Dawnnews Television Logo

ریپ کے واقعات میں اضافہ کیوں؟

سال 2020 میں پیش آئے موٹر وے گینگ ریپ واقعے اور اسی عرصے میں سامنے آنے والے دیگر ریپ واقعات کے بعد جو پہلا سوال ایک عام آدمی کے ذہن میں آتا ہے کہ کیوں ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں اور کیا انسانی اقدار اس قدر گر چکی ہیں کہ خواتین تو کیا بچوں کو بھی ایسے گھناؤنے عمل کا شکار بنایا جاتا ہے ؟

اس کا اور اس سے جڑے دیگر سوالات کا جواب جاننے کے لیے ماہر نفسیات، وکلا، سول سوسائٹی اور اس موضوع پر کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) کے نمائندوں سے بات کی گئی، جن کی بات کو یہاں قارئین کی رہنمائی اور انہیں آگاہی فراہم کرنے کے لیے بیان کیا جارہا ہے اس کے علاوہ اس مضمون میں قارئین کو معلومات فراہم کرنے کی غرض سے سال 2020 میں پاکستان کے مختلف علاقوں میں پیش آئے ریپ کے واقعات کے اعداد و شمار شامل کیے گئے ہیں جبکہ اسی عرصے میں وہ واقعات جو میڈیا کی شہ سرخیوں کا حصہ بھی رہے انہیں بھی بیان کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ نے جنسی زیادتی کے مقدمات میں شواہد اکٹھا کرنے کیلئے رہنما اصول وضع کردیے

پاکستان میں ریپ کے واقعات کیوں بڑھ رہے ہیں؟ یہ ایسا سوال ہے جو کہ تقریباً اس وقت ملک کے ہر ذی شعور کے ذہن میں ہوگا اور اسی سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے وکلا، سول سوسائٹی اور ماہرین ذہنی امراض سے رابطہ کیا گیا جن سے بات چیت کے بعد یہ معلوم ہوا کہ ریپ کے واقعات میں سامنے آنے والے اضافے کی ایک وجہ ان کا رپورٹ ہونا ہے۔

یعنی کہ میڈیا، سوشل میڈیا اور سول سوسائٹی کے باعث اب ایسے کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں اور معاشرے کے مختلف طبقات اس پر کھل کر بات کررہے ہیں اور معاشرے میں اس حوالے سے تبدیلی دیکھی جارہی ہے تاہم سول سوسائٹی کے مطابق اس تبدیلی میں مزید حصہ ڈالنے کی گنجائش ابھی موجود ہے۔

مختلف ماہرین نے یہ بھی بتایا کہ ریپ کے متاثرین میں صرف خواتین اور بچے ہی نہیں بلکہ مخنث اور مرد حضرات بھی شامل ہیں (اور سال 2020 کے اعداد و شمار اس ہولناکی کی جانب اشارہ کررہے ہیں) کیوں کہ خواتین، بچے یا مخنث مختلف حوالوں سے کمزور تصور کیے جاتے ہیں تو ان کے کیسز رپورٹ ہوجاتے ہیں جبکہ مرد حضرات ایسے واقعات پر خاموشی اختیار کرلیتے ہیں کیوں کہ وہ خود سے یہ سوچ پیدا کرلیتے ہیں کہ ان کے ساتھ ہونے واقعے پر انہیں زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔

سال 2020 میں 415 بچوں کے ریپ یا گینگ ریپ کے واقعات رپورٹ ہوئے — فائل فوٹو: شٹر اسٹاک
سال 2020 میں 415 بچوں کے ریپ یا گینگ ریپ کے واقعات رپورٹ ہوئے — فائل فوٹو: شٹر اسٹاک

ماہرین نفسیات کے مطابق ریپ کرنے والے ملزم کے بارے میں معاشرے میں پایا جانے والا ایک تاثر یہ ہے کہ وہ ذہنی امراض کا شکار ہوتا ہے اور یہ تاثر بلکل غلط ہے بلکہ ایسے واقعات میں ملوث افراد میں سے بیشتر میں اپنی برتری یا خواتین سے متعلق اپنی ذہنیت یا دوسروں کی کمزوری سے فائدہ حاصل کرنے کا معاملہ دیکھا گیا ہے جبکہ ایسے ملزمان میں ذہنی امراض کی شرح بہت کم دیکھی گئی ہے۔

اس سے ملتی جلتی رائے سپریم کورٹ کے ایک وکیل نے بھی پیش کی جن کا ماننا ہے کہ ریپ میں سب سے اہم عنصر طاقت ہے لیکن انہوں نے ساتھ ہی نفسیاتی مسائل کی جانب بھی اشارہ کیا۔

اس رپورٹ کی تیاری کے دوران ایک اہم بات یہ بھی سامنے آئی کہ معاشرے کو اس حوالے سے آگاہی فراہم کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے جبکہ ایک بات یہ بھی سامنے آئی کہ نامعلوم (غیر رشتہ دار) کے مقابلے میں ایسے کیسز رشتہ داروں میں زیادہ سامنے آئے ہیں یعنی بیشتر کیسز میں خواتین، بچے یا دیگر ایسے افراد کا شکار بنے جو ان کے قریبی عزیز یا جاننے والے یا ہمسائے یا محلہ دار تھے۔

مزید پڑھیں: ’ریپ‘ واقعات کے خلاف شوبز شخصیات کا احتجاج

دوسری جانب معاشرے کو اس حوالے سے بھی آگاہی فراہم کرنے یا تربیت دینے کی ضرورت ہے کہ ریپ متاثرہ فرد کو مورد الزام ٹھہرانا بند کیا جانا چاہیے کیوں کہ یہ ایک جرم تھا جس کا وہ شکار ہوئے اور ایسے واقعات میں ان پر تنقید کرنا مناسب نہیں جو ان میں اس جرم کے بعد پیدا ہونے والی نفسیاتی صورت حال کے مزید سنگین صورت اختیار کرنے کا باعث ہوسکتا ہے اور اس سے ان کی بحالی کے عمل میں مشکلات پیش آسکتی ہیں۔

ملک میں ریپ کے واقعات کی روک تھام کے لیے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی وفاقی حکومت کی جانب سے حال ہی میں ایک سخت سزاؤں پر مشتمل آرڈیننس کو نافذ کیا گیا ہے، جس میں نہ صرف مجرمان کے لیے سخت سے سخت سزائیں تجویز کی گئی ہیں بلکہ ایسے کیسز میں کوتاہی کرنے والے اہلکاروں کے لیے بھی سزائیں تجویز کی گئی ہیں تاکہ متاثرہ فرد کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کیا جاسکے۔

انسداد ریپ آرڈیننس 2020 کے اہم نکات

15 دسمبر 2020 کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ملک میں ریپ کے واقعات کی روک تھام اور اس سے متعلق کیسز کو جلد منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے اینٹی ریپ (انویسٹگیشن اینڈ ٹرائل) آرڈیننس 2020 کی باضابطہ منظوری دے دی تھی۔

اس سے قبل ملک میں ریپ کے واقعات کی روک تھام کے لیے وفاقی کابینہ نے 25 نومبر کو 2 انسداد ریپ آرڈیننسز کی اصولی منظوری دی تھی۔

اس آرڈیننس کے ابتدائی مسودے میں ریپ کے مجرمان کو نامرد بنانے سے قبل ان کی رضامندی حاصل کرنے کی شرط شامل کی گئی تھی جسے حتمی مسودے میں ختم کردیا گیا۔

مذکورہ آرڈیننس کے نمایاں خدو خال درج ذیل ہیں:

  • آرڈیننس کے مطابق ریپ کے ملزمان کے خلاف مقدمات کی تیزی سے سماعت اور انہیں جلد از جلد نمٹانے کے لیے ملک بھر میں خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں گی جو 4 ماہ میں اس نوعیت کے مقدمات کو نمٹائیں گی۔
  • اس آرڈیننس میں ریپ کے مجرم کو نامرد بنانے سے قبل اس کی رضامندی حاصل کرنے کی شرط ختم کردی گئی ہے۔
  • وزیراعظم اینٹی ریپ کرائسس سیل قائم کریں گے جو وقوعہ کے بعد 6 گھنٹے کے اندر اندر میڈیکو لیگل معائنہ کرانے کا مجاز ہوگا۔
  • نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کی مدد سے قومی سطح پر جنسی زیادتی کے مجرمان کا ڈیٹا تیار کیا جائے گا۔
  • آرڈیننس میں جنسی زیادتی کے متاثرین کی شناخت ظاہر کرنے پر پابندی عائد کی جائے گی اور ریپ کو قابلِ سزا جرم قرار دے دیا گیا۔
  • آرڈیننس کے تحت تحقیقات میں کوتاہی برتنے پر پولیس و سرکاری ملازم کو 3 سال قید کی سزا اور جرمانہ عائد کیا جائے گا جبکہ غلط معلومات فراہم کرنے والے پولیس اور سرکاری ملازم کو بھی سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔
  • نوٹیفائیڈ بورڈ کے ذریعے مجرم کو کیمیکل یا ادویات کے ذریعے نامرد بنایا جائے گا۔

علاوہ ازیں آرڈیننس کے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے وزیراعظم کی جانب سے فنڈ تشکیل دیا جائے گا جسے خصوصی عدالتوں کے قیام اور دوسرے مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ کمیٹی: دوران حراست تشدد، موت یا جنسی زیادتی پر سزا اور جرمانے کا بل منظور

مزید برآں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے فنڈ میں گرانٹ دی جائے گی اور ان کے علاوہ مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایجنسیز، نجی کمپنیوں اور شخصیات سے بھی امداد حاصل کی جائے گی۔

مذکورہ آرڈیننس کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کیا پہلے سے موجود قوانین میں کوئی کمی تھی؟ وغیرہ جیسے متعدد سوالات پر سپریم کورٹ کے ایڈووکیٹ شعیب اشرف نے گفتگو کی۔

قانون دان کیا کہتے ہیں؟

‘عورت انسان ہے اسے ایک چیز کے طور پر پیش کرنا بند کریں’

آرڈیننس میں تجویز کی جانے والی سزائیں؟

انسداد ریپ آرڈیننس 2020 میں مجرم کو نامرد کرنے سے متعلق سزا کی تجویز کے حوالے سے سوال کے جواب میں سپریم کورٹ کے ایڈووکیٹ شعیب اشرف کا کہنا تھا کہ نامرد کرنے کی بات کافی احمقانہ ہے، کیوں کہ یہاں لوگ نفسیات سے واقف نہیں ہیں اور یہ لوگ سمجھ رہے ہیں کہ شاید جنسی عمل ہی ریپ ہے، یا ایک ریپسٹ (ریپ کا مجرم) صرف جنسی عمل ہی کرتا ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر آپ اس حوالے سے مزید پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ ایسے واقعات میں ملوث ملزمان صرف جنسی عمل کے لیے ہی کسی کو اغوا نہیں کرتے بلکہ وہ اسے تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور اس کے ساتھ ہر بےہودہ قسم کا عمل کرتے ہیں لیکن جنسی عمل نہیں کرتے اور اگر آپ نے اسے نامرد کرکے دوبارہ معاشرے میں بھیج بھی دیا تو اس کے ذہن سے یہ چیز نکل ہی نہیں سکتی، نامرد کیے جانے سے صرف ایک جنسی عمل سے روک سکتے ہیں لیکن وہ دیگر غیر فطری اقدامات بھی اٹھا سکتا ہے اور تاریخ میں ایسے کیسز کی مثال بھی موجود ہے یا ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں جس میں متعلقہ ملزمان جنسی عمل کرنے کے قابل نہیں تھے لیکن وہ دیگر مجرمانہ اقدامات کے ذریعے بچوں خواتین کو جنسی تشدد کا نشانہ بناتے رہے۔

ایڈووکیٹ شعیب اشرف
ایڈووکیٹ شعیب اشرف

ریپ کیسز کے حوالے سے 2016 کے ایکٹ سے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قانون بنانے میں کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے قانون میں اس عمل کو جرم قرار دینا چاہیے اور اس کی سزا کا تعین ہونا چاہیے یہ کیسز کن عدالتوں میں سماعت کے لیے پیش کیے جائیں گے ان کی حدود کا ذکر ہونا چاہیے، کیس کی تحقیقات اور میڈیکل لیگل اور یہ چار چیزیں دنیا کے ہر قانون میں موجود ہیں، انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں جو سب سے بڑا مسئلہ ہے وہ یہ ہے کہ ہم کس قسم کے ثبوتوں کو قابل قبول سمجھتے ہیں، ان سب میں قوانین کا کردار کم سے کم ہے اصل مسئلہ اس پر عمل درآمد کا ہے، ان کا کہنا تھا کہ جس قدر سادہ قانون ہو گا اور اس کی جزیات آسان ہوں گی یا اس میں پیچیدگیاں کم سے کم ہوں گی تو اتنا ہی وہ بہتر قانون ہوگا۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ اگر قوانین بنانے کا مسئلہ نہیں ہے اور اصل مسئلہ قانون پر عمل درآمد کا ہے تو نئے آرٹیننس کی ضرورت کیوں پیش آئی جس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ دراصل ساری خامیاں ہی عدلیہ، پروسیکیوشن اور پولیس میں ہیں، ان کا کہنا تھا کہ نہ ہی جج اہل ہیں نہ ہی ان کی سوچ کی سمت صحیح ہے، انہوں نے یہاں مثال دی کہ صرف سی سی پی او لاہور کا ہی یہ خیال نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ تنقید کا نشانہ بنے بلکہ بہت سارے ججز بھی یہ سوچتے ہیں کہ رات میں خاتون اکیلی کیوں نکلی، اور وہ رات کو 2 بجے نکلی اس لیے یہ تو ہونا ہی تھا، ان کا کہنا تھا کہ ان منفی خیالات کے یہ سب ہی ذمہ دار ہیں۔

کیا ریپ کیسز میں اضافہ ہوا ہے؟

ریپ کیسز میں اچانک اضافہ کیوں سامنے آتا ہے؟ سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ایڈووکیٹ شعیب اشرف نے کہا کہ اس حوالے سے جو میری رائے ہے جو کسی سروے کی بنیاد پر نہیں ہے لیکن میں نے دیکھا ہے کہ میڈیا اس وقت زیادہ فوکس کرنے لگتا ہے، ایک تو رپورٹنگ بڑھ جاتی ہے اور میڈیا اس کو لنک کرکے مزید بڑھاتا ہے کہ فلاں واقعے کے بعد اب یہ بھی ہوگیا ہے، اس میں میڈیا کے فوکس کا معاملہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دوسری اہم بات یہ ہے کہ انسانی ذہن اور اس کی جو نفسیات ہیں اس میں آپ جو بیج ڈالتے ہیں (یعنی جب ایک واقعہ ہوتا ہے تو وہ رپورٹنگ کے بعد دیگر ذہنوں میں ایک بیج کی طرح چلا جاتا ہے اور اس کے بعد دیگر بیمار ذہن کے لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اچھا اب ایسا بھی ہوسکتا ہے اور ہم پکڑے بھی نہیں جاسکتے وغیرہ) ایسے واقعات کی رپورٹنگ بیمار ذہن کے لوگوں میں ایسے جذبات کو ابھارنے کا باعث بن سکتی ہے۔

مزید پڑھیں: سال 2019: بچوں کو سہیل ایاز جیسے درندوں سے بچانے کیلئے عملی اقدامات کب ہوں گے؟

ان سے جب یہ سوال کیا گیا کہ تو کیا میڈیا کو ایسے کیسز رپورٹ نہیں کرنے چاہئیں؟ جس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ایسے کیسز بالکل رپورٹ ہونے چاہئیں لیکن میں یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ ان کو سنسنی کے طور پر پیش نہیں کرنا چاہیے، یہاں انہوں نے مختلف اخبارات کی مثال دی کہ ریپ کیسز کو ہر کوئی مختلف زاویے سے لیتا ہے اور ان کی جانب سے پیدا کی گئی سنسنی، چاہے وہ واقعات کے بیان کرنے کی صورت میں ہو یا دیگر صورتوں میں اسے پڑھنے یا سننے والے بیمار ذہنوں کو متاثر کرتی ہے اور معاشرے میں منفی سوچ اور رجحان کا باعث بنتی ہے، صرف ریپ کا ہی بتا دینا کافی ہے، ہمیں ایسے واقعات کی رپورٹنگ میں محتاط رویہ رکھنا چاہیے جیسا کہ نام نہیں بتانا چاہیے ان کی عمریں نہیں بتانی چاہیے۔

پرانے قوانین میں کیا خرابیاں تھیں کہ نئے آرڈیننس کو نافذ کرنا پڑا؟

جب ان سے سوال کیا گیا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی وفاقی حکومت کی جانب سے حال ہی میں نافذ کیے گئے انسداد ریپ آرڈیننس 2020 کیا ایسے جرائم کا مستقل حل ہے اور کیا 2016 سے موجود ایکٹ میں کسی قسم کی کوئی کمی تھی جس کی وجہ سے یہ آرڈیننس لانا پڑا؟

تو اس کے جواب میں ایڈووکیٹ شعیب اشرف کا کہنا تھا کہ کوئی بھی قانون کسی جرم کو روکنے کے لیے اس وقت اہم ہوجائے گا یا وہ اہم حیثیت اختیار کرلے گا جب آپ کا ایڈمنسٹریشن آف جسٹس کا نظام یا نظام عدل بہتر ہو پہلی بات یہ کہ ہماری جو سوسائٹی یا مملکت یا ریاست ہے اس میں جرائم کو روکنے کے لیے سخت سے سخت قوانین بنا لیے گئے لیکن ان سے فرق پڑتا نظر نہیں آرہا جس کی وجہ یہ ہے کہ مجرم کو یہ یقین ہے کہ وہ پکڑا ہی نہیں جائے گا اور جو ہمارا نظام ہے تو جرم کرنے والے کو معلوم ہے کہ پولیس کے نظام میں سکت نہیں ہے، موجودہ نظام ایسا ہے کہ مجرم کو معلوم ہے کہ وہ پکڑا ہی نہیں جائے گا اور اسی لیے ملک میں ایسے مجرموں کے قانون کی گرفت میں نہ آنے کی ایک بڑی شرح موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ دوسرا مسئلہ یہاں یہ آجاتا ہے کہ اگر ہم صرف ریپ کیسز کی بات کریں تو جرم کرنے والے کو شاید یہ معلوم ہوتا ہے کہ متاثرہ فرد اسے رپورٹ ہی نہیں کرے گا (کیوں کہ ہمارے معاشرے میں ریپ کے مجرم سے زیادہ بے عزتی تو شاید متاثرہ فرد کی تصور کی جاتی ہے)، علاوہ ازیں تیسری بات جو ہمارے ہاں ہے اسے ان این جی اوز کی رپورٹ میں بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ 80 سے 90 فیصد مجرموں کو سزا نہیں ہوپاتی اور وہ رہا ہوجاتے ہیں، یعنی اگر کیس چلتا بھی ہے تو اس میں سزا سنائے جانے کی شرح انتہائی کم ہے۔

سال 2020 میں 250 بچیوں کے ریپ یا گینگ ریپ کے واقعات رپورٹ ہوئے — فائل فوٹو: شٹر اسٹاک
سال 2020 میں 250 بچیوں کے ریپ یا گینگ ریپ کے واقعات رپورٹ ہوئے — فائل فوٹو: شٹر اسٹاک

ایڈووکیٹ شعیب اشرف نے کہا کہ آپ قوانین کتنے بھی سخت بنا لیں سزائیں 5 سال 7 سال یا عمر قید یا سرے عام رکھ لیں اس سے اس وقت تک فرق نہیں پڑے گا جب تک مجرم کو یہ معلوم نہ ہوجائے کہ اسے سزا ہوسکتی ہے یا وہ پکڑا جاسکتا ہے اور قانون کی گرفت میں آسکتا ہے یا اسے یہ یقین ہوجائے کہ ہمارا پولیسنگ کا نظام اس قدر مضبوط ہے کہ وہ بچ کر نہیں جا سکتا، پھر تو اسے خوف ہے لیکن یہاں اس کے خلاف ہے۔

انہوں نے یہاں حدود آرڈیننس کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس میں موجود سزائیں کتنی سخت ہیں، اس کے اعدادو شمار دیکھیں گے تو اس میں موجود سزاؤں سے سخت تو کوئی سزا نہیں ہے یعنی سنگسار کی سزا، لیکن کیا اس قانون کے نفاذ کے بعد سے اب تک ایک بھی کیس ایسا سامنے آیا ہے جس میں مجرم کو سرے عام سنگسار کیا گیا ہو؟ نہیں، آخر کیوں، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نظام ہی اس قدر پیچیدہ تھا یا اس پر عمل درآمد نا ممکن تھا تو ہر مجرم کو یہ یقین تھا کہ وہ سنگسار تو نہیں ہوسکتا گویا نہ 4 گواہ ہوں گے نہ ہی حد جاری ہو گی، ان کا کہنا تھا کہ جس قدر سخت سزا سے متعلق قوانین بنالیں لیکن آپ کسی کو سنگسار نہیں کرسکتے اور جب آپ اس پر عمل درآمد نہیں کروا سکتے تو سزا کا تعین جو بھی آپ کرلیں اس سے فرق نہیں پڑے گا۔

'نیا آرڈیننس بہت پیچیدہ ہے'

نئے آرڈیننس میں موجود خامیوں یا اس مثبت پہلوؤں کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس میں جو سب سے بڑا مسئلہ سامنے آرہا ہے وہ یہ ہے کہ حکومت نے اس میں بہت ساری چیزوں کا ملغوبہ بنا دیا یا یوں کہیں کہ مزید پیچیدہ بنا دیا ہے، یعنی ذمہ داری کس پر جائے گی اور کون کام کرے گا اس کا تعین ہی نہیں ہو پا رہا جب کہ اس کے اندر دیگر معاملات کو دیکھیں تو وہ کوئی نئی چیز نہیں ہیں کیوں کہ گزشتہ قانون میں ساری ذمہ داری پولیس افسر کی تھی جو بھی تفتیشی افسر ہوتا تھا وہ اس کیس کی تحقیقات کا ذمہ دار ہوتا تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ لیکن اب انہوں نے مسئلہ یہ کھڑا کردیا ہے کہ انہوں نے سیکشن فور میں ایک اینٹی ریپ کرائسز سیل قائم کیا ہے، اس میں سمجھ ہی نہیں آرہا کہ وزیراعظم اس کے قیام کا حکم کیوں اور کب دیں گے اور اگر کوئی ریپ ہوتا ہے تو اس کی اطلاع بھی انہیں ملے گی اور وہ کہیں سے بھی حاصل کرسکتے ہیں، اس کے ساتھ ہی ایک تحقیقاتی افسر (آئی او) کو بھی مقرر کیا جارہا ہے، اس کے علاوہ ایک کمیٹی بھی بنا دی ہے اس لیے یہ تین چیزیں بہت زیادہ پیچیدگی کا باعث بن رہی ہیں۔

شعیب اشرف نے کہا کہ ایک کام جو آئی او کا تھا اسے کرائسسز مینجمنٹ سیل کے ساتھ بھی شامل کردیا گیا ہے، سیکشن فور میں ذکر ہے اینٹی ریپ کرائسز سیل میں میڈیکو لیگل بھی شامل ہو گا، وہ تو پہلے بھی ذمہ دار ہوتا تھا اس طرح کے کیسز میں تو اسے کیوں یہاں شامل کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 'ہو شربا انکشافات' سامنے لانے والی مہم کے دو سال مکمل ہونے پر کیا ہوا؟

انہوں نے کہا کہ ان سب سے ایسا لگ رہا ہے کہ ہمارے ہاں روز دو چار ریپ کے کیسز ہوتے ہیں اس لیے یہ سیل ترتیب دیا گیا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے اور اس کے ساتھ ہی مذکورہ سیل کی سربراہی علاقے کے کمشنر یا ڈپٹی کمشنر کو دے دی جائے گی انہیں اس سارے معاملے میں رول دیا جا رہا ہے جبکہ ان کا اس میں کوئی کردار بنتا ہی نہیں ہے، نئے آرڈیننس میں اس قدر چیزوں کو ملا دیں گے تو ہر کیس میں ایک جے آئی ٹی خود ساختہ بن چکی ہے جبکہ انہوں نے اس میں جے آئی ٹی کا بھی نام دیا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ اس سارے معاملے میں ایک اہم پہلو جو مد نظر رہے وہ یہ ہے کہ کیسز کو تو بہت سے لوگ دیکھ رہے ہوں گے لیکن جب بات ذمہ داری کی آئے گی تو ساری ذمہ داری یا سزا کا مستحق صرف آئی او ہوا کرے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ آرڈیننس کے سیکشن 15 میں ایک خصوصی کمیٹی کے قیام کی بات کی گئی ہے اور یہ کمیٹی وفاق اور صوبوں کے ساتھ مل کر کام کرے گی یہاں وہ مثال بلکل صادر آتی ہے کہ ٹو مینی کوک اسپوئل تھا بروتھ (too many cooks spoil the broth) اور انہوں نے یہ نشاندہی کی کہ اس سب معاملے کو دیکھنے کے لیے یہاں انہیں ایک کوآرڈینیٹر کی بھی ضرورت محسوس ہوگی لیکن ان سب کا حاصل کیا ہوگا اس حوالے سے تفصیلات نہیں فراہم کی گئیں۔

جب ایڈووکیٹ شعیب اشرف پوچھا گیا کہ آپ کی پریکٹس کے دوران ایسے مواقع آئے یا آپ کے مشاہدے میں کبھی آیا کہ ریپ یا گینگ ریپ کے ملزمان ذہنی مسائل کا شکار ہوتے ہیں تو ان کا کہنا تھا بالکل! متعدد کیسز میں ایسا دیکھا گیا ہے کہ ذہنی مسائل کا شکار افراد کی جانب سے کمزروں (خواتین اور بچوں) کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔

ایسے واقعات کے محرکات کیا ہیں؟

شعیب اشرف کے مطابق سوشل ایشوز (معاشرتی معاملات) کو آپ قانونی (لیگل) معاملات سے علیحدہ نہیں کرسکتے، معاشرتی مسائل جنسی معاملات سے نتھی ہوتے ہیں اور ان دونوں کو مد نظر رکھتے ہوئے قانون سازی کی جاتی ہے، انہوں نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں جنس، جنسیات یا سیکس کو جو ایک مخصوص رنگ دے کر پیش کیا جاتا ہے میری نظر میں وہ بہت اہم مسئلہ ہے، اس میں کیا ہوتا ہے جب ایک بچہ (لڑکا یا لڑکی) اپنی بلوغت کی جانب جا رہا ہوتا ہے تو اس میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہوتی ہیں، وہ تبدیلیاں صرف جسمانی ہی نہیں بلکہ ذہنی بھی ہوتی ہیں، یہ نفسیاتی بھی ہوتی ہیں، اس کے آس پاس بہت سے معاملات ہو رہے ہوتے ہیں جو اس کے ناپختہ ذہن پر اثر انداز ہو رہے ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم سب اسی معاشرے میں پلے بڑھے ہیں اور سب جانتے ہیں کہ اس کے لیے ہمارے معاشرے میں کوئی گائیڈینس نہیں ہے، اس حوالے سے نہ والدین اس ناپختہ ذہن کے حامل بچے کو آگاہی فراہم کرتے ہیں نہ ہی اساتذہ ایسا کرتے دیکھائی دیتے ہیں، اس کو اب جو بھی معلوم مل رہی ہوتی ہیں وہ اسے خود سے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے یا دیگر تبدیلیاں بھی اس میں رونما ہو رہی ہوتی ہیں (جیسا کہ خیالات میں تبدیلیاں آرہی ہیں ان کو پہلے ہی ایک اسٹگما یا بد نما داغ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے میں یہاں جنسی عمل کی بات کررہا ہوں کہ اسے ایک گناہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے کیوں کہ وہ سوچ آپ کے بس میں ہی نہیں ہے اور یہ ایک فطری عمل ہے جو آپ کی بلوغت سے جڑی ہوئی ہے)۔

