پرتشدد واقعات کے دوران افغان امن مذاکرات کا 5 جنوری سے دوبارہ آغاز

اپ ڈیٹ 04 جنوری 2021
ملک میں پرتشدد واقعات میں اضافے کے باوجود مذاکرات کا کل سے دوبارہ آغاز ہو گا— فائل فوٹو: رائٹرز
ملک میں پرتشدد واقعات میں اضافے کے باوجود مذاکرات کا کل سے دوبارہ آغاز ہو گا— فائل فوٹو: رائٹرز

کابل: افغانستان بھر میں ہلاکتوں کے سلسلے نے خوف اور انتشار کو پھیلا دیا ہے جہاں افغان حکومت اور طالبان کے مابین 5 جنوری (بروز منگل) کو قطر میں امن مذاکرات کا نیا دور شروع ہونے جا رہا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق دونوں فریقین کے مابین کئی ماہ ہونے والی بات چیت میں ابھی تک تھوڑا بہت فائدہ ہوا ہے لیکن فریقین میں گزشتہ سال اس وقت ایک اہم پیش رفت ہوئی جب وہ آخر کار کم از کم اس بات پر متفق ہو گئے کہ اگلے دور میں کیا تبادلہ خیال کیا جائے۔

مزید پڑھیں: افغانستان: قرآن خوانی کی محفل میں بم دھماکا، متعدد بچوں سمیت 15 افراد ہلاک

11 ستمبر کو ہونے والے حملوں کے نتیجے میں امریکی فوج کی زیر قیادت 2001 میں طالبان کو معزول کیے جانے کے بعد سے افغان حکومت کے مذاکرات کار مستقل طور پر جنگ بندی اور موجودہ نظام حکمرانی کا تحفظ یقینی بنانے پر زور دیں گے۔

ایک حکومتی مذاکرات کار غلام فاروق مجروح نے کہا کہ یہ مذاکرات انتہائی پیچیدہ اور وقت طلب ہو سکتے ہیں لیکن ہمیں اُمید ہے کہ جلد از جلد کسی نتیجے پر پہنچیں گے کیونکہ لوگ اس خونی جنگ سے تھک چکے ہیں۔

دوسری جانب طالبان نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

جنگ لڑنے والے فریقین کے مابین پہلی براہ راست بات چیت ستمبر میں کئی مہینوں کی تاخیر کے بعد شروع ہوئی تھی لیکن بحث و مباحثے اور مذہبی تشریحات کے بنیادی ڈھانچے پر تنازعات کی وجہ سے سست روی کا شکار ہو گئی۔

اس سلسلے میں واشنگٹن سے ایک مشترکہ سفارتی کوشش آخر کار اتفاق رائے کا باعث بنی۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان: بم دھماکے میں کابل کے ڈپٹی گورنر ہلاک

یہ مذاکرات گزشتہ سال فروری میں طالبان اور واشنگٹن کے درمیان فوجی دستوں کے انخلا کے معاہدے پر دستخط کیے جانے کے بعد عمل میں آیا تھا جس میں دیکھا گیا تھا کہ مئی 2021 تک تمام غیر ملکی افواج کا افغانستان سے انخلا ہو جائے گا۔

افغان حکومت اور طالبان کے مابین ہونے والے مذاکرات کی ابتدا سے ہی تشدد میں اضافہ ہوا ہے لیکن حال ہی میں اہلکاروں، کارکنوں اور صحافیوں کی اعلیٰ سطح کے عہدیداروں کی ٹارگٹ کلنگ کی لہر کے رجحان نے جنم لیا ہے۔

نومبر سے اب تک صوبہ کابل کے نائب گورنر، پانچ صحافی اور ایک نمایاں انتخابی رکن کو کابل سمیت دیگر شہروں میں قتل کیا جا چکا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں