حکومت سندھ نے گیس کی پیداوار اور فراہمی کے غلط اعداد و شمار فراہم کیے، ندیم بابر

اپ ڈیٹ 30 دسمبر 2020
وزیر اعلیٰ سندھ کا خط سنگین معاشی مسئلے کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش ہے، معاون خصوصی برائے پیٹرولیم — فوٹو: پی آئی ڈی
وزیر اعلیٰ سندھ کا خط سنگین معاشی مسئلے کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش ہے، معاون خصوصی برائے پیٹرولیم — فوٹو: پی آئی ڈی

اسلام آباد: وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ندیم بابر نے کہا ہے کہ حکومت سندھ صوبے میں گیس کی پیداوار اور فراہمی کے بارے میں غلط اور گمراہ کن اعداد و شمار پیش کرکے ایک سنگین معاشی مسئلے کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کر رہی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز کے ہمراہ نیوز کانفرنس کرتے ہوئے وزیر اعظم کے معاون نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ سندھ نے وزیراعظم عمران خان کو لکھے گئے خط میں بتایا ہے کہ صوبے نے تقریباً 2 ہزار 500 سے 2ہزار 600 ایم ایم سی ایف ڈی (ملین کیوبک فٹ روزانہ) گیس پیدا کی اور اسے صرف ایک ہزار ایم ایم سی ایف ڈی گیس ملی جو حقیقت پسندانہ پوزیشن کے منافی ہے۔

انہوں نے وزیر اعلیٰ کے خط کو سنگین معاشی مسئلے کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش قرار دیا۔

مزید پڑھیں: گیس کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ، ایشیا میں سپلائی میں کمی

ندیم بابر نے کہا کہ انہوں نے اگست میں مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کے اجلاس میں صوبہ سندھ کے جون 2020 کی پیداوا اور استعمال کے مکمل اعداد و شمار پیش کیے تھے جہاں آرٹیکل 158 بھی ایجنڈے میں شامل تھا۔

انہوں نے کہا کہ جون کے اعدادوشمار کے مطابق سندھ میں تقریباً 2 ہزار 25 ایم ایم سی ایف ڈی گیس کی پیداوار ہوئی جس میں سے ایک ہزار 562 ایم ایم سی ایف ڈی صوبے میں براہ راست سوئی سدرن گیس کمپنی (ایس ایس جی سی) کے نیٹ ورک کے ذریعے استعمال کی گئی جبکہ سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) کے لیے تقریباً 463 ایم ایم سی ایف ڈی گیس مختص کی گئی تھی جس میں سے بھی 202 ایم ایم سی ایف ڈی گیس دو پاور پلانٹس اور کھاد پیدا کرنے والے یونٹس کو سپلائی کی صورت میں سندھ کو واپس کردی گئی تھی۔

معاون خصوصی نے بتایا کہ سندھ کی باقی صرف 261 ایم ایم سی ایف ڈی گیس صوبے سے باہر گئی ہے۔

انہوں نے دعوٰی کیا کہ 'میں نے جون 2020 کے اعداد و شمار کا ذکر کیا ہے، موجودہ ذخائر میں کمی کی وجہ سے آج سندھ میں گیس کی پیداوار میں کمی واقع ہوئی ہے'۔

اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ صوبے کو تقریباً 150 ایم ایم سی ایف ڈی مائع قدرتی گیس (ایل این جی) فراہم کی جارہی ہے اور اگر یہ بھی 261 ایم ایم سی ایف ڈی گیس سے نکالا جائے تو سندھ سے صرف 100 ایم ایم سی ایف ڈی گیس صوبے سے باہر گئی۔ ‘

’سندھ کا دعوی مذاق سے کم نہیں’

انہوں نے کہا کہ حکومت سندھ اس ضمن میں بجلی اور کھاد کے پلانٹس کو فراہم کی جانے والی گیس کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے 'جو کسی مذاق سے کم نہیں'۔

ندیم بابر نے الزام لگایا کہ سندھ حکومت نے ایس ایس جی سی کو راستہ نہ دینے سے 17 کلومیٹر طویل گیس پائپ لائن کی تعمیر میں ڈیڑھ سال کی تاخیر کی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس کا مقصد پورٹ قاسم سے اضافی سپلائی پہنچانا تھا۔

معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ گزشتہ اکتوبر میں سندھ حکومت نے پائپ لائن کی تعمیر کی اجازت دی تھی جسے ایس ایس جی سی نے 24 دسمبر کو مکمل کیا۔

ایل این جی کی خریداری پر بات کرتے ہوئے وزیر اعظم کے معاون نے کہا کہ حکومت نے جنوری کے مہینے میں کم قیمت پر 12 کارگو خریدے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: گیس کی قلت، پریشر میں کمی سے توانائی کے شعبے کو فراہمی متاثر

انہوں نے کہا کہ گیس کی مقامی کھپت میں ایس این جی پی ایل کے نیٹ ورک پر ڈھائی گنا اور ایس ایس جی سی سسٹم میں دو گنا اضافہ ہوا ہے۔

گیس کی لوڈ شیڈنگ کا معاملہ

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ملک کے کسی بھی حصے میں گھریلو، کمرشل یا صنعتی شعبے کے لیے گیس کی منصوبہ بند لوڈ شیڈنگ نہیں کی جارہی ہے اور پریشر میں کمی بالخصوص لائن کے آخر میں، سردی کی شدید لہر کی وجہ سے ہے۔

انہوں نے کہا کہ کمپریسڈ نیچرل گیس (سی این جی) کے شعبے اور پاور پلانٹس کے لیے گیس کی سپلائی میں 3 سے چار روز تک کی کمی کی جارہی ہے تاکہ گھریلو صارفین کو فراہمی یقینی بنائی جاسکے۔

ان کا کہنا تھا کہ دسمبر کے آخری ہفتے اور جنوری کے شروع کے 2 ہفتے اس موسم میں سخت سردی کے ایام ہوتے ہیں، لہٰذا 15 جنوری کے بعد فراہمی کی صورتحال بتدریج بہتر ہونا شروع ہوجائے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں