موٹروے ریپ کیس: مرکزی ملزم تاحال قانون کی گرفت سے باہر، گینگ کا ایک ساتھی گرفتار

گرفتار تیسرے ملزم براہ راست ریپ کیس میں ملوث نہیں—فائل فوٹو: کری ایٹو کامنز
گرفتار تیسرے ملزم براہ راست ریپ کیس میں ملوث نہیں—فائل فوٹو: کری ایٹو کامنز

لاہور: ایک طرف جہاں لاہور-سیالکوٹ موٹروے پر گینگ ریپ کا مرکزی ملزم تاحال قانون کی گرفت میں نہیں آیا وہی پولیس نے 'تیسرے ملزم' کو گرفتار کرلیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق صوبہ پنجاب میں امن و امان کی صورتحال پر بریفنگ کے دوران وزیراعظم عمران خان نے پولیس سربراہ کو ہدایت کی کہ وہ جلد موٹروے گینگ ریپ کیس کو اس کے منطقی انجام تک پہنچائیں اور قانون کے مطابق قصورواروں کے لیے زیادہ سے زیادہ سزا کو یقینی بنائیں۔

ادھر حالیہ پیش رفت سے متعلق ایک سینئر پولیس افسر نے ڈان کو بتایا کہ تیسرا ملزم جس کی شناخت اقبال عرف بالا کے نام سے ہوئی اسے شریک ملزم شفقت علی کی جانب سے دوران تفتیش فراہم کی گئی معلومات پر 'گرفتار' کیا گیا۔

مزید پڑھیں: موٹروے ریپ کیس: ملزم شفقت 14 روزہ ریمانڈ پر جیل منتقل

انہوں نے کہا کہ یہ ملزم براہ راست ریپ کیس میں ملوث نہیں تاہم گینگ کے متحرک رکن کے طور پر یہ کیس میں مرکزی ملزم اور گینگ سربراہ عابد مالہی کے ممکنہ ٹھکانوں کے بارے میں بتاسکتا ہے۔

واضح رہے کہ 4 لوگوں کے گروپ کی سربراہی کرنے والا عابد مالہی پولیس کو پنجاب کے مختلف تھانوں میں درج کم از کم 10 مجرمانہ کیسز میں بھی مطلوب تھا۔

اس سے قبل اتوار کو مشتبہ ملزم وقار الحسن نے پولیس کے سامنے سرنڈر کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ وہ بے قصور ہے اور حکام سے درخواست کی تھی کہ اس کے دعوے کی توثیق کے لیے اس کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا جائے۔

خیال رہے کہ 9 ستمبر کو بچوں کے ہمراہ ایک خاتون لاہور-سیالکوٹ موٹروے پر سفر کر رہی تھیں کہ گجرپورہ کے علاقے میں گاڑی کا فیول یا کوئی دیگر خرابی کی وجہ سے گاڑی بند ہوگئی، اسی دوران 2 مسلح افراد وہاں آئے اور خاتون کو اسلحہ کے زور پر کار سے باہر گھسیٹا اور ان کا گینگ ریپ کیا۔

پولیس ذرائع کا کہنا تھا کہ جب پولیس کا ڈولفن اسکواڈ جس نے موٹروے سے متاثرہ خاتون کی ایمرجنسی کال پر سب سے پہلے ردعمل دیا تھا، اس نے ہوا میں انتباہی فائرنگ کی تو ملزمان جائے وقوع پر موجود تھے، تاہم پولیس عہدیدار کا مؤقف تھا کہ فائرنگ کی آواز پر مجرمان قریبی واقع کارول گھاٹی کے جنگلات میں فرار ہوگئے، جو ڈولفن اسکواڈ کے اہلکاروں کی 'غلطی' تھی جبکہ وہ انہیں پکڑنے کی کوشش میں بھی ناکام رہے۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ پولیس نے ابتدائی طور پر اس کیس کو معمول کے معاملے کے طور پر لیا اور اہم مجرمان کو علاقے سے فرار ہونے کا موقع فراہم کیا۔

ایک سینئر پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان کو بتایا کہ مختلف ٹیمیں عابد مالہی کی تلاش کے لیے کام کر رہی ہیں تاہم اب تک کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔

انہوں نے بتایا کہ اس کی آخری لوکیشن جرم کے بعد کی گئی کالز سے ٹریس کی گئی جو غازی کوٹ شیخوپورہ کی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ بعد ازاں جب پولیس نے اس کے گھر پر چھاپہ مارا، وہ پہلے ہی یہ جگہ چھوڑ چکا تھا، تاہم پولیس نے اس کی بیوی، باپ، بھائیوں اور ایک کم سن بیٹی سمیت تمام گھر والوں کو حراست میں لے لیا۔

عہدیدار کا کہنا تھا کہ تاہم بچی کو چائلڈ پروٹیکشن بیورو پنجاب کے حوالے کردیا گیا۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پولیس کے تفتیش کاروں نے ملزم کے رشتے داروں، دوستوں اور جو ان کے رابطے میں تھے سب سے سوالات کیے۔

علاوہ ازیں ملزم کے راجن پور کے کچے کے علاقوں میں فرار ہونے کی رپورٹس کی سچائی کی تصدیق سے انکار کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اب تک اس نے اپنے کسی رابطے کو کال نہیں کی۔

