نئے نوول کورونا وائرس کے مختلف پراسرار پہلوؤں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مغربی یورپ اور شمالی امریکا کے مقابلے میں ایشیائی ممالک میں کووڈ 19 سے ہلاکتوں کی شرح کم کیوں ہے۔

مختلف ٹیسٹنگ پالیسیوں اور طریقہ کار کے ساتھ ساتھ کیسز کی تعداد کو مکمل طور پر ظاہر نہ کرنے کے باوجود بھی یورپ اور امریکا کے مقابلے میں ایشیا میں ہلاکتوں کی تعداد کم ہے۔

یقیناً سماجی دوری کے اقدامات پر ایشیائی ممالک میں جلد عملدرآمد شروع ہوگیا تھا مگر سائنسدانوں نے چند دیگر عناصر کا بھی ذکر کیا ہے جبکہ وائرس کی مختلف اقسام، موٹاپے کی شرح اور عام صحت کو بھی مدنظر رکھا ہے۔

چین جس کے شہر ووہان سے یہ وائرس پھیلنا شروع ہوا تھا، وہاں ہلاکتوں کی تعداد 5 ہزار سے بھی کم ہے یعنی ہر 10 لاکھ میں 3، جاپان میں ہر 10 لاکھ میں 7، پاکستان میں 6، جنوبی کوریا اور انڈونیشیا میں 5، بھارت میں 3 اور تھائی لینڈ میں ہر 10 لاکھ میں سے ایک سے بھی کم ہے، جبکہ ویت نام، کمبوڈیا اور منگولیا وہ ممالک ہیں، جہاں اس وبائی بیماری سے کوئی ہلاکت نہیں ہوئی۔

اس کے مقابلے میں جرمنی میں ہر 10 لاکھ میں سو، کینیڈا میں 180، امریکا میں لگ بھگ 300 کے قریب اجبکہ برطانیہ، اٹلی اور اسپین میں 500 سے زائد ہے۔

جاپان کی شبا یونیورستی کے سائنسدانوں نے دنیا بھر میں وائرس کی تباہ کاریوں کا جائزہ لینے کے بعد بتایا کہ اموات کے لحاظ سے مختلف خطوں میں واضح فرق موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں خطے کے تضادات کو پہلے مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے اور اس کے بعد پالیسیوں اور دیگر عناصر کا تجزیہ کرنا چاہیے جو اس وائرس کے پھیلاؤ پر اثرانداز ہوئے۔

روایتی تصور

اس وقت ایک روایتی تصور تو یہ ہے کہ نیا نوول کورونا وائرس جسے سارس کوو 2 کا نام دیا گیا ہے، مختلف اقسام میں تبدیل ہوچکا ہے جن میں سے کچھ اقسام مختلف ممالک میں زیادہ متعدی اور جان لیوا ہے۔

امریکا کی کولمبیا یونیورسٹی کے وبائی امراض کے ماہر جیفری شامان نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا 'ہم ایک ہی جراثیم کا سامنا ایک جیسے مدافعتی ردعمل کے ساتھ کررہے ہیں، ٹیسٹنگ، رپورٹنگ، ملک در ملک کنٹرول کرنے کا طریقہ، بلڈ پریشر کی شرح میں فرق، پھیپھڑوں کے دائمی امراض ہر ملک میں مختلف ہیں'۔

امریکا اور مغربی یورپ میں اس وائرس سے زیادہ ہلاکتوں کی ایک وجہ وہاں وبا کے حوالے سے ردعمل میں تاخیر بھی ہوسکتی ہے جبکہ ایشیا میں سارس اور مرس جیسی وباؤں کے سابقہ تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے فوری طور پر ردعمل ظاہر کیا گیا۔

جاپان اور بھارت 2 بہت زیادہ مختلف مماللک ہیں مگر وہاں ہلاکتوں کی بہت کم شرح نے متعدد سائنسدانوں کو الجھن میں ڈال رکھا ہے، ایسی ہی الجھن پاکستان سے فلپائن میں ہلاکتوں کی کم شرح کے بارے میں بھی پائی جاتی ہے۔

موسم اور ثقافت کا اثر؟

گرم اور مرطوب موسم بھی کمبوڈیا، ویت نام اور سنگاپور جیسے ممالک میں ہلاکتوں کی کم شرح کی ایک وجہ ہوسکتی ہے۔ مختلف تحقیقی رپورٹس میں عندیہ ملا ہے کہ گرم اور مرطوب موسم وائرس کے پھیلاؤ کو روکتا تو نہیں مگر اسے سست ضرور کرسکتا ہے۔

مگر کچھ استوائی ممالک جیسے ایکواڈور اور برازیل میں متعدد کیسز اور ہلاکتیں کووڈ 19 کے نتیجے میں ہوئی ہیں۔

جغرافیہ بھی مختلف خطوں میں اس شرح میں فرق کا ایک عنصر ہوسکتا ہے، جیسے افریقہ ایسا براعظم ہے جہاں کی ابادی کم عمر اور شمالی اٹلی کی معمر آبادی کے مقابلے میں وائرس کے خلاف زیادہ مزاحمت کرسکتی ہے۔

جاپان کو دنیا کی معمر ترین آبادیوں سے ممالک میں سے ایک مانا جاتا ہے مگر وہاں ایک مختلف وجہ وائرس کی ممکنہ روک تھام کا باعث بن رہی ہے۔

