سکھر پولیس، وکیل کے اغوا اور قتل کی ذمہ دار قرار

21 دسمبر 2020
انکوائری میں انکشاف کیا گیا کہ یہ جرم صرف ایک فریق کے حق میں کیا گیا کیونکہ وہ متوفی کے ساتھ جائیداد کے تنازع میں تھا۔ - فائل فوٹو: پی پی آئی
انکوائری میں انکشاف کیا گیا کہ یہ جرم صرف ایک فریق کے حق میں کیا گیا کیونکہ وہ متوفی کے ساتھ جائیداد کے تنازع میں تھا۔ - فائل فوٹو: پی پی آئی

کراچی: فیصل آباد کے ایک وکیل کے اگست میں اغوا اور قتل کی پولیس انکوائری اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ سکھر پولیس نے مناسب طریقہ کار پر عمل نہ کرتے ہوئے پنجاب سے ایک وکیل کو گرفتار/اغوا کیا، اسے غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا اور اسے تشدد کا نشانہ بناکر قتل کرنے کے بعد اس کی لاش رحیم یار خان کے صحرا میں پھینک دی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انکوائری میں انکشاف کیا گیا کہ یہ جرم صرف ایک فریق کے حق میں کیا گیا کیونکہ وہ متوفی کے ساتھ جائیداد کے تنازع میں ملوث تھا اور مقامی بااثر شخصیات کے کہنے پر اس کی حمایت کی گئی تھی۔

سندھ پولیس چیف کے حکم پر ڈی آئی جی نعیم احمد شیخ کی سربراہی میں کی گئی انکوائری رپورٹ میں کہا گیا کہ 'اس پورے واقعے کا سب سے افسوسناک حصہ یہ ہے کہ (ایڈووکیٹ) اعجاز احمد آرائیں کو غیر قانونی تحویل میں رکھا گیا تھا، انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا اور اس کے بعد غیر قانونی تحویل میں اس کی موت واقع ہوگئی تھی اور اس کی میت کو صوبائی حدود سے باہر ایک ویران علاقے میں پھینک دیا گیا تھا'۔

مثالی کارروائی کی تجویز

رپورٹ میں تجویز دی گئی کہ 'یہ اقدام نہ صرف مجرمانہ ہے بلکہ ساتھ ساتھ غیر انسانی بھی ہے، سمجھ بوجھ رکھنے والا کوئی شخص اس جرم کی حمایت نہیں کرسکتا، اس سلسلے میں سکھر پولیس کے کردار کی نہ صرف مذمت کی جانی چاہیے بلکہ ذمہ داروں کے خلاف مثالی کارروائی کی بھی ضرورت ہے'۔

مزید پڑھیں: ڈیفنس ’پولیس مقابلہ‘: کراچی پولیس چیف ودیگر افسران عدالت طلب

انکوائری میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ وکیل کے خلاف جولائی میں سکھر کینٹ پولیس اسٹیشن میں درج کی گئی ایف آئی آر 'جائیداد کے تنازع کا سامنا کرنے والے اعجاز احمد آرائیں پر دباؤ ڈالنے کے ارادے کے ساتھ کی گئی تھی'۔

انکشاف کیا گیا کہ سکھر پولیس کے اعلیٰ افسران مبینہ طور پر ایک مقامی بااثر شخصیات کے کہنے پر 'کسی جھوٹے مقدمے کے اندراج میں مدد فراہم کرنے میں ملوث تھے'۔

انکوائری میں کہا گیا کہ غلط ایف آئی آر درج کرنے کے بعد فیصل آباد سے وکیل کی گرفتاری سکھر میں اس کی غیر قانونی حراست، اس کی موت کی وجہ بننے والے اس کے جسم پر زخموں کے نشانات اور سندھ کی صوبائی حدود سے باہر لاش کو پھینکنے کے بارے میں سکھر پولیس کے اعلیٰ افسران، بشمول ایس ایس پی عرفان سمو کو علم تھا اور 'وہ براہ راست یا بالواسطہ ان کارروائیوں کے ذمہ دار ہیں'۔

انکوائری میں سکھر پولیس کے اعلیٰ افسران کے خلاف کارروائیوں کی سفارش کی گئی تھی کیونکہ وہ 'جائیداد کے تنازع' میں ایک فریق کے حق میں اپنے اختیار کو 'غلط استعمال' کرنے میں ملوث تھے، انہوں نے ایک 'مجرمانہ سازش' کا ارتکاب کیا اور 'نا اہلی' کا مظاہرہ کیا۔

انکوائری افسر نے یہ بھی سفارش کی کہ تحقیقات کے عمل میں ہم آہنگی کے لیے ایک ڈی آئی جی رینک کے پولیس افسر کو 'فوکل پرسن' کے طور پر مقرر کیا جائے تاکہ مناسب شواہد اکٹھے ہوں اور معاملہ سندھ اور پنجاب میں چلایا جاسکے۔

'بد انتظامی رپورٹ'

اس پیش رفت سے واقف سینئر افسر کا کہنا تھا کہ انکوائری کے نتائج کی روشنی میں انسپکٹر جنرل سندھ پولیس مشتاق احمد مہر نے سیکریٹری داخلہ کو خط لکھ کر ایس ایس پی سمو کے خلاف 'بدانتظامی رپورٹ' کو 'موجودہ قواعد کے مطابق مزید ضروری کارروائی کرنے کے لیے' اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں بھیجنے کے لیے کہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پولیس نے 5 'ڈاکوؤں' کے ساتھ میرے معصوم ڈرائیور کو بھی قتل کیا، پی ٹی آئی رہنما کا دعویٰ

انکوائری رپورٹ میں کہا گیا کہ سکھر پولیس نے پنو عاقل کے رہائشی کی شکایت پر فیصل آباد کے مذکورہ وکیل کے خلاف یکم جولائی 2020 کو ایف آئی آر درج کی تھی۔

سکھر پولیس نے 'طریقہ کار پر عمل کرنے کے بجائے' براہ راست فیصل آباد ضلع میں کارروائی کی اور اعجاز احمد آرائیں کو 17 اگست کو گرفتار کیا اور اسے سکھر لائے اور اسے غیر قانونی قید میں رکھا اور اسے تشدد کا نشانہ بنایا اور بالآخر اس کی موت ہوگئی۔

رپورٹ کے مطابق 'مقتول کی لاش کو اس کے بعد تھانہ بھنگ، ضلع رحیم یار خان کی حدود میں پھینک دیا گیا'۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا جب 22 اگست کو لاش برآمد کی گئی اور اس کی نشاندہی کی گئی تو یہ اطلاع ملی کہ پولیس ضلع سکھر کے شہری نے اسے فیصل آباد سے 'قانون پر عمل درآمد نہ کرتے ہوئے گرفتار کیا جو اغوا کے مترادف ہے'۔

تبصرے (0) بند ہیں