ان کا کہنا تھا کہ اب مسئلہ یہ ہے کہ 11 سے 13 سال کا لڑکا یا لڑکی جب ان تبدیلیوں سے گزر رہے ہوتے ہیں اور یہ سارے معاملات اس میں سامنے آرہے ہوتے ہیں تو اس کو آگاہی کہاں سے ملے گی؟ اس لیے اسے آگاہی اسی کے دوست دے رہے ہوتے ہیں جو 90 فیصد غلط ہی ہوتی ہے، اور یہ آگاہی ان معاملات یا مسائل کو حل نہیں کررہی ہوتی جو اس کے ساتھ درپیش ہیں تو یہ سب انے ایک منفی رجحان کی جانب لے جائے گی۔

ایڈووکیٹ شعیب اشرف نے زور دیا کہ جب تک ہم لوگوں کو یہ نہیں بتائیں گے کہ یہ (جنسی عمل) ایک فطری عمل ہے اور یہ عام سی چیز ہے، تو اس کا حل موجود نہیں ہے، یہ ایک عام سی ذہنی، جسمانی اور فطری تبدیلی ہے اور ہمیں اس کے لیے بچوں کو بہتر گائیڈ لائنز فراہم کرنے کی ضرورت ہے جس میں ہم اسے بتائیں کہ یہ ایک عام سی چیز ہے، ایسا ہی ہوتا ہے اس کے ساتھ کچھ علیحدہ سے نہیں ہو رہا اور اسے یہ بتایا جائے کہ یہ سب کے ساتھ ہوتا ہے۔

تجاویز

سینئر وکیل نے اس کا حل بتاتے ہوئے تجویز دی کہ بہتر معاشروں میں اب یہ چیز سامنے آرہی ہے کہ اب بچوں کے بزرگ (خواتین یا مرد) ان کو یہ باتیں سمجھاتے ہیں تاکہ وہ اپنے اندر رونما ہونے والی تبدیلیوں یا ان کو درپیش مسائل کا حل تلاش کرسکیں، اسی طرح ہمارے معاشرے میں بھی طریقہ کار پر عمل کیا جانا چاہیے۔

ان کا اصرار تھا کہ ایک اور بڑا مسئلہ جو ہماری زندگی میں ہے موجود ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے ماہر نفسیات کو اپنی زندگیوں سے نکال دیا ہے، جنہیں ہم نے پاگلوں کے لیے مختص کردیا ہے کہ اگر کوئی فرد اس قسم کی بات کررہا ہے تو وہ شاید پاگل ہے یا نفسیاتی مسائل کا شکار ہے، ہمیں لوگوں کو یہ آگاہی دینی چاہیے کہ جب آپ کے بچے میں یہ تبدیلیاں آنا شروع ہوں تو انہیں احسن انداز میں آگاہی فراہم کریں اور انہیں ایسی کسی بھی چیز سے بچائیں جس میں وہ اسے کوئی بہت بڑا معاملہ تصور کرنے لگیں یا اسے کوئی بہت بڑی کامیابی تصور کریں یا کسی ایسی بند گلی میں چلے جائیں جہاں سے نکلنا ممکن نہ رہے۔

مزید پڑھیں: ’مرد ہمارے ساتھی ہیں‘

ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ ناپختہ ذہنوں کو بتاتے رہیں گے کہ ایک عورت اور اس کے ساتھ جنسی عمل ایک کوئی انعام ہے تو اس کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں رہے گی، ہمیں ہر مقام یا معاملے کو دیکھنا ہے کہ جو معاشرے کی نکامی یا اس میں برائی کی جڑ ہے۔

کیا ریپ واقعات کا ازدواجی زندگی سے کوئی تعلق ہے؟

کیا شادی شدہ جوڑوں کے درمیان مسائل بھی ریپ کی وجہ بن سکتے ہیں؟ کے سوال کا جواب دیتے ہوئے ایڈووکیٹ شعیب اشرف کا کہنا تھا کہ میں نے گارڈین کورٹس میں بھی کام کیا ہے اور جج کے طور پر بھی کام کیا ہے، میں نے فیملی کورٹ کے جج کے طور پر بھی کام کیا ہے، معاشرے میں موجود جن مسائل کی نشاندہی مذکورہ سوال میں کی گئی ہے وہ انتہائی اہم ہیں، شادی ہوجاتی ہے لیکن جنسی طور پر ان کی تسکین ہورہی ہے یا نہیں بہر حال یہ ایک مسئلہ ہے، لیکن ہمارے معاشرے میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے اگر کوئی اس پر بات کرے گا تو اسے کسی اور ہی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔

انہوں نے اسے معاشرے میں موجود ایک تلخ حقیقت بتائی کہ اگر کوئی لڑکی آکر اپنے والدین کو بتاتی ہے کہ میرے ساتھ یہ مسئلہ آرہا ہے اور میں اپنے ازدواجی تعلقات میں مطمئن نہیں ہوں تو والدین بھی اس کو معلوم نہیں کس انداز سے دیکھیں گے اور اگر کوئی مرد بھی یہ بات کرے تو کم سے کم گھر میں تو وہ یہ بات نہیں کرسکتا، اس کی وجہ سے معاشرے میں دیگر مسائل جنم لیتے ہیں۔

سال 2020 میں 842 خواتین کے ریپ یا گینگ ریپ کے واقعات رپورٹ ہوئے— فائل فوٹو: شٹر اسٹاک
سال 2020 میں 842 خواتین کے ریپ یا گینگ ریپ کے واقعات رپورٹ ہوئے— فائل فوٹو: شٹر اسٹاک

سینئر وکیل نے ماضی میں مختلف کورٹس میں سامنے آنے والے کیسز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس سے ایسا نہیں ہے کہ صرف مرد کسی اور راستے پر چل نکلتا ہے بلکہ خواتین بھی دوسری جانب نکل جاتی ہیں تو یہاں دو چیزیں ہیں کہ آپ یا تو معاشرے میں ان چیزوں کو سنبھال سکتے ہیں یا ختم کرسکتے ہیں۔ اس حوالے سے ہماری تجویز رہی ہے کہ اس صورت حال کو حل کرنے کے لیے کونسلرز تیار کیے جانے چاہئیں، ہم نے پہلے بھی تجویز دی تھی کہ کچھ لوگ جو ایسے معاملات کے بارے میں اچھی سمجھ بوجھ رکھتے ہوں، انہیں اچھے ماہر نفسیات کے ذریعے ہم کونسلر کے طور پر تیار کروائیں، کیوں کہ ہر فرد کا تو ایک اچھے ماہر نفسیات کے پاس جانا مشکل ہے، اس لیے ایک کونسلر اس سلسلے میں اپنی خدمات انجام دے سکتا ہے، وہ میاں، بیوی دونوں کے معاملات کو سنے اور انہیں آگاہ کرے اور رہنمائی کرے۔

انہوں نے اس موقع پر ایک مثال دیتے ہوئے کہا کہ ایسے مسائل جو انہوں نے اپنی بریکٹس کے دوران دیکھے ہیں ان میں سے بیشتر ایسے تھے جو حل ہوسکتے ہیں، معاشرے میں ایک مشکل یہ ہے کہ انہوں نے کچھ چیزیں ایسی امپوز (نافذ) کر رکھیں ہیں جو غلط ہیں، اور ڈیمانڈ اس سے مختلف ہوگئی ہے، بیوی جو کسی بھی عمر کی ہے اسے تو بتایا گیا ہے کہ آپ میں شرم و حیا ہونی چاہیے لیکن شوہر تضاد کا شکار ہوتا ہے، کہیں بیوی کی کونسلنگ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور کہیں شوہر کی کونسلنگ کی ضرورت ہوتی ہے، انہوں نے زور دیا کہ کونسلر جو آپ کی شادی کے دیگر معاملات کو بھی دیکھ رہے ہوتے ہیں انہیں ایسے مسائل کے حل کی تلاش کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔

‘عورت انسان ہے اسے ایک چیز کے طور پر پیش کرنا بند کریں’

آخر میں ان کا کہنا تھا کہ معاشرے کو ایک پیغام دیا جانا چاہیے کہ عورت ایک انسان ہے اس کو ایک چیز کے طور پر پیش نہ کریں اور اس حوالے سے بے تکی مثالیں یعنی گوشت کی دکان یا کھلی ہوئی لالی پاپ پر مکھیوں سے تشبیہ نہ دیں تو ایسی مثالوں سے آپ بیمار لوگوں کو ایسے جرائم کے لیےاکسارہے ہیں، اس کی سختی سے مذمت کی جانی چاہیے کیوں کہ یہ بہت ذلت آمیز رویہ ہے، اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ معاشرے کو یہ بھی بتانا ہوگا کہ جنسی عمل ایک فطری عمل ہے اور اسے خوفناک نہ بنائیں۔

سول سوسائٹی کا رد عمل

ریپ کیسز پر سول سوسائٹی کیا کہتی ہے؟

'کمزروں کے تحفظ کیلئے پولیٹیکل وِل نظر نہیں آتی'

پاکستان میں سامنے آنے والے ریپ کیسز اور اس کے تدارک کے لیے حال ہی میں نافذ کیے جانے والے آرڈیننس سے متعلق سول سوسائٹی کا کیا مؤقف ہے یہ جاننے کے لیے عکس کی پروجیکٹ منیجر شائستہ یاسمین سے بات چیت ہوئی جنہوں نے بتایا کہ جب کسی بھی معاملے پر قانون سازی ہوتی ہے تو آپ کو پتا چلتا ہے کہ حکومت اس طرح کے واقعات کا سدِ باب کرنے میں کتنی سنجیدہ ہے، کیوں کہ جب اس طرح کے جرائم پر حکومت کی جانب سے توجہ نہیں دی جاتی تو ایک تاثر یہ بھی جاتا ہے کہ حکومت خواتین اور بچوں کو تحفظ فراہم نے کے لیے پولیٹیکل وِل کا مظاہرہ نہیں کررہی۔

عکس کی پروجیکٹ منیجر شائستہ یاسمین
عکس کی پروجیکٹ منیجر شائستہ یاسمین

انہوں نے کہا کہ مستقل حل صرف قانون سازی میں یا آرڈیننس پیش کرنے میں نہیں ہے تاہم حکومت کی اس کوشش کو ہم شک کی نگاہ سے نہیں دیکھ سکتے لیکن آئین میں جو قانون سازی کا ایک طریقہ کار ہے جس میں پارلیمنٹ کے اراکین قانون سازی کرتے ہیں اس پر بحث ہوتی ہے سیر حاصل گفتگو ہوتی ہے، سیر حاصل مباحثہ ہوتا ہے تاکہ اس میں جو بھی مسائل ہیں اور جو اس پر عمل درآمد کروانے میں مشکلات آسکتی ہیں ان کا حل پیش کیا جاسکے۔

'سزاؤں پر عمل درآمد بہت ضروری ہے'

ریپ کے واقعات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہاں بطور سول سوسائٹی ہمارے لیے بہت بڑا لمحہ فکریہ یہ ہے کہ یہ واقعات کوئی نئے نہیں ہیں تاہم وقت کے ساتھ ساتھ اس میں سنجیدگی کا مظاہرہ نظر آرہا ہے اور ہمیں اس پر سزاؤں پر عمل درآمد سے متعلق سخت اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے، ایسے واقعات کے بعد جو حال ہی میں قانون نافذ کیا گیا ہے اس کے حوالے سے جو نظر آرہا ہے وہ مثبت چیزیں ہیں، جیسا کہ موٹر وے گینگ ریپ کے بعد لوگوں نے ایسے ملزمان کو سخت سے سخت سزائیں دینے کی بات کی۔

ملک میں قانون پر عمل درآمد کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں پہلا سوال ہی یہ ہے کہ اگر ہم ملک میں سزا دینے کا طریقہ کار دیکھیں تو گزشتہ 6 سال میں 2 ہزار سے زائد ریپ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں لیکن ان دو ہزار کیسز میں کتنے ملزمان کو سزا ہوئی ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے، ان کا کہنا تھا کہ ان کی معلومات کے مطابق صرف 3 سے 4 فیصد ہی سزائیں ہوئی ہیں یہاں شائشتہ یاسمین نے زور دیا کہ سزا سنائے جانے سے کچھ نہیں ہوگا بلکہ سزاؤں پر عمل درآمد لازم اور ضروری ہے، ہمیں سزا کی نوعیت سے قطع نظر حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کو نہیں دیکھنا۔

یہ بھی پڑھیں: چائلد پورنوگرافی کے سب سے زیادہ کیسز رواں سال رپورٹ ہوئے، ایف آئی اے

موٹر وے گینگ ریپ واقعے کی نشاندہی کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس واقعے میں جو پہلی چیز ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارا ملک خواتین کو تحفظ فراہم کرنے میں بلکل ناکام ہے، انہوں نے کہا کہ مذکورہ واقعے کے بعد بہت سی ہیلپ لائنز ایکٹو ہوگئی ہیں لیکن دیکھا یہ گیا ہے ضرورت کے وقت یہ ہیلپ لائنز کام نہیں کرتی اور اس سے متعلق صرف ایک خاص وقت کے لیے بات ہوسکتی ہے یا پھر اگر یہ ہیلپ لائنز ہیں بھی تو وہ اس طرح آپ کو سہولت فراہم نہیں کرسکتے جس طرح ضرورت ہوتی ہے۔

سی سی پی او کے رویے پر تنقید

شائستہ یاسمین کے مطابق اگر ایک عورت اس قسم کے کسی معاملے پر ہیلپ لائن سے رابطہ کرتی ہے تو اس پر فوری کارروائی کے لیے حکومت کے ادارے ہونے چاہئیں جو ریپڈ رسپانس فورس کے تحت کام کریں علاوہ ازیں انہوں نے مذکورہ واقعے پر سی سی پی او اور دیگر ایسی ہی باتیں کرنے والوں کے رویے پر بھی تنقید کی، جو کہہ رہے تھے کہ خاتون کو رات میں سفر نہیں کرنا چاہیے تھا۔

اس کے علاوہ انہوں نے میڈیا پر بھی تنقید کی کہ جو کیسز وی آئی پی حیثیت اختیار کرجاتے ہیں یا سوشل میڈیا پر سامنے آجاتے ہیں ان کو رپورٹ بھی کیا جاتا ہے اور ان کے فالو اپ پر بھی کام ہوتا ہے جبکہ اس پر سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر بھی بحث شروع ہوجاتی ہے لیکن دیگر کیسز کو اس طریقے سے اہمیت نہیں دی جاتی اور یہ انتہائی غلط تاثر قائم کرتا ہے۔

'تصفیے کے بجائے قانون پر عمل درآمد ہونا چاہیے'

سول سوسائٹی کی رکن سے جب سوال کیا گیا کہ ایسے واقعات میں اضافہ کیوں سامنے آرہا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ موٹر وے ریپ واقعے کے بعد، جو بہت زیادہ ہائی لائٹ ہوا تھا، باوجود گینگ ریپ اور بچوں کے ساتھ زیادتی کے متعدد واقعات سامنے آتے رہے ہیں، اس کی متعدد وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن اہم وجہ یہی ہے کہ بیمار ذہن ملزمان کے اندر ڈر ختم ہوگیا ہے، ان کو اس بات کی اُمید ہے کہ وہ سزا سے بچ جائیں گے، میں پہلے بھی کہہ چکی ہوں کہ جب تک ایک واقعہ ہائی پروفائل نہیں بنتا اس وقت تک تو پولیس کی سطح پر بھی دیکھا گیا ہے کہ ایسے کیسز رپورٹ نہیں کیے جاتے اور مقدمے کے اندراج سے روکا جاتا ہے اور تصفیہ کی بات کی جاتی ہے یہاں تک یہ پولیس اکثر و بیشتر ایسی متاثرہ خواتین کے مقدمات ہی درج نہیں کرتے جو ریپ کا شکار ہوئی ہوں۔

ماہرِ نفسیات اور سول سوسائٹی کے مطابق والدین کی بعض غلطیوں کی وجہ سے بچے ایسے واقعات کا شکار ہوتے ہیں — فائل فوٹو: شٹر اسٹاک
ماہرِ نفسیات اور سول سوسائٹی کے مطابق والدین کی بعض غلطیوں کی وجہ سے بچے ایسے واقعات کا شکار ہوتے ہیں — فائل فوٹو: شٹر اسٹاک

ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح جب ملزم کو معلوم ہوگا کہ ایسے واقعات میں پولیس اپنا وہ کردار ادا نہیں کرے گی جو قانون کے مطابق ہونا چاہیے تو قانون پر عمل داری کا خوف نہ ہونا بھی ایسے ملزمان کو مزید واقعات کے لیے تقویت فراہم کرتے ہے، ایسے متعدد کیسز دیکھے گئے ہیں کہ کس طرح معصوم بچوں کے ساتھ ریپ ہوا اور بعد میں انہیں تشدد کے بعد قتل کردیا گیا یا انہیں جلا دیا گیا جو اس بات کی عکاسی ہے کہ ملزم کو احساس ہے کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی، مختصراً یہ کہ جب ملزم کو اس بات کا ڈر ہی نہیں ہوگا کہ قانون حرکت میں آئے گا تو اس طرح کے واقعات کی روک تھام ممکن نہیں۔

'ایسے واقعات میں طاقت اور مرتبے کا غلط استعمال ہوتا ہے'

معاشرے میں بڑھتے ہوئے ہراسانی کے واقعات پر جب ان سے بات کی گئی تو سول سوسائٹی کی رکن کا کہنا تھا کہ ہراسانی، ریپ اور گینگ ریپ کے کیسز کہیں بھی ہوسکتے ہیں، اگر ایسے کیسز آپ کے گھر سے رپورٹ ہو رہے ہیں جہاں پر انسسٹ (یہ اصطلاح قریبی عزیزوں کی جانب سے جنسی زیادتی سے متعلق استعمال کی جاتی ہے) بھی ہے جہاں گھریلو تشدد بھی ہے جہاں پر قتل اور عزت کے نام پر قتل کے واقعات ہوتے ہیں، اس کے بعد گلی محلوں میں، دفاتر میں، ہسپتالوں میں یا اگر ہم حال ہی میں بینک میں پیش آنے والے واقعے کو دیکھیں، اس حوالے سے اگر آپ مزید تحقیق کریں گے تو معلوم ہوگا کہ یہ کہیں بھی ہورہے ہیں، دیکھا گیا ہے کہ وہ ہی کیسز رجسٹرڈ ہوپاتے ہیں جہاں سے رپورٹنگ ہوتی ہے۔

شائستہ کا ماننا ہے کہ کیوں کہ یہ جرائم ہر اس مقام پر ہوں گے جہاں طاقت کا یا عہدے یا مرتبے کا غلط استعمال ہوگا، جہاں پر آواز اٹھانے والے لوگ نہیں ہوں گے جہاں پر زیادتی کے خلاف رد عمل دینے والے لوگ نہیں ہوں گے، اگر ہم گزشتہ ماہ ہونے والے بینک میں ہراسانی کے واقعے کو دیکھیں اس واقعے میں مرتبے کا غلط استعمال ہوا اور لڑکی کو نا صرف ہراساں کیا گیا بلکہ اسے جسمانی طور پر ہراساں کیا گیا، میں ایسا سمجھتی ہوں کہ اس نے یہ پہلی مرتبہ نہیں کیا ہوگا، مختصراً یہ کہ واقعات طاقت کے غلط استعمال سے متعلق ہیں ایسے واقعات گھر میں ہوں یا دفاتر میں ہوں یا وہ سڑکوں پر ہوں اس کا کسی کے تعلیم یافتی یا جاہل ہونے سے کوئی تعلق نہیں معاملہ شعور کی کمی کا ہے۔

علاوہ ازیں انہوں نے کہا کہ رویوں کو بدلنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے اس کے علاوہ معاشرے کے لوگوں میں شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے، یہاں ایک اور بات قابل غور ہے کہ اکثر خواتین کو تو اس حوالے سے آگاہی فراہم کرنے کے لیے کوششیں کی جاتی ہیں لیکن مرد حضرات کو اس حوالے سے بلکل بھی آگاہی نہیں دی جاتی۔

'ایسے واقعات اور اس میں ملوث ملزمان پر تحقیق ہونی چاہیے'

آخر میں انہوں نے نشاندہی کی کہ اس طرح کہ جرائم کیوں ہوتے ہیں؟ اس کے لیے بہت زیادہ تحقیق کی ضرورت ہے، اس کے محرکات کیا ہیں؟ ایسے واقعات میں ملوث افراد پر تحقیق ہونی چاہیے تااکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ اس کی نفسیاتی صحت کیسی ہے، یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ وہ کون سے عوامل تھے جس کی وجہ سے اس نے یہ حرکت کی ہے؟ ان سب کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ معاشرے میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے مستقل حل تلاش کیا جاسکے۔

این جی اوز کا مؤقف

این جی او کے نمائندے کیا کہتے ہیں؟

'ریپ کیسز میں سزاؤں کا تناسب بہت کم ہے'

‘وار اگینسٹ ریپ’ کے پروگرام آفیسر شیراز احمد سے بھی ملک میں ریپ یا گینگ ریپ کے ہونے والے واقعات اور ان کے تدارک کے لیے بنائے جانے والے قوانین پر بات چیت ہوئی، ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں جو پہلے سے ایک قانون اینٹی ریپ ایکٹ 2016 تھا وہ بہت اچھا قانون تھا اگر حکومت اس پر عمل درآمد کو یقینی بناتی یعنی ملزمان کی گرفتاری اور ان کی سزاؤں کو یقینی بناتی، پولیس، میڈیکو لیگل اور عدالتوں کا نظام بہتر ہوتا، صحیح طریقے سے تفتیش ہوتی تو ان سب چیزوں کو یقینی بنا کر ہی اس نظام کو بہتر کیا جاسکتا تھا اور نئے آرڈیننس کی ضرورت پیش نہ آتی۔

انہوں نے اس حوالے سے مزید کہا کہ مسئلہ یہاں یہ ہے کہ ملزمان چھوٹ جاتے ہیں اور ریپ کے کیسز میں سزاؤں کا تناسب صرف 3 فیصد ہے جب سزائیں یقینی بنائی جائیں گی تو قانون کا ڈر بھی ہوگا، انہوں نے اس موقع پر قصور میں ریپ کے بعد قتل کی جانے والی ننھی بچی زینب کے کیسز کا ذکر کیا کہ اس کے ملزم کو سزائے موت دے دی گئی تو کیا کیسز کی تعداد میں کمی آئی؟ نہیں، لیکن کیسز اس دوران بھی بڑھے اور بعد میں بھی ان میں اضافہ دیکھا گیا، انہوں نے تجویز دی کہ حکومت کو کرمنل جسٹس سسٹم (عدالتی نظام) کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔

‘وار اگینسٹ ریپ’ کے پروگرام آفیسر شیراز احمد
‘وار اگینسٹ ریپ’ کے پروگرام آفیسر شیراز احمد

این جی او کے نمائندے نے کہا کہ اس طرح کے کیسز میں متعلقہ محکموں یا اداروں کے درمیان جو رابطے کا فقدان تھا اس پر آہستہ آہستہ کام ہو رہا ہے، قانون کی عمل داری اور کرمنل جسٹس سسٹم پر کام ہو رہا ہے لیکن ان کا کہنا تھا کہ اسے مزید اور تیزی سے بہتر کرنے کی ضرورت ہے، پولیس، میڈیکو لیگل سیکٹر اور پروسیکیوشن، تینوں حصوں میں خواتین کی تعداد زیادہ سے زیادہ شامل کی جانی چاہیے کیونکہ اس وقت ان کی تعداد بہت کم ہے۔

'ملزم کو نامرد کرنے کی مخالفت'

شیراز احمد نے حال ہی میں نافذ کیے جانے والے انسداد ریپ آرڈیننس 2020 پر کہا کہ اس میں جو شق ہے کہ ملزم کو نامرد بنا دیا جائے تو ہم اس عمل کے خلاف ہیں اور اگر یہ سزائے موت کی بات کرتے ہیں تو ہم اس کے بھی خلاف ہیں تاہم دوسری جانب ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت سزاؤں کو یقینی بنائے گی اور انصاف مہیا کرنے کو یقینی بنائے گی نظام کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے کہ انہوں نے کیسے شواہد جمع کرنے ہیں یا کن شواہد کو استعمال کرنا ہے۔

انہوں نے الزام لگایا کہ پولیس شواہد کو صحیح طریقے سے جمع نہیں کرتی اسے ضائع کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی جاتی، این جی او کے نمائندے نے بتایا کہ اس سب کے لیے کوئی اعلیٰ سطح کی ٹریننگ کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ صرف ان شواہد کو مخصوص درجہ حرارت پر رکھنا ہوتا ہے ایسا نہ ہو کہ آپ نے نمونے تو حاصل کرلیے لیکن انہیں دھوپ میں لے کر گھوم رہے ہیں اور انہیں دوسرے روز جمع کروا رہے ہیں، اسے لیے ان کو کیسے محفوظ رکھنا ہے اس کی ضروریات سے متعلق ایک فرانزک ماہر ہی آپ کو بتا سکتا ہے اور اگر پولیس بروقت نمونوں اور شواہد کو جمع کروادے تو اس سے بھی کنوکشن ریٹ (سزا دینے کی شرح) بہتر ہو گا۔

'متعلقہ شعبوں میں خواتین کو زیادہ سے زیادہ تعینات کرنے کی ضرورت ہے'

ریپ کیسز سامنے آنے کے بعد اس کی تفتیش میں سب سے اہم کردار میڈیکولیگل کا ہوتا ہے اور اسی حوالے سے شیراز احمد کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں میڈیکو لیگل ڈاکٹرز کی تعداد بہت کم ہے اور حال ہی میں حکومت سندھ نے اسے 12 تک کردیا ہے لیکن جو متاثرین ہمارے پاس آتی ہیں وہ یہ الزام لگاتی ہیں کہ جب وہ ہسپتال جاتی ہیں تو وہاں خاتون ڈاکٹر نہیں ہوتی اور انہیں کال کرکے بلایا جاتا ہے جس میں مزید وقت درکار ہوتا ہے، علاوہ ازیں ایسے متاثرہ فرد کو تھانوں میں پولیس کے جانبدارانہ رویے کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ جب اپنا کیس درج کروانے کے لیے تھانے جاتی ہیں تو وہاں ڈیوٹی افسر کے کمرے میں 4 سے 5 پولیس افسر موجود ہوتے ہیں اور وہاں اگر کوئی خاتون نہیں ہوں گی تو متاثرہ خاتون کیسے آسانی سے بات کرسکتی ہے؟

انہوں نے متعدد بار اس بات پر زور دیا کہ موجودہ نظام کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے، جسٹس سسٹم کے تین اہم پلر (ستون)، جن میں پولیس عدلیہ اور میڈیکو لیگل شامل ہیں، ان سب کو بہتر کردیں اور اس شعبوں میں زیادہ سے زیادہ خواتین تعینات ہوں اور انہیں ٹریننگ فراہم کی جائے کہ انہیں اس قسم کے معاملات پر کس طرح رد عمل (رسپانس) دینا ہے اور ‘میں سمجھتا ہوں کہ کیسز کی تعداد میں اس طرح کمی آئے گی’۔

ایسے قوانین یا آرڈیننس لانے سے قبل کیا حکومت این جی اوز یا دیگر متعلقہ معاون اداروں سے رائے طلب کرتی ہے سے متعلق سوال کے جواب میں وار اگینسٹ ریپ کے نمائندے کا کہنا تھا کہ ہم خود بھی حکومت کو آگاہ کررہے ہوتے ہیں یا انہیں ایسے معاملات پر تفصیلات فراہم کررہے ہوتے ہیں اور تحریروں یا ڈیٹا جاری کرتے ہوئے انہیں تجاویز فراہم کررہے ہوتے ہیں انہوں نے مزید کہا کہ ہم اس حوالے سے اسٹیٹ ایکٹرز اور پالیسی بنانے والوں، قانون بنانے والوں یا خواتین پارلیمنٹیریزنز سے رابطہ کرتے ہیں اور انہیں تجاویز اور معلومات فراہم کرتے ہیں ان سے اس پر کلسنٹیشن (معاونت) ہوتی ہے، علاوہ ازیں انہوں نے بتایا کہ لیکن حکومت نے حال ہی میں نافذ کیے جانے والے آرڈیننس پر ہم سے براہ راست رائے نہیں لی گئی۔ نئے قوانین کا آنا مثبت ہے.

ماہر نفسیات کے مطابق ریپ کے ٹراما سے نکلنے کے لیے جس قدر جلد ہو سکے متاثرہ فرد کو بات کرنی چاہیے— فائل فوٹو: شٹر اسٹاک
ماہر نفسیات کے مطابق ریپ کے ٹراما سے نکلنے کے لیے جس قدر جلد ہو سکے متاثرہ فرد کو بات کرنی چاہیے— فائل فوٹو: شٹر اسٹاک

شیراز احمد نے نئے سے نئے قوانین کے آنے کو مثبت قرار دیتے ہوئے ماضی کے ایک قانون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر ہم حدود آرڈیننس کی بات کریں تو اس میں کسی بھی متاثرہ عورت کو 4 گواہ لے کر آنے ہوتے تھے اور اس قانون کی وجہ سے خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد جیلوں میں موجود تھی، ان کا کہنا تھا کہ 4 گواہ ہر کیس میں خواتین کے لیے فراہم کرنا ایک انتہائی نا ممکن سا عمل تھا، اس کے بعد وومن پروٹیشن بل 2006 آیا اور پچھلے قانون، حدود آرڈیننس کی وجہ سے جو خواتین جیلوں میں سڑ رہی تھیں تو وہ سب اس نئے قانون کی وجہ سے رہا ہوگئیں، انہوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ پہلے سے رائج قوانین میں معمولی سی تبدیلیوں کی ضرورت ہو اور انہیں مزید بہتر کیا جاسکتا ہو، اس حوالے سے سول سوسائٹی خود بھی فیڈ بیک دے دیتی ہے تو انہی پر اچھے طریقے سے عمل درآمد کیا جائے۔

'ریپ کیسز میں ثبوتوں کی بہت زیادہ اہمیت ہے'

این جی او کے نمائندے نے اس بات پر زور دیا کہ ثبوتوں کو بہتر طریقے سے استعمال کرنا بہت ضروری ہے اور ان کا بروقت ریکارڈ پر آنا بہت ضروری ہے، کیا ریپ کیسز میں سزائیں نہ ہونے سے ملزمان کی دیداہ دلیری میں اضافہ ہو رہا ہے کہ جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اگر ماضی میں جائیں تو 2015 میں جب قصور میں ایسے واقعات ہو رہے تھے تو اس وقت بھی سول سوسائٹی نے آواز اٹھائی اور مظاہرے کیے احتجاج کیا، انہوں نے کہا کہ میڈیا کے دباؤ کے بعد حکومت نے وہاں چند ملزمان کو گرفتار کیا لیکن اس معاملے کو درست انداز میں حل نہیں کیا گیا اگر حکومت اسی وقت اقدامات کرلیتی اور کوئی کمیشن وغیرہ بچوں کے تحفظ کے لیے بن جاتا تو بعد ازاں زینب جیسے اور دیگر اسی طرح کے واقعات سامنے نہ آتے۔

ان کا کہنا تھا ہماری این جی او کا یہ مؤقف ہے کہ جنسی تشدد کا ایک بھی کیس یہاں کیوں ہو رہا ہے ایسا واقعہ کیوں یہاں رونما ہو رہا ہے انہوں نے کہا کہ ترقیافتہ ممالک میں بھی ایسے کیسز ہوتے ہیں سامنے آتے ہیں لیکن ان کو ختم کرنے کے لیے یا ان سے نمٹنے کے لیے ریاست کی ایک پولیٹیکل ول نظر آنی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اگر میں ماضی میں 1999 میں لاہور میں بچوں کے قتل سے متعلق سامنے آنے والے کیسز کی بات کروں تو اس وقت بھی ریاست منع کررہی تھی اور 2015 میں بھی ریاست منع کررہی تھی کہ ایسا کچھ نہیں ہوا، اگر اسی وقت کمیشن بنا دیا جاتا اور ان کی کی تجاوزی پر عمل کیا جاتا تو نظام کو بہتر کیا جاسکتا ہے لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ ریاست ہمیشہ انکار کرتی ہے۔

شیراز احمد نے مزید کہا کہ میں نے 2016 کا قانون بھی دیکھا ہے جس میں بہت اہم اور اچھی شقیں موجود تھیں اور اگر انہی پر عمل درآمد کردیں تو زیادہ بہتر ہوجائے گا جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اگر کوئی پولیس افسر یا کوئی اور متاثرہ فرد کی شناخت ظاہر کرتے ہیں تو ان کے لیے سزا کا طریقہ کار موجود ہے اس قانون میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اگر دوران حراست کسی خاتون یا بچے کے ساتھ جنسی زیادتی ہوتی ہے تو متعلقہ پولیس افسر کے لیے سزا مقرر ہے یا اگر کوئی تفتیش کو توڑ مروڑ کر پپش کرتا ہے تو اس کے لیے سزا ہے، بچوں سے متعلق سزائیں علیحدہ ہیں اور گینگ ریپ کے لیے سزائیں علیحدہ ہیں، ان کا کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک اچھا قانون ہے اور اس پر عمل درآمد کروائیں تو ایسے واقعات میں کمی آئے گی۔

'معاشرے کے دیگر لوگوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے'

ان کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات میں کمی یا ان کے مکمل تدارک کے لیے نہ صرف کرمنل جسٹس سسٹم کو کار گر بنانا ہوگا بلکہ آپ کے معاشرے میں موجود دیگر اہم افراد، جن میں اساتذہ ہیں، والدین ہیں یا دیگر کمیونٹی اراکین ہیں، گائناکالوجسٹ ہیں اور وکلا ہیں نہ صرف ان کی استعداد کار بڑھانے کی ضرورت ہے بلکہ اس حوالے سے فالواپس ہونے چاہئیں تاکہ ملک بھر میں ریپ کیسز کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے جاسکیں، ان سب کو یہ بتایا جائے کہ کس طرح نشاندہی کی جائے کہ اگر ایک بچے یا بچی یا خاتون میں کے رویوں میں کسی قسم کی تبدیلی ہو رہی ہے یا کسی بچے کا ریزلٹ متاثر ہو رہا ہے یا اگر وہ کسی کو فرد کے پاس نہیں جانا چاہتا اور اس کے اہل خانہ یہ نوٹ کرتے ہیں تو انہیں لازمی یہ جاننے کی کوشش کرنی چاہیے کہ کیوں اس کا رویہ تبدیل ہوا ہے لیکن بد قسمتی ہے ہمارے ہاں کیا ہوتا ہے کہ ان معاملات پر بات نہیں ہوتی، انہوں نے تسلیم کیا کہ اب تو خیر میڈیا کی وجہ سے لوگوں کو اس طرح کی معلومات میسر آرہی ہیں اور ان میں سمجھ بوجھ بڑھ رہی ہے تو معاشرے میں بہت زیادہ تبدیلی رونما ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے اب ان معاملات پر بات ہو رہی ہے والدین آگے آرہے ہیں۔

کس طبقے میں ایسے کیسز زیادہ سامنے آتے ہیں کہ سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ریپ کی ذہنیت کا طبقے سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ اونچی اونچی دیواروں کے پیچھے بھی ہو رہا ہے اور انسسٹ کے کیسز سامنے آرہے ہیں ہمارے سامنے بہت سے ایسے کیسز بھی سامنے آئے جس میں حقیقی رشتوں نے متاثر کیا لیکن ایسے واقعات کے سامنے آنے کی تعداد کم ہے کیوں کہ وہ باہر نہیں آپاتے اور انہیں اندر ہی دبا دیا جاتا ہے لیکن دوسری جانب غریب گھرانوں میں کیوں کہ چھوٹے گھر ہوتے ہیں اور ایسے واقعات کے سامنے آنے کے بعد گھر میں یا ہمسائے میں معلوم ہو جاتا ہے تو بات باہر یا سامنے آجاتی ہے، یہ ہر طبقے میں ہو رہا ہے جس کے لیے لوگوں کو آگاہی (آویرنس) فراہم کرنے کی ضرورت ہے اس کے لیے اساتذہ، والدین اور کمیونیٹیز کو آگاہی فراہم کی جائے کہ یہ بہت بڑا مسئلہ ہے اور اس ایشو پر بات کرنا ضروری ہے جب آپ اپنے مسائل کو دباتے ہیں تو نہ صرف مسائل اپنی جگہ موجود رہتے ہیں بلکہ ان میں واضح اضافہ نظر آرہا ہوتا ہے اور ہمیں مسائل بہت زیادہ نظر آتے ہیں۔

'ریپ کا معاملہ طاقت کے استعمال کی ذہنیت سے متعلق ہے'

شیراز احمد نے کہا کہ ریپ کا معاملہ اصل میں طاقت کے استعمال کا معاملہ ہے کہ طاقت ور کمزور پر اثر انداز ہونا چاہتا ہے انہوں نے کہا کہ بچوں سے ریپ یا غیر فطری جنسی عمل کے زیادہ تر واقعات فیملیز میں ہی ہوتے ہیں اور والدین ان کو دبا دیتے ہیں یا خواتین کو پابندیوں کی ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے یہ واقعات دیہی علاقوں میں بھی ہو رہے ہیں اور شہروں میں بھی سامنے آرہے ہیں۔

ریپ کے ملزمان کو کیسی سزائیں دی جانے چاہیے یا این جی اوز ایسے ملزمان کے لیے کس قسم کی سزاؤں کی تجاویز کرتی ہیں سے متعلق سوال کے جواب میں شیراز احمد کا کہنا تھا کہ اگر 2016 کے قانون پر ہی صحیح انداز میں عمل درآمد ہوجائے تو وہ سزائیں ہی کافی ہیں انہوں نے کہا مذکورہ قانون میں جہاں بچوں سے متعلق قتل کے کیسز میں سزائے موت تجویز کی گئی ہے اور ہم اسے کسی حد تک صحیح سمجھتے ہیں لیکن ریپ سے متعلق پہلے سے موجود قوانین میں جو سائیں تجویز کی گئی ہیں اگر ان پر ہی عمل درآمد ہوجائے تو میں سمجھتا ہوں کہ وہ صحیح ہیں اور ایسے کیسز میں کمی کا باعث بن سکتی ہے، ان کا کہنا تھا کہ انصاف کے نظام سے نہ صرف ریپ کے کیسز جڑے ہوئے ہیں بلکہ پورا معاشرہ اس سے متاثر ہوتا ہے اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ انصاف کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔

'والدین کو چاہیے کہ بچوں کے ہاتھ میں دی گئی ٹیکنالوجی پر نظر بھی رکھیں'

بچوں کے ہاتھ میں موجود ڈیوائسز اور ان میں نیٹ کے ذریعے موجود مواد اور اس کے ان پر اثرات (جیسا کہ حال ہی میں سامنے آنے والے متعدد کیسز میں کم عمر لڑکوں کی جانب سے کم عمر لڑکیوں پر جنسی حملوں کے کیسز بھی سامنے آرہے ہیں) کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ والدین کو بچوں پر چیک اینڈ بیلنس رکھنا چاہیے بچوں کے ساتھ قریبی تعلق استوار کرنے کی ضرورت ہے بلکہ بچوں پر نظر رکھنا والدین کی ہی ذمہ داری ہے اور اگر ان کو سیل فون لے کر دیا گیا ہے تو اس کے اچھے اور برے کے بارے میں بچوں کو لازمی بتا دیں اور ان کو اس حوالے سے آگاہی فراہم کی جائے۔

شیراز احمد نے زور دیا کہ والدین کا بچوں کے ساتھ قریبی تعلق استوار کرنا انتہائی ضروری ہے اور ساتھ ہی ان پر نظر رکھیں جیسے کہ آگر کوئی آپ کے بچے میں غیر معمولی دلچسپی لے رہا ہے تو یہ بھی والدین کے لیے ایک تشویش کا باعث معاملہ ہے تو ان کے والدین اس بات کو نوٹ کریں کہ کیوں ایک بڑا بچہ ان کے بچے میں دلچسپی لے رہا ہے اور تحفے تحائف کیوں دے رہا ہے وہ چیزیں کہاں سے آرہی ہیں یا کوئی بچہ کہہ رہا ہے کہ اس کو فلاں خاتون یا فلاں مرد کے پاس جانا اچھا نہیں لگتا تو والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ وجہ جاننے کی کوشش کریں۔

سال 2020 میں 6 مخنث کو بھی ریپ یا گینگ ریپ کا نشانہ بنایا گیا— فائل فوٹو: شٹر اسٹاک
سال 2020 میں 6 مخنث کو بھی ریپ یا گینگ ریپ کا نشانہ بنایا گیا— فائل فوٹو: شٹر اسٹاک

انہوں نے نشاندہی کی کہ مسئلہ یہاں یہ ہے کہ والدین کا اپنے بچوں سے قریبی تعلق نہیں ہوتا، والدین اپنی پریشانی کی وجہ سے خود بھی بچوں پر تشدد کررہے ہوتے ہیں اور اس کی وجہ سے لوگ بچوں کو ایکسپلائیڈ کرنا شروع کردیتے ہیں اور اسی گیپ کا فائدہ اٹھاتے ہیں تو بچے والدین کے پاس اس لیے نہیں آتے کہ وہ تو ان کی بات پہلے ہی نہیں سن رہے، اس کے علاوہ ان کا کہنا تھا کہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ کم عمر لڑکیاں والدین کی توجہ نہ ملنے کے باعث ایسے مرد حضرات سے تعلق قائم کرلیتی ہیں جو ان کی عمر سے کئی سال بڑے ہوتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر گھر والوں کی توجہ نہیں ملے گی یا ان کا پیار نہیں ملے گا تو جو فرد ان کو توجہ دے رہا ہوتا ہے تو بچے کا بھی اس کی جانب رجحان بڑھنے لگتا ہے اسی طرح اساتذہ کی بھی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں سے قریبی تعلق قائم کریں جیسے پرانے وقتوں میں ہوتا تھا جیسے اساتذہ کو ایک ایک بچے کی پریشانی معلوم ہوتی تھی اور وہ اس میں آنے والی تبدیلوں کے حوالے سے بات چیت کرتے تھے اور اس کا حل بتاتے تھے۔

آخر میں ان کا کہنا تھا کہ ہمیں بڑے پیمانے پر آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے اور میڈیا بھی اس میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے میڈیا کے ساتھ ساتھ پیمرا کا اس میں بہت اہم رول ہے وہ آگاہی سے متعلق پروگرام بنائیں اور ان کی زیادہ سے زیادہ تشہیر کی جائے میڈیا پر اور اس حوالے سے معروف شخصیات یا سلبیرٹیز بھی اہم کردار ادا کرسکتی ہیں یا وہ لوگ جنہیں عوام فالو کرتے ہیں انہیں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، ان تمام لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے میں آگاہی کے پروگرام منعقد کریں یا ان میں شرکت کریں تاکہ خواتین اور بچوں کے ساتھ اس طرح کے واقعات نہ ہوں اس کے علاوہ بڑے پیمانے پر ریاستی کرداروں یا اداروں کو بھی اس حوالے سے اپنا فرض ادا کرنا چاہیے۔

ماہر نفسیات کی آرا

اس معاملے پر ماہر نفسیات کی کیا آرا ہے؟

ریپ سے متعلق ٹراما سے نکلنے کیلئے متاثرہ فرد کو فوری بات چیت کا آغاز کرنا چاہیے، ڈاکٹر آشا بیدار

'ریپ متاثرہ فرد شرم کی وجہ سے اس پر بات نہیں کرتا'

ماہرین کا ماننا ہے کہ ریپ یا گینگ ریپ یا جنسی تشدد یا ہراسانی کے متاثرہ فرد (خواتین، بچوں اور دیگر) پر بہت گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں اسی لیے اس رپورٹ میں ان کیسز سے جڑے مختلف حوالوں سے ماہر نفسیات کی آرا یا رہنمائی بھی حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ قارئین کو زیادہ سے زیادہ آگاہی فراہم کی جاسکے۔

ریپ متاثرہ افراد کی کونسلنگ میں سامنے آنے والی دشواریوں سے متعلق ماہر نفسیات یا کلینکل سائیکولوجسٹ ڈاکٹر آشا بیدار سے سوال ہوا تو ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں لوگوں میں اس حوالے سے اب بھی ایک قسم کی شرم ہوتی ہے یا وہ بات کرنے میں بہت زیادہ ججھک محسوس کرتے ہیں اور بات نہیں کرتے، انہوں نے کہا کہ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے ان کے پاس جو لوگ ایسے مسائل کے ساتھ آتے ہیں وہ بہت وقت کے بعد جا کر بتاتے ہیں کہ ایشو ریپ کا ہے، ابتدا میں وہ ڈپریشن یا انزائیکی کا ذکر کرتے ہیں اور اسی کے لیے کونسلنگ چاہتے ہیں یا کھانا پینا چھوڑ دیا ہوتا ہے یا ان کی فیملی میں تعلقات خراب ہورہے ہوتے ہیں یا نہیں شوہر یا بیوی کے ساتھ تعلقات میں مسائل کا سامنا ہوتا ہے یا سو نہیں پا رہے یا دیگر صحت کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے تو ایسے متاثرہ افراد دو یا تین سیشنز کے بعد جا کر بتاتے ہیں کہ معاملہ ریپ کا ہے۔

کلینکل سائیکولوجسٹ ڈاکٹر آشا بیدار
کلینکل سائیکولوجسٹ ڈاکٹر آشا بیدار

انہوں نے بتایا کہ اکثر کیسز میں ایسا ہوتا ہے کہ ریپ کا واقعہ کئی سال پہلے ہوا ہوتا ہے لیکن انہوں نے کسی سے بات نہیں کی ہوتی وہ بہت سالوں بعد بتا رہے ہوتے ہیں تو مشکل یہ ہوتی ہے کہ ان کے ساتھ اس قسم کی بات کرنا ایک مسئلہ ہوتا ہے، انہوں نے بتایا کہ اکثر متاثرین انہیں کال کرکے بتاتے ہیں کہ مسئلہ ریپ کا ہے تو اس حوالے سے بات کرنا ایک مسئلہ ہوتا ہے کیوں کہ یہ ایک بہت بڑا ٹراما ہوتا ہے ان کا کہنا تھا کہ ایسے کیسز بھی سامنے آتے ہیں جن میں متاثرہ فرد کے لیے بات کرنا آسان نہیں ہوتا اور بہت زیادہ دشواری پیش آتی ہے کیوں کہ ٹراما کی وجہ سے متاثرہ فرد بہت زیادہ پریشان ہوجاتا تھا۔

کس عمر کے متاثرہ افراد ماہر نفسیات کے پاس جاتے ہیں؟

کس عمر کے متاثرین ان کے پاس ذہنی مسائل کے ساتھ زیادہ آتے ہیں؟ کے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس بیشتر 20 سال کے قریب تر یا 40 سے کم عمر متاثرہ فرد آکر بات کرتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ بیشتر کیسز میں خواتین کئی سالوں کے بعد آکر بات کرتی ہیں کیوں کہ ان کو اس ٹراما سے نکلنا ہوتا ہے یا ان کے شادی ہونے والی ہوتی ہے یا وہ دیگر معاملات کی وجہ سے اس ٹراما سے باہر نکلنا چاہتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مختلف طرح کے متاثرین ان سے بات کرنے آتے ہیں جن میں اکثر ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو بظاہر مسائل نہیں ہوتے لیکن کیوں کہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح کے معاملات پر بات کرنی چاہیے تاکہ وہ اس ٹراما سے نکلیں، بہت سے لوگ اس وجہ سے بھی رابطہ کرتے ہیں کہ اس مسئلے کی وجہ سے ان کی زندگی کے دیگر پہلو بھی متاثر ہو رہے ہوتے ہیں اور وہ ان مسائل کو ختم کتنا چاہتے ہیں جیسے کے ڈپریشن، یا تعلقات میں مسائل ہیں یا شادی ہونے والی ہے جب اس قسم کی پریشانی ہوتی ہے تو وہ کسی ڈاکٹر یا ماہر نفسیات سے رجوع کرتے ہیں۔

حال ہی میں نافذ کیے گئے آرڈیننس میں مجرموں کے لیے سخت سزائیں تجویز کی گئی ہیں— فائل فوٹو: ٹوئٹر
حال ہی میں نافذ کیے گئے آرڈیننس میں مجرموں کے لیے سخت سزائیں تجویز کی گئی ہیں— فائل فوٹو: ٹوئٹر

جب ماہر نفسیات سے یہ پوچھا گیا کہ ان کے پاس جو کیسز آتے ہیں ان میں متاثرہ فرد کو نشانہ بنانے والا فرد معلوم (یعنی رشتہ دار ہوتا ہے) یا نامعلوم (یعنی انجان)؟ کس قسم کے کیسز کی شرح زیادہ ہے؟ کے سوال کا جواب دیتے ہوئے آشا بیدار کا کہنا تھا کہ انجان افراد کی جانب سے ریپ کیے جانے کی شرح بہت کم سامنے آئی ہے اور ان کے پاس آنے والے متاثرین میں سے بہیشتر قریبی عزیزوں کا رشتہ داروں کا قریبی جاننے والوں سے متاثر ہوئے ہوتے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ قریبی ہی رشتہ دار ہوں ایسے کیسز بھی سامنے آتے ہیں جو جاننے والے تو تھے لیکن رشتے دار نہیں تھے جیسے کہ ہمسایہ یا بھائی کا یا والد کا دوست وغیرہ اس طرح کے کیسز بہت زیادہ آتے ہیں انہوں نے بتایا کہ میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ جو کیسز میرے پاس آئے ہیں ان میں 95 فیصد جاننے والے ہی ملوث تھے۔

'ریپ کا شکار مرد حضرات بھی نفسیاتی مسائل کی وجہ سے آتے ہیں'

کیا ان کے پاس ریپ کا شکار ہونے والے مرد حضرات بھی نفسیاتی مسائل کے حل کے لیے آتے ہیں؟ تو آشا بیدار کا کہنا تھا کہ جی بلکل! ان کے پاس ریپ کا شکار ہونے والے مرد حضرات بھی ان کے پاس نفسیاتی مسائل کے حل کے لیے آتے ہیں لیکن ان کی تعداد کم ہے کیوں کہ وہ خواتین کی طرح اتنے ونرابل (کمزور) نہیں ہوتے تو بیشتر ایسا ہوتا ہے کہ وہ اس عمل سے متاثر ہونے کے بعد بھی کسی سے بات نہیں کرتا کیوں کہ اسے ججھک ہوگی کہ وہ لڑکا ہے اس کے ساتھ یہ عمل کیسے ہوگیا؟ وغیرہ۔

کیا ریپ کا شکار ہونے والا بچہ بالغ ہونے کے بعد دوسروں کو نشانہ بنا سکتا ہے؟ کے سوال کا جواب دیتے ہوئے ماہر نفسیات کا کہنا تھا کہ بیشتر ایسے افراد، جن کو ان کے بچپن میں ریپ کا نشانہ بنایا گیا ہو یا ایسے ماحول میں رہ رہے ہوں جس میں انہیں بہت زیادہ تکلیف دی گئی ہو تو وہ بڑے ہو کر ایسے مسائل کی وجہ سے دوسروں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔

'فوری بات چیت سے ریپ متاثرہ فرد کو ذہنی دباؤ سے نکالا جاسکتا ہے'

متاثرہ فرد کو واقعے کے فوری بعد کیا کرنا چاہیے سے متعلق پوچھے گئے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ متاثرہ فرد کو دو یا تین ٹراما کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس میں پہلا ٹراما اس کے لیے ریپ کا ہے اور دوسری مرتبہ اس وقت جب متاثرہ فرد کسی کو اس حوالے س بتاتا ہے اور لوگ جس طرح سے اس کو دیکھ رہے ہوتے ہیں تو اس وقت بھی متاثرہ فرد ٹراما کا شکار ہوجاتا ہے اس کے بعد جب آپ رپورٹ کررہے ہوتے ہیں تو یعنی عدالت جا رہے ہیں پولیس کے سامنے جاتے ہیں تو وہ تیسرے لیول کا ایک ٹراما ہوتا ہے تو لوگوں کا جو رویہ ایسے متاثرہ افراد سے متعلق ہوتا ہے وہ بھی اسے ٹراما ہی کی صورت میں برداشت کرنا پڑتا ہے اور اس کے بھی نفسیاتی اثرات ہوتے ہیں کیوں کہ متاثرہ فرد صرف ریپ کے اثرات سے ہی ںبرد آزما نہیں ہو رہا بلکہ وہ لوگوں کے رویے سے بھی لڑ رہا ہوتا ہے انہوں نے کہا کہ اکثر ہمیں متاثرہ فرد کے اہل خانہ سے بھی بات کرنا پڑتی ہے یا ان کی بھی کونسلنگ کرنا پڑتی ہے کہ وہ متثرہ فرد کے ساتھ کس قسم کا رویہ رکھیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کچھ چیزیں جو ریپ متاثرہ فرد کو سمجھنا بہت زیادہ ضروری ہے کہ ریپ کبھی بھی اس کی غلطی نہیں ہوتی اور خود کو قصور وار نہیں ٹھہرایا جائے، جیسے کہ وہ خود بھی ایسا کررہے ہوتے ہیں اور معاشرہ بھی ان کو قصور وار ٹھہرا رہا ہوتا ہے کہ ایسے کپڑے کیوں پہنے باہر کیوں گئیں وغیرہ یا کسی مرد کے بغیر کیوں گئیں تو متاثرہ فرد کو ذمہ دار بہت زیادہ ٹھہرایا جاتا ہے، انہوں نے کہا کہ اسے یہ سمجھایا جانا بہت ضروری ہے کہ ریپ ملزم کی ذہنیت کی وجہ سے ہوتا ہے اس سے متاثرہ فرد کے لباس یا وقت کا کوئی تعلق نہیں، ان کا کہنا تھا کہ اگر متاثرہ فرد کو یہ سمجھانا آسان ہوجائے کہ دنیا جو چاہے کہتی رہے لیکن اس سب میں آپ کی غلطی نہیں تھی تو وہ مذکورہ ٹراما یا اثرات سے جلد نکل آتا ہے۔

کس عمر کے متاثرہ فرد کی کونسلنگ میں زیادہ مشکل پیش آتی ہے؟

کس عمر کے متاثرہ فرد کو ٹراما (ذہنی مسائل) سے نکالنے میں زیادہ مشکلات پیش آتی ہیں؟ کے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ واقعے کے بعد جس قدر آپ جلد اس پر بات کرنا شروع کریں گے تو اس کے اثرات سے نکلنے میں آسانی ہوگی اور جس قدر دیر کی جائے گی تو نکلنا مشکل ہوتا جائے گا یا اس میں وقت درکار ہوگا تو اس میں عمر کا فیکٹر نہیں ہے بلکہ وقت اہم ہے، انہوں نے بتایا کہ ٹراما آپ کے ذہن میں پکتا رہتا ہے اس لیے جس قدر جلد ہو اسے نکالنے کی کوشش شروع کرنی چاہیے ورنہ یہ وقت لے گا، یعنی جیسے ہی ایسا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو متاثرہ فرد کو فوری طور پر ماہر نفسیات سے بات چیت کرکے اس میں سے نکلنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

ڈاکٹر آشا بیدار نے ذکر کیا کہ دیگر ممالک میں یہ طریقہ کار موجود ہے کہ اگر ایسا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو اس کے متاثرہ فرد کو فوری طور پر ماہر نفسیات کی خدمات فراہم کی جاتی ہیں انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں ایسی ہیلپ لائنز موجود ہیں کہ اگر متاثرہ فرد خود کہیں نہیں جانا چاہتا یا وہ رپورٹ نہیں کرنا چاہتا تو وہ ان ہیلپ لائنز کے ذریعے بات کرسکتا ہے اور اکثر ایسے معاملات میں ماہرین بغیر کسی رقم کے خدمات فراہم کررہے ہیں تاکہ متاثرہ فرد کم سے کم وہ کسی ایسے فرد کی آواز سن لیں کہ آپ کی زندگی ختم نہیں ہوئی ہے آپ کے ساتھ برا ہوا ہے لیکن اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں ہے اور یہ کہ تم اس میں سے نکل سکتی ہو صرف کچھ وقت لگے گا اور ایسے چند الفاظ سننا بھی متاثرہ فرد کے لیے آسانی پیدا کرسکتے ہیں۔

ماہر نفسیات کے مطابق متاثرہ فرد کو ٹراما سے نکالنے کے لیے اس کے قریبی لوگوں کا رویہ اہم کردار ادا کرتا ہے— فائل فوٹو: شٹر اسٹاک
ماہر نفسیات کے مطابق متاثرہ فرد کو ٹراما سے نکالنے کے لیے اس کے قریبی لوگوں کا رویہ اہم کردار ادا کرتا ہے— فائل فوٹو: شٹر اسٹاک

ان کا کہنا تھا کہ اگر متاثرہ فرد کسی کونسلر کے پاس نہیں جانا چاہتا تو کسی قریبی دوست یا رشتہ دار جس کو وہ سمجھتا ہے کہ وہ اس کی بات سنے گا اور معاشرے کے دیگر لوگوں کی طرح اس سے رویا نہیں رکھے گا تو وہ اس سے ضرور بات کریں جس پر آپ بھروسہ کرتے ہیں لیکن بات لازمی کریں۔

'ریپ کرنے والے کو ذہنی مریض سمجھنا بند کیا جائے'

ماہر نفسیات کا کہنا تھا کہ ہم یہ نہ سمجھیں کہ ریپ کرنے والا کوئی ذہنی مریض ہے اور یہ بتایا جائے کہ یہ ذہنیت کی بات ہے ذہنی بیماری کی بات نہیں ہے، ان کا کہنا تھا کہ ایسے افراد ملزمان کی تعداد بہت کم ہے جس میں معلوم ہوا ہے کہ ملزمان کو ذہنی مسائل یا بیماری کا سامنا تھا بیشتر ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کی ذہنیت خوتین یا لڑکیوں یا کمزروں کے بارے میں منفی ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات سے متعلق جس قدر بات کی جائے گی اور خاص طور پر متاثرہ فرد بات کرے گا تو مسائل کا خاتمہ ہوگا۔

قوانین بنانے یا سزائیں دینے سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قوانین جس قدر بھی سخت بنا لیے جائیں لیکن جب تک کیسز رپورٹ ہی نہیں ہوں گے تو کیا کرسکتے ہیں؟ ان کا کہنا تھا کہ اکثر دیکھا گیا ہے متثرہ فرد کسی کو بتاتا ہی نہیں ہے، ان کا کہنا تھا کہ آپ ملزمان کو پھانسی دے دیں لیکن ہمارے کیسز ہی صرف 2 سے 3 فیصد رپورٹ ہوتے ہی کیوں کہ لوگ اس پر بات نہیں کرتے تو کیوں کوئی ان قوانین سے ڈرے گا جب اس کو معلوم ہے کہ میں جو بھی کروں یہ رپورٹ ہی نہیں ہونا۔

سال 2020 کے واقعات

سال 2020 کے ریپ واقعات کے اعداد وشمار

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کے فراہم کردہ اعدادوشمار بھی ملک میں ریپ یا گینگ ریپ کی ہولناک کہانی بیان کرتے ہیں جس کے مطابق سال 2020 میں 10 نومبر تک ملک میں 1317 ریپ و گینگ ریپ کے کیسز رپورٹ ہوئے جن میں سے 668 نابالغ (لڑکیاں اور لڑکے)، 857 بالغ لڑکیاں (خواتین) اور 54 بالغ لڑکے (مرد) جبکہ 6 مخنث متاثر ہوئے ہیں۔

ایچ آر سی پی کے ڈیٹا ریکارڈ کے مطابق سال 2020 میں جنوری سے 10 نومبر تک پاکستان میں 842 بالغ لڑکیوں (خواتین) کے ساتھ ریپ، غیر فطری جنسی زیادتی اور گینگ ریپ کے واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ اسی عرصے میں 250 نابالغ لڑکیوں (بچیوں) کے ساتھ ریپ، گینگ ریپ یا غیر فطری جنسی زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوئے۔

اسی طرح ملک میں سال 2020 میں 10 نومبر تک 415 نابالغ لڑکوں (بچوں) کے ساتھ ریپ گینگ ریپ یا غیر فطری جنسی عمل کے واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ اسی عرصے میں 54 بالغ لڑکوں کے ساتھ ریپ، گینگ ریپ یا غیر فطری جنسی زیادتی کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے۔

اسی عرصے میں 6 مخنث افراد کو ریپ، گینگ ریپ یا غیر فطری طور پر جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔

مزید پڑھیں: سندھ میں گزشتہ 5 سالوں میں 358 بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، رپورٹ

سال 2020 میں ملک بھر میں 15 خواتین کو ہراسانی، آن لائن ہراسانی اور ونی کیے جانے کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے جبکہ اسی عرصے میں سامنے آنے والے واقعات میں 3 نابالغ لڑکیوں کو ونی کیا گیا۔

پنجاب

اگر صوبوں کی بات کی جائے تو اس حوالے سے سب سے زیادہ کیسز صوبہ پنجاب میں رپورٹ ہوئے جہاں 126 خواتین، 26 نابالغ لڑکوں، 20 نابالغ لڑکیوں اور 6 مخنث افراد کے گینگ ریپ کے واقعات رپورٹ ہوئے، اسی طرح صوبے میں 343 خواتین، 285 نابالغ لڑکوں اور155 نابالغ لڑکیوں کے ریپ یا غیر فطری جنسی زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوئے۔

اس کے علاوہ خواتین کو برہنہ کرنے کے دو واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ صوبے میں ونی کے دو واقعات بھی رپورٹ ہوئے جن میں ایک خاتون اور ایک نابالغ لڑکی متاثریں میں شامل ہیں۔

دوسری جانب کام کے مقام پر ہراسانی کا ایک واقعہ پیش آیا اور وہ ایک خاتون سے متعلق تھا، خواتین کو آن لائن ہراساں کیے جانے کے 5 کیس رپورٹ ہوئے۔

سندھ

علاوہ ازیں ایچ آر سی پی کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق سال 2020 میں 10 نومبر تک سندھ میں 40 نابالغ لڑکوں، 9 بالغ لڑکوں، 30 خواتین اور 13 نابالغ لڑکیوں کے گینگ ریپ کے واقعات رپورٹ ہوئے، اسی عرصے میں 9 ہی بالغ لڑکوں، 83 نابالغ لڑکوں، 78 خواتین اور 51 نابالغ لڑکیوں کے ریپ یا غیر فطرے جنسی زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوئے۔

اس کے علاوہ صوبے میں ہراسانی کے 4 کیسز جبکہ آن لائن ہراسانی کا ایک کیس رپورٹ ہوا اور ان تمام کا شکار خواتین ہی ہوئیں۔

خیبرپختونخوا

پاکستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرنے والے غیر سرکاری ادارے ایچ آر سی پی کے فراہم کردہ اعدادو شمار کے مطابق صوبہ خیبرپختونخوا میں ایک نابالغ لڑکے اور ایک خاتون کا گینگ ریپ کا کیس رپورٹ ہوا، 8 نابالغ لڑکوں، 6 خواتین اور 20 نابالغ لڑکیوں کا ریپ یا غیر فطری طریقے سے جنسی زیادتی کے کیسز رپورٹ ہوئے، علاوہ ازیں بچیوں کو ونی کرنے کے دو واقعات رپورٹ ہوئے۔

اسلام آباد اور آزاد کشمیر

ایچ آر سی پی کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایک نابالغ لڑکے اور 3 خواتین کے گینگ ریپ کے واقعات رپورٹ ہوئے، 4 خواتین کے ریپ یا غیر فطری جنسی زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوئے، اس کے علاوہ 3 خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے۔

اسی طرح آزاد کشمیر میں ایک خاتون کے ریپ جبکہ دو نابالغ لڑکیوں کے گینگ ریپ کے واقعات رپورٹ ہوئے۔

بلوچستان و قبائلی علاقوں میں کیسز رپورٹ کیوں نہیں ہوتے؟

یہاں واضح رہے کہ بلوچستان اور گلگت بلتستان سے ریپ یا گینگ ریپ کے واقعات کی رپورٹس سامنے نہیں آتیں اور اس حوالے سے انسانی حقوق کے اداروں کے مطابق ان علاقوں میں موجود سخت قبائلی نظام کی وجہ سے ایسے واقعات منظر عام پر نہیں آتے یا رپورٹ نہیں کیے جاتے۔

یہ بھی پڑھیں: ’رواں سال ملک میں یومیہ 8 سے زائد بچے جنسی استحصال کا نشانہ بنے‘

علاوہ ازیں ایچ آر سی پی کا کہنا تھا کہ مذکورہ بالا اعداد وشمار رپورٹ ہونے والے واقعات ہیں جبکہ اصل واقعات کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جو رپورٹ نہیں ہوئے اور ایسے واقعات رپورٹ نہ ہونے کی وجہ خاندان میں بد نامی یا برادری سے نکال دیئے جانے کے خوف یا موجود قانونی نظام پر عدم اعتماد ہے۔

2020 میں رپورٹ ہونے والے ریپ واقعات

جنوری 2020

5 جنوری کو صوبہ پنجاب کے شہر قصور میں ایک شخص نے مبینہ طور پر دوسرے فرد سے 500 روپے وصول کرکے اپنی 12 سالہ بیٹی کا جنسی استحصال کرنے کی اجازت دے دی تھی جس کے بعد بچی کی والدہ کی شکایت پر پولیس نے مقدمہ درج کرکے تفتیش کا آغاز کردیا تھا۔

20 جنوری کو صوبہ خیبرپختونخوا کے علاقے زیارت کاکا صاحب گاؤں سے لاپتا 8 سالہ بچی کی لاش برآمد ہونے کے بعد پولیس نے 2 ملزمان کو گرفتار کرکے ان کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کرلیا تھا، اس حوالے سے پولیس کی تفتیش جاری تھی کہ بچی کا قتل سے قبل ریپ کیا گیا ہے یا نہیں۔

فروری 2020

3 فروری کو پنجاب کے شہر جہلم کے علاقے جادہ میں مسافر بس کے ڈرائیور اور کنڈیکٹر نے کھاریاں جانے والی 15 سالہ طالبہ کے ساتھ مبینہ طور پر اجتماعی زیادتی کی اور اسے پھینک کر فرار ہوگئے بعد ازاں پولیس نے متاثرہ لڑکی کی مدعیت میں فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کی اور ایک ملزم کو گرفتار کرنے کا دعویٰ بھی کیا۔

16 فروری کو صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع ہنگو میں پولیس نے 8 سالہ بچی کی تشدد زدہ لاش برآمد کی تھی اور خدشہ ظاہر کیا تھا کہ بچی کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کیا گیا جبکہ واقعے کی تفتیش کا آغاز کرتے ہوئے پولیس نے بچی کے کزن سمیت متعدد مشتبہ افراد کو گرفتار کرلیا تھا۔

17 فروری کو صوبہ پنجاب کے شہر راولپنڈی کی پولیس نے بتایا تھا کہ روات کے علاقے میں 2 خواتین سے نقدم رقم لوٹنے کے بعد ایک کا ریپ کردیا گیا، بعد ازاں پولیس نے مقدمے کا اندراج کرکے تفتیش کا آغاز کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: گھریلو تشدد اور ذہنی تناؤ کا شکار افراد ان ہیلپ لائنز پر مدد حاصل کر سکتے ہیں

23 فروری کو ایک رپورٹ سامنے آئی تھی کہ صوبہ پنجاب کے شہر راولپنڈی میں ریپ متاثرہ 14 سالہ لڑکی کے ہاں بیٹی کی پیدائش ہوئی، جس کے بعد دونوں کو بچوں کے تحفظ کے لیے قائم ادارے چائلڈ پروٹیکشن بیورو (سی پی بی) منتقل کردیا گیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق ریپ متاثرہ لڑکی کا بیان ریکارڈ کرنے کے لیے انہیں مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا جائے گا، متاثرہ لڑکی کے مطابق 4 ملزمان نے، جو اس کے محلہ دار بھی تھے، متعدد مرتبہ اس کا ریپ کیا، جنہیں پولیس نے گرفتار کرکے چاروں ملزمان کو جیل بھیج دیا۔

28 فروری کو صوبہ خیبرپختونخوا کے شہر پشاور کی چائلڈ پروٹیکشن کورٹ نے ریپ اور جنسی طور پر ہراساں کرنے کے کیس میں متاثرہ لڑکی کے ماموں اور بھائی کو عمر قید اور 20 سال قید کی سزا سنا دی تھی اور لڑکی پر جسم فروشی کے لیے دباؤ ڈالنے پر ان کی والدہ کو 20 سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا بھی سنائی۔

اپریل 2020

26 اپریل کو صوبہ سندھ کے شہر کراچی میں ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) جنوبی شرجیل کھرل نے کہا تھا کہ کلفٹن کے علاقے اپر گزری میں 13 اپریل کو گھر میں ڈکیتی کے دوران 25 سالہ خاتون کے مبینہ ریپ اور قتل میں ملوث 4 مشتبہ ملزمان کو گرفتار کرلیا گیا، انہوں نے بتایا تھا کہ پولیس نے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے 4 مشتبہ ملزمان کو گرفتار کرکے اس بلائنڈ کیس کو حل کیا۔

مئی 2020

17 مئی کو خیبرپختونخوا کے اضلاع جنوبی و شمالی وزیرستان کے سرحدی گاؤں میں نوجوان شخص کے ساتھ موبائل ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد 2 لڑکیوں کو مبینہ طور پر گھر کے فرد کی جانب سے غیرت کے نام پر قتل کردیا گیا تھا بعد ازاں پولیس نے واقعے کی تفتیش کا آغاز کیا اور متعدد گرفتاریوں کا دعویٰ بھی کیا۔

26 مئی کو صوبہ پنجاب کے شہر قصور کے علاقے کھڈیاں میں جنسی ہراسانی کو ناکام بنانے پر ایک لڑکے کو قتل کرنے والے ملزم کو پولیس نے گرفتار کرلیا تھا جبکہ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی سے رپورٹ طلب کرلی تھی واقعے میں ملوث ملزم ایک پولیس اہلکار تھا۔

جون 2020

14 جون کو سندھ کے ضلع مٹیاری میں جنسی زیادتی میں ناکامی پر چاقو کے وار سے شدید زخمی ہونے والے لڑکے کو حیدر آباد کے لیاقت یونیورسٹی ہسپتال (ایل یو ایچ) داخل کیا گیا تھا، متاثرہ لڑکے کے بھائی نے الزام لگایا کہ 4 افراد نے ان کے 16 سالہ بھائی سے مٹیاری کے کھیت میں زیادتی کی کوشش کی۔

14 جون کو ہی صوبہ پنجاب کے شہر رحیم یار خان کی پولیس نے گھریلو ملازمہ کو تشدد، جنسی استحصال اور غیر قانونی قید میں رکھنے کے الزام میں 3 خواتین سمیت 7 افراد کے خلاف مقدمہ درج کرلیا تھا۔

جولائی 2020

2 جولائی کو کراچی کے علاقے اورنگی ٹاؤن میں مبینہ طور پر 'غیرت کے نام' پر فائرنگ کے واقعے میں نوعمر لڑکا قتل جبکہ لڑکی زخمی ہوگئی تھی۔

اسی روز لاہور کے علاقے گجر پورہ میں ڈاکوؤں نے مبینہ ڈکیتی کے دوران کلینک پر کمپاؤنڈر کے طور پر کام کرنے والی 19 سالہ لڑکی کو مبینہ طور پر ریپ کا نشانہ بنایا، بعد ازاں پولیس نے واقعے کا مقدمہ درج کرکے ملزمان کو گرفتار کرلیا تھا۔

13 جولائی کو لاہور میں ملت پارک پولیس اسٹیشن کی حدود میں دوست نے ساتھی کے ساتھ مل کر ایک ٹک ٹاکر لڑکی کو مبینہ طور پر گینگ ریپ کا نشانہ بنایا تھا۔

15 جولائی کو سیالکوٹ میں پسرور تحصیل کے گاؤں بٹر ڈوگراں چننڈا میں دو افراد کے ہاتھوں گینگ ریپ کا نشانہ بننے والی 8 سالہ بچی دوران علاج ہسپتال میں دم توڑ گئی تھی جس کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ وہ رکشا ڈرائیور کی بیٹی ہے، جو اپنے گھر کے سامنے کھیل رہی تھی کہ اسی گاؤں کے رہائشی دو مشتبہ افراد نے اسے جوس میں کچھ نشہ آور شے ملا کر دی اور ایک ویران عمارت میں لے جا کر جنسی تشدد کا نشانہ بنایا۔

17 جولائی کو سندھ کے ضلع خیرپور میں پولیس نے متعدد بچوں کے ساتھ بدفعلی کے الزام میں ریٹائرڈ اسکول ٹیچر کو گرفتار کرلیا تھا، واقعے کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ مبینہ طور پر ریٹائرڈ اسکول ٹیچر مرکزی ملزم ہے جو اپنی نجی رہائش گاہ میں بچوں کو ٹیوشن دیتا تھا۔

19 جولائی کو ایک نوجوان خاتون راولپنڈی کے علاقے گلریز کالونی سے مبینہ طور پر اغوا کر کے 2 لوگوں کی جانب سے ریپ کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

27 جولائی کو سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ کے گاؤں کوٹ انی سنگھ میں 3 مشتبہ افراد نے ایک کم عمر لڑکی کا 'گینگ ریپ' کیا تھا، واقعے کے بارے میں پولیس کا کہنا تھا کہ ملزمان، جن میں 2 نامزد ہیں، وہ 14 سالہ لڑکی کو اس کے گھر سے اٹھاکر اپنے گھر لے آئے جہاں اس کا گینگ ریپ کیا جسے بعد میں تشویشناک حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا۔

اگست 2020

9 اگست کو پنجاب کے شہر لیہ میں غیر سرکاری تنظیم (این جی او) کے ساتھ کام کرنے والی لڑکی کو اس کے ساتھی نے مبینہ طور پر بلیک میل کرتے ہوئے اس کا ریپ کیا تھا، کروڑ لعل عیسن پولیس نے لڑکی کی شکایت پر واقعے کا مقدمہ درج کرلیا تھا۔

17 اگست کو پنجاب کے ضلع خانیوال میں شہریوں نے بچوں سے بدفعلی کرنے والے جعلی پیر کو رنگے ہاتھوں پکڑ کر پولیس کے حوالے کردیا، جس کے بعد اس جعلی پیر کے خلاف مقدمہ بھی درج کرلیا گیا تھا۔

24 اگست کو صوبہ پنجاب کے علاقے مظفر گڑھ کے ایک مدرسے میں زیر تعلیم 5 سالہ بچے کا ریپ کردیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں اسے تشویشناک حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا۔

ستمبر 2020

یکم ستمبر کو صوبہ پنجاب کے ضلع مظفرگڑھ میں پولیس نے ایک نوجوان لڑکے کو مبینہ طور پر بدفعلی اور گولی مارنے کے الزام پر 2 افراد کو گرفتار کرلیا تھا۔

9 ستمبر کو گجرپورہ کے علاقے میں 2 'ڈاکوؤں' نے مبینہ طور پر ایک خاتون کو اس وقت گینگ ریپ کا نشانہ بنادیا تھا جب وہ موٹروے پر اپنی گاڑی میں کچھ خرابی کے بعد مدد کا انتظار کر رہی تھیں، اس واقعے کے بعد ملک میں عوام کا شدید رد عمل سامنے آیا تھا اور حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا بعد ازاں پولیس نے تفیش کے دوران ملزمان کو گرفتار کرلیا تھا۔

11 ستمبر کو ڈیرہ غازی خان کی تحصیل تونسہ کے گاؤں بستی لاشاری میں ایک شادی شدہ خاتون کو 2 مشتبہ افراد نے گھر میں مبینہ طور پر گینگ ریپ کا نشانہ بنا ڈالا تھا۔

13 ستمبر کو فیصل آباد کے علاقے تاندلیانوالا میں 4 سالہ بچی اور 15 سالہ لڑکی اور نیوسول لائن میں 9 سالہ لڑکے سے زیادتی کے الگ الگ واقعات کی شکایت پر پولیس نے فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) بھی درج کردی۔

اسی روز صوبہ پنجاب کے ضلع جہلم کے شہر پنڈ دادن خان میں لڑکی کا گینگ ریپ کرنے والے تینوں ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔

20 ستمبر کو سرگودھا میں شوہر اور بچوں کی موجودگی میں 4 مسلح افراد نے خاتون کا مبینہ طور پر گینگ ریپ کیا تھا اور زیورات کے علاوہ 20 ہزار روپے بھی لوٹ کر فرار ہوگئے تھے۔

21 ستمبر کو اوکاڑہ کے علاقے دیپالپور کوثر روڈ پر اڈہ ساہلووال کے قریب گھر میں ڈکیتی کے دوران 4 نامعلوم مسلح افراد نے ایک شادی شدہ خاتون کا مبینہ طور پر گینگ ریپ کردیا تھا۔

22 ستمبر کو گوجرانوالہ پولیس نے ایک ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد پولیس کے اسسٹنٹ سب انسپکٹر (اے ایس آئی) کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا، ویڈیو میں ایک 23 سالہ خاتون نے پولیس اہلکار کے خلاف ریپ کا الزام لگایا تھا۔

23 ستمبر کو کراچی کے علاقے کلفٹن میں مبینہ طور پر ایک خاتون کو اغوا کے بعد گینگ ریپ کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

اسی روز آزاد جموں و کشمیر کی پولیس نے دو کزنز کو 10 سالہ رشتہ دار اور یتیم لڑکی کو مبینہ طور پر ریپ کا نشانہ بنانے پر گرفتار کرلیا تھا۔

25 ستمبر کو کراچی کے علاقے ایف بی انڈسٹریل ایریا میں 8 سالہ بچے کو اغوا کرکے ریپ کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔

اکتوبر 2020

یکم اکتوبر کو صوبہ پنجاب کے ضلع ننکانہ صاحب میں بس کے انتظار میں کھڑی خاتون کو مبینہ طور پر اغوا کے بعد نشہ آور مشروب پلا کر 6 افراد نے گینگ ریپ کا نشانہ بنایا تھا۔

2 اکتوبر کو پنجاب کے صوبائی دارالخلافہ لاہور میں ملزمان نے نوکری کا جھانسہ دے کر لڑکی کا مبینہ گینگ ریپ کردیا تھا جبکہ اسی روز ملتان میں 10 سالہ کمسن لڑکی کے ساتھ مبینہ طور پر اجتماعی زیادتی کرنے والے 2 ملزمان کو اہلِ محلہ نے تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد پولیس کے حوالے کردیا تھا۔

5 اکتوبر کو راولپنڈی پولیس کے مطابق ایک مرد نے ایک خاتون کو ان کے بیٹے کے سامنے بندوق کے زور پر جنسی استحصال کا نشانہ بنایا تھا۔

مزید پڑھیں: زینب الرٹ بل ترمیم کے ساتھ قومی اسمبلی سے بھی منظور

8 اکتوبر کو سندھ کے ضلع داود میں بااثر ملزم نے 10 سالہ لڑکی کو مبینہ طور پر ریپ کا نشانہ بنا ڈالا تھا۔

9 اکتوبر کو صوبہ بلوچستان کے ضلع قلعہ عبداللہ میں ایک 8 سالہ بچے کی درخت سے لٹکی لاش ملی جسے مبینہ طور پر ریپ کے بعد قتل کیا گیا تھا علاوہ ازیں ملزمان کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔

14 اکتوبر کو پنجاب کے ضلع قصور میں پولیس نے 48 گھنٹے کے دوران 4 خواتین اور 3 کم عمر لڑکوں سے مبینہ ریپ کے الگ الگ مقدمات درج کرکے تفتیش شروع کی تھی۔

25 اکتوبر کو لاہور کے علاقے گارڈن ٹاؤن کی پولیس نے تھیٹر کی اداکارہ کا ریپ کرنے کے الزام میں ایک پولیس اہلکار کو گرفتار کرلیا تھا۔

26 اکتوبر کو صوابی کے پارمولی گاؤں کی رازار تحصیل میں ایک شخص نے ایک 7 سالہ بچے کو جنسی استحصال کا نشانہ بنا دیا تھا۔

27 اکتوبر کو بلوچستان کے ضلع قلات سے 8 سالہ بچے کی لاش برآمد کی گئی جسے ریپ اور شدید تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیا گیا۔

نومبر 2020

2 نومبر کو لیہ کے علاقے میں حکومت کے انسداد غربت کے احساس پروگرام کے تحصیل چوبارہ میں قائم دفتر میں کام کرنے والے ایک کلرک کو 9ویں جماعت کی طالبہ کا ریپ کرنے کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا، جو اسکیم میں رجسٹریشن کروانے مذکورہ دفتر آئی تھی۔

8 نومبر کو اسلام آباد میں نجی بینک کے ایک ملازم کو دفتر میں کام کرنے والی خاتون ساتھی کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزام میں نوکری سے ہاتھ دھونے پڑے جبکہ پولیس نے اسے گرفتار بھی کرلیا تھا۔

12 نومبر کو کراچی کے علاقے بلال کالونی میں مبینہ طور پر اغوا کے بعد جنسی زیادتی اور تشدد کا نشانہ بننے والا 4 سالہ بچہ جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر (جناح ہسپتال) میں دوران علاج دم توڑ گیا تھا۔

14 نومبر کو صوبہ سندھ کے ضلع کشمور میں پولیس نے ایک ماں اور اس کی نوعمر بیٹی کو کئی روز تک مبینہ طور پر جنسی استحصال کا نشانہ بنانے والے شخص کو گرفتار کرلیا تھا۔

21 نومبر کو لاہور کے نواب ٹاؤن کے علاقے میں ایک دکاندار کی جانب سے 7 سالہ بچی کے مبینہ طور پر ریپ کے بعد اس کو ہسپتال میں داخل کرادیا گیا تھا۔

23 نومبر کو لاہور کے علاقے یوحنا آباد کی رہائشی بیوٹیشن نے 4 ملزمان پر مبینہ زیادتی اور ویڈیو بنا کر بلیک میل کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔

دسمبر 2020

2 دسمبر کو پنجاب کے ضلع بھکر میں پولیس نے رشتہ کرانے والی خاتون کے ساتھ مبینہ اجتماعی زیادتی کا مقدمہ درج کرلیا تھا۔

3 دسمبر کو راولپنڈی میں لڑکیوں کو شادی کا لالچ دے کر ان سے دوستی اور پھر ان کے ساتھ گینگ ریپ کرنے والے گروہ سے متعلق معلومات سامنے آئی تھیں لیکن مبینہ طور پر پولیس کی پیشہ ورانہ غفلت کے باعث گروہ کے تمام اراکین گرفتار ہونے سے بچ گئے تھے۔

4 دسمبر کو پنجاب کے ضلع لیہ میں پولیس نے خاتون، ان کی دو بیٹیوں اور بہو کو اغوا کرنے کے بعد مبینہ طور پر گینگ ریپ کا نشانہ بنانے والے 9 ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرلیا تھا۔