ایسا مانا جاتا ہے کہ جاپانی شہریوں میں صفائی کی عادات اچھی ہیں جبکہ فیس ماسک اور مصافحے سے گریز کرتے ہیں، جس سے بھی وائرس کو پھیلنے سے روکنے میں مدد ملی۔

وائرس کی مختلف اقسام؟

کیمبرج یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ مشرقی ایشیا سے نکل یورپ کے سفر کے دوران وائرس میں تبدیلیاں آئیں، جس سے یہ امکان پیدا ہوتا ہے کہ ابتدائی قسم نے مدافعتی نظام یا ماحولیاتی عناصر کے تحت خود کو ڈھال لیا اور زیادہ مزاحمت کرنے لگا۔

اس تحقیق میں شامل محققین کا کہنا تھا کہ کلینیکل ڈیٹا بہت محدود ہے کہ مختلف آبادیوں میں وائرس کی کتنی اقسام موجود ہیں، تاہم اس حوالے سے دیکھنا ہوگا کہ مختلف اقسام اموات کی شرح میں کس حد تک اثرانداز ہورہی ہیں۔

امریکا کی لوس آلموس نیشنل لیبارٹری کی ایک تحقیق میں بھی زور دیا گیا تھا کہ یورپ اور امریکا میں اس وائرس کی زیادہ متعدد قسم پھیلی مگر دیگر ماہرین کا کہنا ہے کہ ان اقسام کے حوالے سے کچھ طے کرنا ابھی باقی ہے۔

میساچوسٹس یونیورسٹی آف میڈیکل اسکول کے جرمی لیوبان نے بتایا 'یہ ایک حادثہ بھی ہوسکتا ہے کہ وائرس کی ایک تبدیل شدہ قسم کا شکار ایک فرد راک فیسٹیولز اور نائٹ کلبوں میں گیا اور بیشتر افراد میں منتقل کردیا گیا، مگر ایک امکان یہ بھی ہے کہ یہ نئی قسم زیادہ پھیلنے والی ہو'۔

جینز اور مدافعتی نظام

نوبل انعام یافتہ جاپانی سائنسدان ٹاشوکو ہونجو کاک کہنا تھا کہ ایشیا اور یورپی شہریوں کے آباؤاجداد کے ایچ ایل اے ہیپلوٹائپ (ایسے جینز جو وائرس کے حوالے سے مدافعتی ردعمل ظاہر کرتے ہیں) بہت زیادہ مختلف تھے۔

انہوں نے کہا کہ اس سے یہ ممکنہ وضاحت کی جاسکتی ہے کی ایشیا میں اس وائرس سے شرح اموات کم کیوں ہیں، مگر واحد وجہ نہیں۔

جاپان کی شبا یونیورسٹی کے مطابق متعدد جینیاتی عناصر وائرس کے خلاف جسمانی ردعمل میں مدد دیتے ہیں اور اس حوالے سے مزید تحقیق کی جانی چاہیے۔

مختلف مدافعتی ردعمل بھی اس حوالے سے ایک عنصر ہوسکتا ہے۔

ٹوکیو یونیورسٹی کے سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ ابتدائی تحقیقی رپورٹس سے ثابت ہوتا ہے کہ جاپانی عوام کا مدافعتی نظام نوول کورونا وائرسز کے حوالے سے ردعمل ظاہر کرتا ہے جس کی وجہ ماضی میں اس کا سامنا ہے، کیونکہ مشرقی ایشیا میں صدیوں سے کورونا وائرسز ابھرتے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مشرقی ایشیا میں اموات کی کم شرح کی وضاحت اس امیونٹی سے کی جاسکتی ہے۔

کچھ تحقیقی رپورٹس میں یہ عندیہ دیا گیا کہ تپ دق کی روک تھام کے لیے استعمال ہونے والی بی سی جی ویکسین نے بھی اس حوالے سے کردار ادا کیا ہے جو قوت مدافعت کو ممکنہ طور پر مضبوط بناتی ہے۔

جاپان کی فیوجیتا ہیلتھ یونیورسٹی کے ماہرین کا کہنا تھا کہ بی سی جی حفاظتی کردار ادا کیا ہے، اس حوالے دنیا بھر کے سائنسدانوں کی رائے ملی جلی ہے اور کلینیکل ٹرائلز کیے جارہے ہیں۔

موٹاپا

متعدد ایشیائی ممالک میں ایک چیز مشترک ہے اور وہ ہے مغرب کے مقابلے میں موٹاپے کی کم شرح۔

موٹاپے کے بارے میں اب کہا جارہا ہے کہ وہ کووڈ 19 کی شدت بڑھانے والے عناصر میں سرفہرست ہے، جاپان میں موٹاپے کے شکار افراد کی تعداد 4 فیصد سے بھی کم ہے جبکہ جنوبی کوریا میں 5 فیصد سے کم۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس کے مقابلے میں مغربی یورپ میں یہ شرح 20 فیصد اور امریکا میں 36 فیصد ہے۔

اس حوالے سے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے اور سائنسدانوں کو اس وقت ڈیٹا کی کمی کا سامنا ہے، ابتدائی اعدادوشمار سے قائم کیے گئے اندازے نئے ڈیٹا سے ختم بھی ہوسکتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ابھی بھی دنیا وبا کے ابتدائی مرحلے سے ہی گزر رہی ہے اور حتمی جوابات کے لیے وقت درکار ہوگا۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ دنیا میں پھیلنے والی اس وائرس کی تمام اقسام لوگوں کو مارنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں