کورونا وائرس سے متاثر افراد بھی دوبارہ اس کا شکار نہیں ہوتے، تحقیق

27 مئ 2020
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو

نئے نوول کورونا وائرس سے معمولی حد تک بیمار ہونے والے افراد میں بھی ایسی اینٹی باڈیز بن جاتی ہیں جو کئی ہفتے یا اس سے زیادہ وقت تک ان کو بیماری سے تحفظ (امیونٹی) فراہم کرتی ہیں۔

یہ بات فرانس میں ہونے والی ایک ابتدائی تحقیق میں سامنے آئی جن میں ہسپتال کے ایسے عملے کو شامل کیا گیا تھا جن میں معتدل بیماری کی تشخیص ہوئی تھی۔

اینٹی باڈی ایک ایسا پروٹین ہے جو پلازما خلیات میں بنتا ہے جو کسی انفیکشن کے خلاف ردعمل ظاہر کرتا ہے اور یہ اس بات کی نشانی ہوتا ہے کہ جسم وائرس کے خلاف لڑنے کی کوشش کررہا ہے۔

آسان الفاظ میں کورونا وائرس کو شکست دینے والے افراد میں کچھ ہفتوں یا مہینوں تک دوبارہ اس بیماری کا خطرہ نہیں ہوتا۔

اسٹراس برک یونیورسٹی ہاسپٹل اور انسٹیٹوٹ پیسٹر کی تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے، مگر محققین نے ان کو حوصلہ افزا قرار دیا ہے کیونکہ نوول کورونا وائرس سے تحفظ کے میکنزم کے بارے میں ابھی زیادہ تفصیلات موجود نہیں، خصوصاً معمولی حد تک بیمار افراد میں۔

اس تحقیق میں اسٹراس برک کے 2 ہسپتالوں میں کام کرنے والے 160 افراد کو شامل کیا گیا تھا جن میں کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی تھی اور بیماری کی شدت بہت زیادہ نہیں تھی۔

محققین کا کہنا تھا کہ اب ہم جانتے ہیں کہ معمولی حد تک بیمار افراد میں بھی بیماری کے خلاف مدافعت پیدا ہوجاتی ہے، چاہے ان اینٹی باڈی کی شرح کمزور ہی کیوں نہ ہو۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان اینٹی باڈیز کی وائرس کو ناکارہ بنانے والی سرگرمی وقت کے ساتھ بڑھ جاتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اب ان رضاکاروں کا جائزہ لے کر اینٹی باڈیز کے ردعمل کے تسلسل اور ناکارہ بنانے کی گنجائش کا جائزہ طویل المعیاد بنیادوں پر لیا جائے گا۔

خیال رہے کہ دنیا بھر میں 55 لاکھ سے زائد افراد میں سے 21 لاکھ سے زیادہ مریض صحتیاب ہوچکے ہیں۔

اس سے قبل رواں ماہ ہی امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ نوول کورونا وائرس کو شکست دینے والے متعدد افراد میں اس کے خلاف مزاحمت کرنے والی اینٹی باڈیز بن جاتی ہیں۔

امریکا کے آئیکان اسکول آف میڈیسین کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ اس وبائی مرض کے شکار ہوکر صحتیاب ہونے والے بیشتر افراد کووڈ 19 سے محفوظ ہوجاتے ہیں۔

اس تحقیق کے لیے آئیکان اسکول آف میڈیسین کی ایک محقق فلورین کریمر کے ٹیسٹ پر انحصار کیا گیا جو اینٹی باڈیز کے نتائج کے حوال سے 99 فیصد سے زیادہ درست نتائج فراہم کرتا ہے،

کولمبیا یونیورسٹی کی وائرلوجسٹ ڈاکٹر اینجلا راسموسین نے نیویارک ٹائمز کو بتایا 'اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بیشتر افراد میں اینٹی باڈیز بن جاتی ہیں جو وائرس کو ناکارہ بنانے کی صلاحی رکھتی ہیں'۔

متعدد ممالک کے طبی حکام ایسے ٹیسٹ تیار کرنے کی کوشش کررہے ہیں جو کورونا وائرس اینٹی باڈیز کو شناخت کرکے بتاسکے کہ متاثرہ فرد دوبارہ اس مرض سے محفوظ ہوچکا ہے۔

مگر اب تک بیشتر اینٹی باڈی ٹیسٹس زیادہ کامیاب ثابت نہیں ہوئے کیونکہ وہ ایسے اینٹی باڈی سگنلز دیتے ہیں جو موجود ہی نہیں ہوتے۔

اس سے قبل کئی چھوٹی تحقیقی رپورٹس میں بھی کہا گیا تھا کہ کووڈ 19 کے شکار افراد میں صحتیابی کے بعد کچھ وقت کے لیے اس کے خلاف مزاحمت پیدا ہوجاتی ہے۔

جسم میں اینٹی باڈیز کی موجودگی وائرس سے محفوظ ہوجانا نہیں ہوتا مگر ڈاکٹر کریمر کی سابقہ تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ اینٹی باڈیز کی سطح وائرس کو غیرمسلح کرنے سے تعلق رکھتی ہے۔

یہ محققین اب ان افراد کو اس تحقیق میں شامل کررہے ہیں جو بلڈ پلازما کا عطیہ کرنے کے لیے تیار ہوچکے ہیں اور اس میں 15 ہزار سے زائد افراد شامل ہوچکے ہیں۔

اب تحقیق میں ایسے افراد کے نتائج کاتجزیہ کیا جئے گا، جن میں سے 3 فیصد سنگین حد تک بیمار ہوئے تھے جبکہ باقی میں معمولی یا معتدل علامات سامنے آئی تھیں۔

تحقیقی ٹیم اب تک ایسے 624 افراد کے ٹیسٹ کرچکی ہے جن میں سے 511 میں اینٹی باڈیز کی سطح بہت زیادہ تھی، 42 میں کم جبکہ 71 میں بالکل نہیں تھی۔

ایسے افراد کو مزید ایک ہفتے آرام کی ہدایت کی گئی تو کسی حد تک اینٹی باڈیز بن گئیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں