں شامل کررہے ہیں جو بلڈ پلازما کا عطیہ کرنے کے لیے تیار ہوچکے ہیں اور اس میں 15 ہزار سے زائد افراد شامل ہوچکے ہیں۔

اب تحقیق میں ایسے افراد کے نتائج کاتجزیہ کیا جئے گا، جن میں سے 3 فیصد سنگین حد تک بیمار ہوئے تھے جبکہ باقی میں معمولی یا معتدل علامات سامنے آئی تھیں۔

تحقیقی ٹیم اب تک ایسے 624 افراد کے ٹیسٹ کرچکی ہے جن میں سے 511 میں اینٹی باڈیز کی سطح بہت زیادہ تھی، 42 میں کم جبکہ 71 میں بالکل نہیں تھی۔

ایسے افراد کو مزید ایک ہفتے آرام کی ہدایت کی گئی تو کسی حد تک اینٹی باڈیز بن گئیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں