پولیس نے 5 'ڈاکوؤں' کے ساتھ میرے معصوم ڈرائیور کو بھی قتل کیا، پی ٹی آئی رہنما کا دعویٰ

اپ ڈیٹ 28 نومبر 2020
پولیس نے ڈیفنس میں ڈکیتوں سے فائرنگ کے تبادلے کا دعویٰ کیا تھا —فائل/فوٹو: اے ایف پی
پولیس نے ڈیفنس میں ڈکیتوں سے فائرنگ کے تبادلے کا دعویٰ کیا تھا —فائل/فوٹو: اے ایف پی

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی مقامی رہنما نے دعویٰ کیا ہے کہ پولیس نے ڈیفنس میں جن 5 مشتبہ ڈاکوؤں کو نشانہ بنایا تھا ان میں ایک ان کا معصوم ڈرائیور تھا جنہیں گھر سے اٹھایا گیا تھا۔

قبل ازیں پولیس نے کہا تھا کہ ڈیفنس فیز 4 میں امام بارگاہ کے قریب ایک بنگلے میں ڈکیتی کے دوران مقابلے میں 5 ڈاکو مارے گئے۔

گزری تھانے کے ایس ایچ او آغا معشوق نے بتایا تھا کہ ڈیفنس میں امام بارگاہ یثرب کے قریب ایک بنگلے میں ڈاکو داخل ہوئے تھے تاہم پولیس نے انہیں گھیرے میں لے لیا۔

مزید پڑھیں: کراچی میں پولیس مقابلہ، 5 مشتبہ ڈاکو ہلاک

انہوں نے بتایا تھا کہ پولیس کے گھیرے سے نکلنے کے لیے انہوں نے دیوار پھلانگ کر ساتھ والے بنگلے میں جانے کی کوشش کی اور ساتھ ہی فائرنگ بھی کی۔

پولیس عہدیدار کے مطابق اس موقع پر پولیس اور ڈاکوؤں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس کے نتیجے میں پانچوں ڈاکو ہلاک ہوگئے۔

ہلاک ہونے والوں کی شناخت 44 سالہ غلام محمد، 65 سالہ ریاض اور 36 سالہ عابد کے نام سے ہوئی جبکہ دیگر دو افراد کی شناخت نہیں ہوسکی، تاہم ان کی عمریں 30 کے قریب بتائی گئی ہیں۔

دوسری جانب پی ٹی آئی رہنما لیلیٰ پروین اور ان کے شوہر ایڈووکیٹ علی حسنین نے پولیس کے برخلاف بیان جاری کیا اور کہا کہ ہلاک 5 افراد میں ان کا ڈرائیور غلام عباس بھی شامل تھا اور یہ مقابلہ جعلی تھا۔

سوشل میڈیا پر جاری اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ پولیس نے ہمارے ڈرائیور غلام عباس کو ڈیفنس فیز فور میں ہمارے گھر سے اٹھایا اور ملزمان سے برآمد کی گئی گاڑی میری ملکیت ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ مقابلہ ہمارے بنگلے کے پیچھے ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: ڈکیتی کے شبہے میں شہری کے قتل میں ملوث 6 پولیس اہلکار گرفتار

لیلیٰ پروین کا کہنا تھا کہ میری ساس اور میری نند گھر میں موجود تھیں کہ رات کے تقریباً ساڑھے 4 بجے پولیس اور سادہ لباس اہلکار گھر میں داخل ہوئے اور پارکنگ میں کھڑی گاڑی کے ساتھ ہمارے ڈرائیور کو لے گئے۔

انہوں نے کہا کہ تھوڑی دیر کے بعد انہوں نے غلام عباس کو قتل کردیا اور پولیس ملزمان سے جس ڈبل کیبن گاڑی برآمد کرنے کا دعویٰ کر رہی ہے وہ میری ملکیت ہے۔

علی حسنین کا کہنا تھا کہ عباس ہمارے ساتھ گزشتہ 5 سال سے ڈرائیور کے طور پر کام کر رہا تھا اور شریف آدمی تھا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ نہ تو میری گاڑی کا کوئی کریمنل ریکارڈ ہے اور نہ ہی میرے ڈرائیور کا کریمنل ریکارڈ ہے اورپولیس کی فائرنگ میں مارے گئے دیگر 4 افراد کو میں نہیں جانتا۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈرائیور کو گھر سے لے جانے پر میری والدہ اور پڑوسی نے مزاحمت کی کوشش بھی کی تھی لیکن پولیس نے میری والدہ سے بدتمیزی کی۔

علی حسنین نے کہا کہ میرے گھر میں سی سی ٹی وی کیمرے بھی لگے ہوئے ہیں اور اگر پولیس نے فوٹیج ضائع نہیں کی ہیں تو سارے حقائق سامنے آئیں گے۔

پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ ہمارا ڈرائیور معصوم تھا اور حکام انہیں انصاف فراہم کریں۔

پولیس کا ‘جوابی فائرنگ’ کا دعویٰ

کراچی جنوبی پولیس نے اپنے بیان میں کہا کہ ضلع میں بڑھتی ہوئی ڈکیتی کی وارداتوں کے پیش نظر دو مختلف ٹیمیں تشکیل دی گئیں اور ان ہی ٹیموں نے ڈکیت گینگ کے خلاف کامیاب کارروائی کی۔

مزید پڑھیں: کراچی: ڈاکوؤں سے مقابلے میں سب انسپکٹر شہید

بیان میں کہا گیا کہ پولیس پارٹی فیز 4 کے گزری کی کمرشل اسٹریٹ میں گشت کر رہی تھی کہ ساڑھے 4 بجے ویگو گاڑی کو شک کی بنیاد پر تلاشی کے لیے روکنے کی کوشش کی تو گاڑی میں سوار افراد دیوار پھلانگ کر بنگلے میں داخل ہوگئے اور پولیس نے بھی ان کا پیچھا کیا اور بنگلے میں داخل ہوگئی۔

پولیس نے کہا کہ ملزمان نے فائرنگ شروع کردی جس پر پولیس نے اپنے دفاع میں جوابی فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں 5 ملزمان زخمی ہوئے جو ہسپتال منتقلی کے دوران دم توڑ گئے۔

پولیس نے بیان میں کہا کہ گروپ کی شناخت ‘سرائیکی گینگ’ کے نام سے ہوئی اور ان کا سرغنہ غلام مصطفیٰ تھا اور گینگ کے دیگر 6 اراکین جیل میں ہیں۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ ‘سرائیکی گروپ گھروں میں کام کرنے والے افراد سے معلومات اکٹھی کرکے مناسب وقت پر ڈکیتی کرتا تھا’۔

پولیس نے کہا کہ گینگ پنجاب میں بھی گھروں میں ڈکیتیوں میں ملوث رہا ہے اور اس کے علاوہ سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ علی محمد مہر کے ڈیفنس میں واقع گھر میں بھی ڈکیتی کی اور کراچی کے ضلع جنوبی میں اس طرح کی 20 سے زائد جرائم کی وارداتوں میں ملوث ہے۔

بیان میں پولیس نے دعویٰ کیا کہ ملزمان کے قبضے سے 5 پستول اور 4 شناختی کارڈ برآمد ہوئے ہیں لیکن پی ٹی آئی رہنما کے الزامات پر پولیس نے چپ سادھ لی ہے۔

ڈان کو دو سینیئر پولیس افسران نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ سیاسی بحث میں نہیں پڑنا چاہتے ہیں۔

پولیس ذرائع کا کہنا تھا کہ سینیئر پولیس افسران نے پی ٹی آئی رہنما اور ان کے شوہر کو واقعے کے حوالے سے بیان ریکارڈ کروانے کی دعوت دی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہلاک ہونے والے غلام عباس کے ٹیلی فون ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ گینگ ارکان کے ساتھ رابطے میں تھا۔

جناح ہسپتال کی ایڈیشنل پولیس سرجن ڈاکر سمعیہ سید کا کہنا تھا کہ تنازع کے بعد انہوں نے ایک میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میڈیکل بورڈ میں ان کے علاوہ فرانزک ماہر ڈاکٹر فرحت مرزا اور میڈیکو لیگل افسر ڈاکٹر سکندر شامل ہیں، جنہوں نے ابتدائی طور پر پوسٹ مارٹم کیا تھا اور اب دوبارہ جائزہ لیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں