کے ٹو کی مہم جوئی کے دوران علی سدپارہ، ٹیم کے 2 اراکین لاپتا، تلاش جاری

اپ ڈیٹ 06 فروری 2021
تینوں کوہ پیما کے ٹو سر کرنے کے بعد لاپتا ہوئے— فوٹو بشکریہ ٹوئٹر
تینوں کوہ پیما کے ٹو سر کرنے کے بعد لاپتا ہوئے— فوٹو بشکریہ ٹوئٹر

گلگت: کے ٹو سر کرنے والے تینوں کوہ پیما علی سدپارہ اور ان کے غیر ملکی ساتھی لاپتا ہو گئے ہیں جن کی تلاش کے لیے ریسکیو آپریشن شروع کر دیا گیا ہے۔

22 کوہ پیماؤں نے کے ٹو سر کرنے کی مہم شروع کی تھی لیکن 19 اس میں ناکام رہے البتہ 3 کوہ پیماؤں نے جمعہ کو 8ہزار 711 کلومیٹر بلند دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی سر کرلی۔

مزید پڑھیں: کے ٹو سر کرنے کے خواہشمند بلغارین کوہ پیما گر کر ہلاک

ان تینوں نے یہ منفرد کارنامہ موسم سرما میں انجام دیا اور یہ محض دوسری ٹیم ہے جس نے سرد موسم میں کے ٹو سر کرنے کا اعزاز حاصل کیا ہے، اس سے قبل نیپالی کوہ پیماؤں نے گزشتہ ماہ موسم سرما میں کے ٹو سر کی تھی۔

البتہ کے ٹو سر کرنے کے بعد سے یہ تینوں کوہ پیما لاپتا ہیں۔

دونوں کوہ پیما 5 فروری کو کے ٹو سر کرنے والے تھے تاہم گزشتہ روز نوٹل نیک کے مقام کے بعد ان کے ساتھ مواصلاتی رابطہ منقطع ہوگیا تھا، جس کے بعد آرمی ہیلی کاپٹر کے ذریعے ان کی تلاش جاری ہے۔

محمد علی سدپارہ، ان کے بیٹے ساجد علی سدپارہ، آئس لینڈ کے کوہ پیما جان سنوری اور چلی کے ایم پی موہر نے آرام کیے بغیر کیمپ 3 سے جمعرات اور جمعہ کی درمیان شب رات 12 بجے کے ٹو سر کرنے کی مہم کا آغاز کیا تھا۔

آرمی کے ہیلی کاپٹر کوہ پیماؤں کو تلاش کررہے ہیں— فوٹو: جمیل ناگری
آرمی کے ہیلی کاپٹر کوہ پیماؤں کو تلاش کررہے ہیں— فوٹو: جمیل ناگری

اس مہم کے بقیہ 19 افراد نے مہم سر نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور وہاں رکنے کے بعد اگلے دن جمعہ کی صبح نیچے آ گئے۔

جمعہ کی رات 12بجے جان سنوری کے نام سے چلائے جانے فیس بک اکاؤنٹ پر اپ ڈیٹ دی گئی کہ مہم کا بالآخر آغاز کردیا گیا ہے۔

علی سدپارہ کے بیٹے ساجد طبیعت خراب ہونے پر واپس کیمپ تھری پہنچے تھے اور اب وہ مکمل تندرست اور بحفاظت کیمپ میں موجود ہیں، ان کا آکسیجن ریگولیٹر صحیح کام نہیں کررہا تھا۔

جمعہ کی صبح سدپارہ ٹیم نے اپ ڈیٹ دی کہ کیمپ تھری سے کوئی خبر نہیں ملی لیکن ہمارا ماننا ہے کہ ایسا سگنل یا بیٹری کی کمی کی وجہ سے ہو سکتا ہے، ہمیں اپنی ٹیم پر بھروسہ رکھنے کی ضرورت ہے اور یقین ہے کہ وہ کامیاب رہیں گے۔

جمعہ کو ان کی کوئی اپ ڈیٹ نہیں مل سکی اور جی پی ایس سے ان کی لوکیشن کی صحیح معلومات بھی موصول نہیں ہو رہی تھیں۔

اس سلسلے میں بتایا گیا کہ جمعہ کی شام 6 بجے ان سے رابطہ ہوا تھا تو وہ محفوظ تھے اور پہاڑ سر کررہے تھے۔

جان اسنوری کے آفیشل پیج سے بتایا گیا کہ تینوں کوہ پیما 8ہزار 300 میٹر پر تنگ جگہ سے نکل کر آگے بڑھ چکے ہیں جو سب سے خطرناک مقام ہے اور خیریت سے ہیں لیکن ہفتے کو ان کی کوئی اپ ڈیٹ موصول نہیں ہوئی۔

کوہ پیماؤں کا جمعہ کی شام کے ٹو سر کرنے کا ارادہ تھا اور انہوں نے جمعہ کی رات کیمپ 4 پر قیام کیا تھا لیکن آج (ہفتے کی) دوپہر 12 بجے تک ٹیم کی کوئی بھی اپ ڈیٹ موصول نہیں ہوئی۔

کوہ پیماؤں کی تلاش کے لیے پاکستان آرمی کے ہیلی کاپٹر کے ذریعے ریسکیو آپریشن شروع کردیا گیا ہے۔

الپائن کلب آف پاکستان کے مطابق دن 11 بجے پاکستان آرمی کے دو ہیلی کاپٹروں نے تینوں لاپتا کوہ پیماؤں کی تلاش کے لیے ریسکیو آپریشن شروع کردیا ہے۔

A photo posted by Instagram (@instagram) on

ساجد سدپارہ 20 گھنٹے اپنے والد اور دو دیگر کوہ پیماؤں کا انتظار کرنے کے بعد واپس نیچے کیمپ 3 میں آ گئے ہیں۔

دوپہر دو بجے تک کوہ پیماؤں کی کوئی اطلاع موصول نہیں اور ابھی تک ان کے حوالے سے کوئی نئی اپ ڈیٹ نہیں ہے۔

سردیوں میں پہاڑ سر کرنے والے مقامی کوہ پیما چھینگ داوا شیرپا نے اپنے سوشل میڈیا پیج پر کہا کہ آرمی ہیلی کاپٹر تقریباً 7ہزار میٹر تک ان کو تلاش کرنے کے بعد واپس آ گیا ہے اور بدقسمتی سے انہیں کچھ نہیں مل سکا۔

انہوں نے کہا کہ اوپر پہاڑوں اور حتی کہ بیس کیمپ میں بھی صورتحال خراب ہے، ہم مزید پیشرفت کے منتظر ہیں لیکن موسم اور سرد ہوائیں ہمیں کچھ کرنے کی اجازت نہں دے رہیں۔

ادھر وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید نے علی سدپارہ اور ساتھی کوہ پیماؤں کی بحفاظت واپسی کے لیے قوم سے دعاؤں کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ علی سدپارہ بہادر اور جرات مند کوہ پیما ہیں جس نے پوری دنیا میں ملک کا نام روشن کیا۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے معروف کوہ پیما محمد علی سدپارہ اور ان کے ساتھیوں کی گمشدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ ان کی تلاش کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ محمد علی سدپارہ پاکستان کے قابل فخر ہیرو ہیں، انہوں نے مہم جوئی سے قبل مجھ سے ملاقات کرکے موسم سرما میں کے ٹو سر کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔

بلاول نے کہا کہ اپنی جان خطرے میں ڈال کر قومی پرچم دنیا کی بلند ترین چوٹیوں پر لہرانے والے علی سدپارہ کی تلاش اولین ترجیح ہونا چاہیے اور پاکستان اور گلگت بلتستان کے عوام ساتھیوں سمیت ان کی بحفاظت واپسی کے لیے دعاگو ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں