سخت موسم کے باعث 'کے ٹو' پر لاپتا کوہ پیماؤں کی تلاش تاحال جاری

اپ ڈیٹ 10 فروری 2021
کرار حیدری نے کہا کہ مشن جاری رہے گا لیکن موسم کی خراب صورتحال اس عمل کو مشکل بنا رہی ہے—فائل فوٹو: فیس بک
کرار حیدری نے کہا کہ مشن جاری رہے گا لیکن موسم کی خراب صورتحال اس عمل کو مشکل بنا رہی ہے—فائل فوٹو: فیس بک

دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی 'کے ٹو' سر کرنے کی مہم کے دوران لاپتا کوہ پیماؤں محمد علی سد پارہ، جان اسنوری اور جان پابلو موہر کے اہلِ خانہ نے کہا ہے کہ انہوں نے گزشتہ روز سخت موسم کے باعث '72 کٹھن گھنٹوں کی مسلسل اور بھرپور کوششوں' کے رک جانے کے بعد ریسکیو مشن جاری رکھنے کا مشکل فیصلہ کیا ہے۔

کے ٹو کی چوٹی پر گہرے بادلوں کا اب بھی راج ہے اور تینوں کوہ پیماؤں کے بچنے کی اُمیدیں دم توڑ رہی ہیں جبکہ چلی سے تعلق رکھنے والے جان پابلو موہر کی آج 34 ویں سالگرہ بھی ہے۔

پاکستان سے تعلق رکھنے والے کوہ پیما محمد علی سد پارہ، آئس لینڈ کے جان اسنوری اور چلی کے جان پابلو موہر سے اس وقت رابطہ منقطع ہوگیا تھا جب انہوں نے 4 اور 5 فروری کی درمیانی شب بیس کیمپ تھری سے کے-ٹو کی چوٹی تک پہنچنے کے سفر کا آغاز کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سخت موسم کے باعث لاپتا کوہ پیماؤں کی تلاش کا فضائی آپریشن پھر معطل

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ایک عہدیدار کے مطابق جیسے ہی موسم بہتر ہوگا تینوں کوہ پیماؤں کی تلاش کا عمل دوبارہ شروع کیا جائے گا اور فوج کی جانب سے تمام وسائل متحرک کردیے گئے ہیں۔

عہدیدار کا کہنا تھا کہ سرچ اور ریسکیو کا مشن چوتھے روز میں داخل ہوگیا ہے اور تمام فضائی اور زمینی کوششیں کی جارہی ہیں، ساتھ ہی اس بات کو تسلیم کیا گیا کہ موسم کی سخت صورتحال اور بلندی پر ہونے کی وجہ سے مشن میں مشکلات کا سامنا ہے لیکن انہوں نے کہا کہ تلاش جاری رہے گی اور اس ضمن میں کوئی بھی کسر نہیں چھوڑی جائے گی۔

تفصیلات بتاتے ہوئے عہدیدار نے کہا کہ گزشتہ 72 گھنٹوں کے دوران آرمی ایوی ایشن کے ٹو ہیلی کاپٹرز استعمال کیے گئے۔

عہدیدار کا کہنا تھا کہ 'ایکیوروئیل' ہیلی کاپٹرز اس مشن میں استعمال ہورہے ہیں جو 7 ہزار میٹر کی بلندی سے زائد پر پرواز نہیں کرسکتے جبکہ کوہ پیماؤں کی بوٹل نیک سے اوپر کسی مقام پر موجودگی کا امکان ہے جہاں بلندی 8 ہزار 100 میٹر ہے۔

مزید پڑھیں: محمد علی سد پارہ سمیت 3 کوہ پیماؤں کی تلاش کا عمل روک دیا گیا

آئی ایس پی آر کے بیان میں بتایا گیا کہ 'گزشتہ روز سی-130 طیارے کے ذریعے ایک خصوصی 'فاروڈ لوکنگ انفراریڈ (ایف ایل آئی آر) مشن کی منصوبہ بندی کی گئی تاہم ایف ایل آئی آر اس بلندی اور درجہ حرارت پر آپریٹ نہیں کیا جاسکتا'۔

دوسری جانب الپائن کلب کے سیکریٹری کرار حیدری نے کہا کہ مشن جاری رہے گا لیکن موسم کی خراب صورتحال اس عمل کو مشکل بنا رہی ہے، آج موسم بہت زیادہ ابر آلود ہے اور حد نگاہ کم ہے، اُمید ہے کہ موسم بہتر ہوجائے گا۔

کوہ پیماؤں کے اہلِ خانہ ان کی فکر کرنے پر شکر گزار

دوسری جانب تینوں کوہ پیماؤں کے اہل خانہ نے ایک بیان جاری کیا جس میں ہر ایک فرد کا ان کی حمایت کے لیے شکریہ ادا کیا گیا اور اُمید ظاہر کی گئی کہ مشن جلد بحال ہوجائے گا۔

بیان میں کہا گیا کہ 'ہم ان سب کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے جان اسنوری، محمد علی اور کے پی موہر کی کوہ پیمائی میں دلچسپی، ان کی خیریت کے حوالے سے اپنی فکرمندی کا اظہار کیا، جنہوں نے مدد کی پیشکش کی (خصوصاً ایلیکس گوان) اور وہ جنہوں نے ان کی حفاظت کے لیے دعائیں کیں اور تلاش کے لیے مذکورہ مقام پر ڈرونز کے استعمال کے خیالات پیش کیے۔

یہ بھی پڑھیں:کے ٹو کی مہم جوئی کے دوران علی سدپارہ، ٹیم کے ٹو اراکین لاپتا، تلاش جاری

بیان میں کہا گیا کہ برطانوی نژاد امریکی کوہ پیما وینیسا او برائین جو پاکستان کی خیر سگالی سفیر بھی ہیں اور جان اسنوری کے ساتھ کے ٹو بھی سر کرچکی ہے وہ ایک ورچوئل بیس کیمپ کے ذریعے لاپتا کوہ پیماؤں کی تلاش اور امداد کی کوششوں میں تعاون اور ان کے خاندان کو معاونت فراہم کررہی ہیں۔

پریس ریلیز میں بتایا گیا کہ 'ہم خوش نصیب ہیں کہ ورچوئل بیس کیمپ پر ہمیں ہائی ریزولوشن سیٹیلائٹ ایس اے آر امیجری موصول ہوئی، ایس اے ٹی امیجری ماضی میں کیے گئے ریسکیو آپریشنز میں استعمال کی گئی ہے لیکن کسی نے اس طرح اس کا استعمال پہلے کبھی نہیں کیا، اس نے ہمیں ان علاقوں کے بہترین مناظر فراہم کیے جہاں سخت موسمی حالات کی وجہ سے ہیلی کاپٹرز ناقابل رسائی ہیں۔

موسمِ سرما میں دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے-ٹو سر کرنے کی مہم کے دوران لاپتا ہونے والے کوہ پیماؤں کو تلاش کرنے کے لیے فضائی نگرانی کے ذریعے کیا جانے والا سرچ آپریشن مسلسل تیسرے روز پیر کو بھی جاری رہا تھا لیکن خراب موسم کے باعث روک دیا گیا تھا۔

ریسکیو مشن میں بلندو بالا چوٹیاں سر کرنے والے مقامی کوہ پیماؤں میں شمشال سے فضل علی اور جلال، اسکردو سے امتیاز حسین اور اکبر علی، رومانیہ کے الیکس گوان، نذیر صابر، چھانگ داوا شیرپا اور موسم سرما میں کوہ پیمائی کرنے والی ایس ایس ٹی ٹیم کے دیگر اراکین شامل تھے۔

ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے الپائن کلب کے سیکریٹری کرار حیدری نے تصدیق کی تھی کہ آج بھی کوہ پیماؤں کی تلاش کا عمل شروع کیا گیا تھا تاہم موسم کی موجودہ صورتحال نے سرچ آپریشن کو انتہائی مشکل بنا دیا ہے۔

نیپال سے تعلق رکھنے والے چنگ داوا شیر پا اور لکپا دیندی شیر پا کو پاک فوج کے ہیلی کاپٹرز میں کے-ٹو کے بیس کیمپ سے لے جایا گیا تھا لیکن ٹیموں کو واپس لوٹنا پڑا۔

ٹوئٹر پر ایک پیغام میں چھانگ داوا شیرپا نے کہا تھا کہ 'آرمی ایوی ایشن 5 اسکواڈرن کی مدد سے پاک فوج کے ٹو ہیلی کاپٹروں میں کوہ پیماؤں کی تلاش کے لیے پرواز کی گئی۔

خیال رہے کہ محمد علی سدپارہ رواں برس 2 فروری کو 45 برس کے ہوئے تھے لیکن کے-ٹو سر کرنے کی مہم دوبارہ شروع کرنے کی وجہ سے وہ اپنی سالگرہ نہیں مناسکے تھے۔

2 فروری کو محمد علی سدپارہ کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے کی گئی ٹوئٹ میں سالگرہ کی مبارکباد دینے والے ساتھیوں کا شکریہ ادا کیا گیا تھا۔

ٹوئٹ میں کہا گیا تھا کہ سالگرہ کی خوشی منانے کے لیے وقت کم ہے کیونکہ ہم کل (3 فروری کی) صبح 4 بجے بیس کیمپ سے روانہ ہونے کی تیاریاں کررہے ہیں۔

مزید پڑھیں: سوشل میڈیا صارفین محمد علی سدپارہ، ساتھیوں کی باحفاظت واپسی کیلئے دعاگو

محمد علی سدپارہ کی ٹوئٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ ہم یہ (موسم سرما میں کے-ٹو سر کرنے کے لیے پُرعزم ہیں، ہمیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔

یہاں یہ بات مدنظر رہے کہ محمد علی سدپارہ اور آئس لینڈ کے جان اسنوری موسمِ سرما میں کے-ٹو سر کرنے کی دوسری مہم کے دوران لاپتا ہوئے۔

اس سے قبل 24 جنوری کو محمد علی سدپارہ، ساجد علی سدپارہ اور جان اسنوری نے کو کے -ٹو سر کرنے کی مہم کا آغاز کیا تھا لیکن 25 جنوری کی دوپہر کو 6 ہزار 831 میٹرز پر پہنچنے کے بعد موسم کی خراب صورتحال کی وجہ سے انہوں نے مہم چھوڑ کر بیس کیمپ کی جانب واپسی کا سفر شروع کیا تھا اور فروری میں دوبارہ کے-ٹو سر کرنے کی مہم کا اعلان کیا تھا۔

A photo posted by Instagram (@instagram) on

موسم سرما میں کے-ٹو سر کرنے کی مہم سے قبل 45 سالہ محمد علی سدپارہ پاکستان میں تمام پانچوں، 8 ہزار میٹر بلند چوٹیاں سر کرچکے ہیں جن میں کے- ٹو (8،611 میٹر)، گیشربرم -ون (8،080 میٹر)، گیشربرم-ٹو (8،034 میٹر)، نانگا پربت (8،126 میٹر) اور براڈ چوٹی (8،051 میٹر) شامل ہیں۔

یہاں یہ بات بھی مدنظر رہے کہ محمد علی سدپارہ موسم سرما میں نانگا پربت سر کرنے والے پہلے شخص ہیں۔

وہ چین اور نیپال کے درمیان موجود علاقے تبت کی 8 ہزار 516 میٹر بلند لہوٹسے چوٹی بھی سر کرچکے ہیں، وہ 8 ہزار 485 میٹر بلند مکلو چوٹی اور نیپال میں 8 ہزار 156 میٹر بلند مناسلو چوٹی بھی سر کرچکے ہیں۔

محمد علی سدپارہ بوٹلڈ آکسیجن کے بغیر نیپال کی لہوٹسے چوٹی بھی سر کرچکے ہیں جبکہ ان کے بیٹے نے ان کے ہمراہ 2019 میں پاکستان کے کم عمر ترین کوہ پیما کی حیثیت سے موسمِ گرما میں کے-ٹو سر کی تھی۔

ان کے لاپتا ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر محمد علی سدپارہ کا ایک بیان بھی گردش کررہا ہے جس میں انہوں نے 2016 میں ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’پہاڑ جوش مانگتے ہیں، آپ کی دل لگی ہونی چاہیے پہاڑوں کے ساتھ’۔

تبصرے (0) بند ہیں