کراچی: پاکستان فشرفوک فورم (پی ایف ایف) کے چیئرمین محمد علی شاہ نے کراچی کے ساحل کے ساتھ ڈنگی اور بنڈل کے جڑواں جزیروں پر ایک نئے شہر کی تعمیر کی رپورٹس پر کہا ہے کہ 'یہ صوبے کے حقوق پر حملہ ہے، یہ سندھیوں پر حملہ ہے، یہ ماہی گیروں کی روزی روٹی پر حملہ ہے، اس سے سمندر میں مزید تباہی پھیلے گی'۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے کہا کہ کراچی کے ساحل پر ڈنگی اور بنڈل جزیروں پر نئے شہر کی تعمیر سے اس خطے کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ ہزاروں مقامی ماہی گیروں کے اپنی آمدنی کے ذرائع سے بھی محروم ہونے کا خدشہ ہے۔

یہ بات انہوں نے کراچی پریس کلب میں اس مسئلے سے متعلق پریس کانفرنس کے دوران کی جس کا اہتمام پی ایف ایف، پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ (پی آئی ایل ای آر) اور سول سوسائٹی کے متعدد نمائندوں نے کیا تھا۔

جزیروں کی اتھارٹی بنانے کا اقدام مسترد

دونوں جزیروں کی ترقی کے لیے پاکستان آئلینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی بنانے کی وفاقی حکومت کی تجویز پر تنقید کرتے ہوئے محمد علی شاہ نے کہا کہ سندھ کے ساحلی پٹی کے ساتھ قریب 300 بڑے اور چھوٹے جزیرے موجود ہیں جو برسوں کے دوران دریائے سندھ کی وجہ سے پیدا ہوئے تھے۔

مزید پڑھیں: کراچی کا فراموش کیا گیا جزیرہ

انہوں نے کہا کہ ان جزیروں کے آس پاس سمندر کی طرف جانے والی کریک کے حصے کو ماہی گیر اپنی کشتیوں کے لیے راستے کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور نیا شہر بنانے کے بعد غریب ماہی گیروں کو متبادل راستوں کی تلاش کی ضرورت ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ 'یہ ترقی نہیں ہے، یہ تباہی ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اطلاعات کے مطابق اتھارٹی کے قیام کا بل تیار کرلیا گیا ہے، جسے پارلیمنٹ میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا لیکن اس اتھارٹی کے قیام کے پیچھے سب سے بڑی وجہ جڑواں جزیروں کا کنٹرول سنبھالنا اور وہاں ایک نیا شہر آباد کرنا ہے'۔

مشرف، پیپلز پارٹی کی حکومتوں کی سابقہ کوششیں

محمد علی شاہ نے کہا کہ مشرف حکومت نے دو جڑواں جزائر کی ترقی کے لیے 2000 اور 2006 میں کوششیں کی تھیں لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ ناکام ہو گیا تھا، بعدازاں 2013 میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے بھی ملک ریاض کے توسط سے جزیرے پر کام کرنے کی کوشش کی تھی لیکن سپریم کورٹ نے اس تعمیر پر پابندی عائد کردی تھی۔

انہوں نے کہا کہ 'جڑواں جزیروں کے علاوہ ہاکس بے میں واٹرفرنٹ شوگرلینڈ سٹی نامی ایک شہر جس کا رقبہ 60 ہزار ایکڑ سے زائد پر مشتمل ہے، کا بھی منصوبہ بنایا گیا تھا، اس منصوبے کی لاگت 68 ارب روپے بتائی گئی تھی جس کے بارے میں اس وقت کی ضلعی حکومت کی ویب سائٹ پر ذکر کیا گیا تھا'۔

پی ایف ایف کے سربراہ نے نشاندہی کی کہ 'وفاقی حکومت نے سندھ حکومت سے مشورہ کیے بغیر جڑواں جزیروں پر شہر تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن یہ علاقہ صوبائی دائرہ اختیار میں ہے، وفاقی حکومت کا یہ اقدام نہ صرف آئین پاکستان کے خلاف ہے بلکہ یہ مقامی لوگوں کو معاشرتی، معاشی اور ثقافتی خودمختاری فراہم کرنے کے لیے بین الاقوامی معاہدوں اور کنونشنز کے بھی خلاف ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ڈنگی اور بنڈل دراصل سندھ کے جزیرے ہیں، یہ سندھ کے لوگوں کی ملکیت ہیں جہاں ماہی گیروں کو روایتی حقوق حاصل ہیں جبکہ صوبائی حکومت زمینوں اور جنگلات کی نگرانی کرتی ہے'۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ جزائر ہزاروں ہیکٹر پر مشتمل مینگروو کے جنگلات سے ملتے ہیں۔

محمد علی شاہ نے کہا 'یہ جنگلات مچھلی اور کیکڑے کی نرسری ہیں جبکہ کراچی سے ٹھٹہ تک کی یہ کریک ماہی گیروں کے لیے مچھلیاں پکڑنے کی اہم جگہ ہیں'۔

عوامی سماعت پر زور

پی آئی ایل ای آر کے کرامت علی نے کہا کہ اس معاملے کے بارے میں عوامی سماعت ہونی چاہیے تاکہ کم از کم اسٹیک ہولڈرز کو سنا جاسکے۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی کے جزیرے

ان کا کہنا تھا کہ 'یہاں آپ اپنے شہر کو سنبھالنے کے بھی اہل نہیں ہیں اور آپ ایک نیا شہر بنانا چاہتے ہیں؟'۔

محمد علی شاہ کا کہنا تھا کہ 'آپ اپنے سولڈ ویسٹ کو سنبھال نہیں سکتے، ایک نئے شہر کے آنے سے ماحولیاتی خرابی پیدا ہوگی اور اس کے بعد مزید تباہی کا سلسلہ شروع ہوگا'۔

انہوں نے سوال کیا کہ 'کیا آپ کو لگتا ہے کہ آپ کے بےایمان بلڈرز نیا شہر بنانے کے قابل بھی ہیں؟ کراچی پر مزید بوجھ مت ڈالیں'۔

تبصرے (0) بند ہیں