مردوں کے ہاتھ میں تیسری انگلی یا رنگ فنگر کی لمبائی کو بھی کووڈ 19 کی شدت پر اثرانداز ہوسکتی ہے۔

یہ دعویٰ برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق میں سامنے آیا۔

سوانسیا یونیورسٹی کی اس تحقیق کے مطابق مردوں کے ہاتھ کی تیسری انگلی اگر شہادت کی انگلی سے لمبی ہو تو ان میں کووڈ 19 سے موت یا شدید بیمار ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

جریدے اری ہیومین ڈولپمنٹ میں شائع تحقیق میں مزید بتایا گیا کہ اس کی ممکنہ وجہ ٹسٹوسیٹرون کی سطح ہوسکتی ہے۔

جیسا اب تک نظر آیا ہے کہ کووڈ 19 سے ہلاکتوں میں خواتین کے مقابلے میں مردوں کی شرح زیادہ ہے اور کچھ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے ٹسٹوسیٹرون کردار ادا کررہا ہے۔

تحقیق میں شامل پروفیسر جان میننگ نے کہا کہ یہ نتیجہ ڈیجٹ ریشو کے ذریعے نکالا گیا جو ماں کے پیٹ میں ٹسٹوسیٹرون کی جانچ پڑتال کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

اس ممکنہ تعلق کا جائزہ لینے کے لیے محققین نے ٹو ڈی (شہادت کی انگلی) اور 4 ڈی (رنگ فنگر) کے حوالے سے ایک آن لائن سروے کے ڈیٹا کو دیکھا جس یں 41 ممالک کے ایک لاکھ سے زائد مردوں اور 83 ہزار سے زائد خواتین کی انگلیوں کی جانچ پڑتال کی گئی تھی۔

اس کے ساتھ ساتھ محققین نے کووڈ 19 میں ہلاکتوں کی شرح کے اس ڈیٹا کو دیکھا جو عالمی ادارہ صحت نے 21 اپریل تک جاری کیا تھا جبکہ 16 ممالک میں گلوبل ہیلتھ 50/50 نامی ادارے نے مردوں اور خواتین کی اموات کا ڈیٹا اکٹھا کیا تھا، اس کو بھی تحقیق کا حصہ بنایا گیا۔

تحقیقی ٹیم نے مردوں میں تیسری انگلی کی لمبائی اور کووڈ 19 کی زیادہ شدت اور اموات کے خطرے میں کمی کے درمیان تعلق کو دریافت کیا۔

آسان الفاظ میں جن مردوں کی تیسری انگی شہادت کی انگلی سے زیادہ لمبی ہوتی ہے، ان میں کووڈ 19 سے موت یا سنگین بیماری کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

مگر اس تعلق کی وضاحت کرنا آسان نہیں، مثال کے طور پر محققین کا کہنا تھا کہ خواتین کے مقابلے میں مردوں کا مدافعتی ردعمل کم طاقتور اور ان میں وبائی امراض کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس سے یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ ٹسٹوسیٹرون مدافعتی نظام پر منفی انداز سے اثرانداز ہوتا ہے مگر کئی بار بہت زیادہ مضبوط ردعمل بھی جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ ایک اور امکان یہ بھی ہے کہ ٹسٹوسیٹرون کورونا وائرس کو ہمارے خلیات پر حملہ کرنے میں مدد کرتا ہو، اور اس سے ممکنہ وضاحت کی جاسکتی ہے کہ آخر بچے کیوں اس وبائی بیماری سے زیادہ بیمار نہیں ہوتے، کیونکہ وہ بلوغت تک نہیں پہنچے ہوتے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ نتائج سے ٹسٹوسیٹرون کی زیادہ سطح اور کووڈ 19 سے مردوں میں زیادہ اموات اور سنگین بیماری کے درمیان تعلق ثابت ہوتا ہے۔

تاہم تحقیقی ٹیم نے تسلیم کیا کہ ان کی تحقیق محدود ہے، کیونکہ جن ممالک کے ڈیٹا کا موازنہ کیا گیا ان میں سے زیادہ تر میں ہسپتال میں زیرعلاج مریضوں پر توجہ دی گئی تھی جو ویسے ہی بہت زیادہ بیمار تھے جبکہ ممالک میں اس بیماری سے شرح اموات مصدقہ اعدادوشمار سے کئی گنا زیادہ بھی ہوسکتی ہے۔

تاہم انہوں نے کہا کہ ہم اس تعلق کے حوالے سے مزید تحقیق کا مشورہ دیتے ہیں، اگر یہ تعلق زیادہ ٹھوس ثابت ہوا تو انگلیوں کی لمبائی سے مرد مریضوں میں بیماری کی شدت کا اندازہ لگانا ممکن ہوسکے گا۔

دوسری جانب ایسے سائنسدان جو اس تحقیق کا حصہ نہیں تھے، انہوں نے نتائج کو دلچسپ تو قرار دیا مگر ان کے خیال میں وبا کی روک تھام کے لیے یہ زیادہ مددگار نہیں۔

برطانیہ کی شیفیلڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ایلن پرسی نے کہا 'میرا نہیں خیال کہ ہم میں کوئی بھی خود کو کووڈ 19 سے محفوظ سمجھ سکتا ہے، ہر ایک کو اپنی حکومتی ہدایات پر عمل کرنا چاہیے اور گھر میں رہنے کے ساتھ سماجی سدوری کی مشق کرنا چاہیے'۔

برطانیہ کی کینٹ یونیورسٹی کے جرمی روسمین نے کہا کہ یہ دوسری تحقیق ہے جس میں ٹیسٹوسیٹرون کی کم سطح اور کووڈ 19 کی شدت کے درمیان تعلق کو ظاہر کیا گیا ہے۔

اس سے قبل جرنل اینڈرولوجی میں شائع ایک تحقیق میں بھی اس تعلق کے بارے میں بتایا گیا تھا۔

انہوں نے کہا 'ٹیسٹوسیٹرون براہ راست کووڈ 19 پر اثرانداز نہیں ہوتا بلکہ یہ مختلف پہلوئوں سے اثرات مرتب کرسکتا ہے، یہ تحقیق کا نیا میدان ہے اور اس تعلق کو ثابت کرنے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے'۔

تبصرے (0) بند ہیں