دوسری جانب انسداد دہشت گردی عدالت نے موٹروے گینگ ریپ کیس میں شریک ملزم شفقت علی کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا، ساتھ ہی جیل حکام کو یہ ہدایت کی کہ وہ خصوصی انتظامات کے تحت اس کی شناختی پریڈ کروائیں۔

موٹروے ریپ کیس

خیال رہے کہ 9 ستمبر کو منگل اور بدھ کی درمیانی شب لاہور-سیالکوٹ موٹروے پر گجرپورہ کے علاقے میں 2 مسلح افراد نے ایک خاتون کو اس وقت گینگ ریپ کا نشانہ بنایا تھا جب وہ وہاں گاڑی بند ہونے پر اپنے بچوں کے ہمراہ مدد کی منتظر تھی۔

واقعے کی سامنے آنے والی تفصیل سے یہ معلوم ہوا تھا کہ لاہور کی ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی کی رہائشی 30 سال سے زائد عمر کی خاتون اپنے 2 بچوں کے ہمراہ رات کو تقریباً ایک بجے اس وقت موٹروے پر پھنس گئیں جب ان کی گاڑی کا پیٹرول ختم ہوگیا تھا۔

اس دوران خاتون نے اپنے ایک رشتے دار کو بھی کال کی تھی، جس نے خاتون کو موٹروے ہیلپ لائن پر کال کرنے کا کہا تھا جبکہ وہ خود بھی جائے وقوع پر پہنچنے کے لیے روانہ ہوگیا تھا۔

تاہم جب خاتون مدد کے لیے انتظام کرنے کی کوشش کر رہی تھیں تب 2 مرد وہاں آئے اور انہیں اور ان کے بچوں (جن کی عمر 8 سال سے کم تھی) بندوق کے زور پر قریبی کھیت میں لے گئے، بعد ازاں ان مسلح افراد نے بچوں کے سامنے خاتون کا ریپ کیا، جس کے بعد وہ افراد جاتے ہوئے نقدی اور قیمتی سامان بھی لے گئے۔

اس واقعے کے بعد جائے وقوع پر پہنچنے والے خاتون کے رشتے دار نے اپنی مدعیت میں واقعے کا مقدمہ بھی تھانہ گجرپورہ میں درج کروایا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: موٹروے پر مدد کی متلاشی خاتون کا 'ڈاکوؤں' نے 'گینگ ریپ' کردیا

تاہم اس واقعے کے بعد سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے ایک ایسا بیان دیا تھا جس نے تنازع کھڑا کردیا اور عوام، سول سوسائٹی اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے علاوہ مسلم لیگ (ن) نے ان کو ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔

سی سی پی او نے کہا تھا کہ 'خاتون رات ساڑھے 12 بجے ڈیفنس سے گوجرانوالہ جانے کے لیے نکلیں، میں حیران ہوں کہ تین بچوں کی ماں ہیں، اکیلی ڈرائیور ہیں، آپ ڈیفنس سے نکلی ہیں تو آپ جی ٹی روڈ کا سیدھا راستہ لیں اور گھر چلی جائیں اور اگر آپ موٹروے کی طرف سے نکلی ہیں تو اپنا پیٹرول چیک کر لیں'۔

بعدازاں انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس انعام غنی نے موٹروے پر اجتماع زیادتی کا شکار خاتون سے متعلق متنازع بیان پر کیپیٹل سٹی پولیس افسر لاہور عمر شیخ کو شوکاز نوٹس جاری کیا تاہم 14 ستمبر کو انہوں نے اپنے بیان پر معذرت کرلی تھی۔

یہی نہیں واقعے کے بعد عوام میں شدید غم و غصہ پایا گیا تھا جس پر حکومت بھی ایکشن میں آئی تھی اور آئی جی پنجاب پولیس نے مختلف تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دی تھیں جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے بھی صوبائی وزیرقانون راجا بشارت کی سربراہی میں ایک خصوصی کمیٹی بنائی تھی۔

علاوہ ازیں 12 ستمبر کو وزیراعلیٰ پنجاب نے آئی جی پنجاب انعام غنی و دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ 72 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں اصل ملزمان تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔

ساتھ ہی اس موقع پر بتایا گیا تھا کہ واقعے کے مرکزی ملزم کی شناخت عابد علی کے نام سے ہوئی اور اس کا ڈی این اے میچ کرگیا ہے جبکہ اس کی گرفتاری کے لیے کوششیں جاری ہیں، اس کے علاوہ ایک شریک ملزم وقار الحسن کی تلاش بھی جاری ہے۔

تاہم 13 ستمبر کو شریک ملزم وقار الحسن نے سی آئی اے لاہور میں گرفتاری دیتے ہوئے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی تردید کی تھی۔

14 ستمبر کو وزیراعلیٰ پنجاب نے بتایا کہ خاتون کے ریپ میں ملوث ملزم شفقت کو گرفتار کرلیا ہے جس کا نہ صرف ڈی این اے جائے وقوع کے نمونوں سے میچ کرگیا بلکہ اس نے اعتراف جرم بھی کرلیا ہے۔

15 ستمبر کو لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے سیالکوٹ موٹر وے پر دوران ڈکیتی خاتون سے زیادتی کے ملزم کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔

تبصرے (0) بند ہیں