سخت موسم کے باعث لاپتا کوہ پیماؤں کی تلاش کا فضائی آپریشن پھر معطل

اپ ڈیٹ 08 فروری 2021
سرچ آپریشن میں شامل ہونے والے محمد علی سد پارہ کے 2 رشتہ دار بھی واپسی کی راہ پر ہیں — فوٹو: انسٹاگرام
سرچ آپریشن میں شامل ہونے والے محمد علی سد پارہ کے 2 رشتہ دار بھی واپسی کی راہ پر ہیں — فوٹو: انسٹاگرام

موسمِ سرما میں دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے-ٹو سر کرنے کی مہم کے دوران لاپتا ہونے والے کوہ پیماؤں کو تلاش کرنے کے لیے فضائی نگرانی کے ذریعے کیا جانے والا سرچ آپریشن مسلسل تیسرے روز پیر کو بھی جاری رہا جسے بالآخر شدید خراب موسم کے باعث روک دیا گیا۔

پاکستان کے محمد علی سد پارہ، آئس لینڈ کے جان اسنوری اور چلی کے جوآن پابلو موہر سے اس وقت سے رابطہ نہیں ہوسکا جب انہوں نے جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب بیس کیمپ تھری سے کے-ٹو کی چوٹی تک پہنچنے کے سفر کا آغاز کیا تھا۔

ریسکیو مشن میں بلندو بالا چوٹیاں سر کرنے والے مقامی کوہ پیماؤں میں شمشال سے فضل علی اور جلال، اسکردو سے امتیاز حسین اور اکبر علی، رومانیہ کے الیکس گوان، نذیر صابر، چھانگ داوا شیرپا اور موسم سرما میں کوہ پیمائی کرنے والی ایس ایس ٹی ٹیم کے دیگر اراکین شامل تھے۔

یہ بھی پڑھیں: محمد علی سد پارہ سمیت 3 کوہ پیماؤں کی تلاش کا عمل روک دیا گیا

ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے الپائن کلب کے سیکریٹری کرار حیدری نے تصدیق کی کہ آج بھی کوہ پیماؤں کی تلاش کا عمل شروع کیا گیا تھا تاہم موسم کی موجودہ صورتحال نے سرچ آپریشن کو انتہائی مشکل بنا دیا ہے۔

نیپال سے تعلق رکھنے والے چنگ داوا شیر پا اور لکپا دیندی شیر پا کو پاک فوج کے ہیلی کاپٹرز میں کے-ٹو کے بیس کیمپ سے لے جایا گیا لیکن ٹیموں کو واپس لوٹنا پڑا۔

ٹوئٹر پر ایک پیغام میں چھانگ داوا شیرپا نے کہا کہ 'آرمی ایوی ایشن 5 اسکواڈرن کی مدد سے پاک فوج کے 2 ہیلی کاپٹروں میں کوہ پیماؤں کی تلاش کے لیے پرواز کی گئی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ لکپا دیندی اور میں ان علاقوں سے گزرے جہاں ہمیں لاپتا کوہ پیماؤں کی موجودگی کا گمان تھا تاہم حد نگاہ کم تھی اور پہاڑ کا بالائی حصہ بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'گزشتہ 3 روز سے پائلٹس اپنی حد سے بڑھ کر اچھا کام کررہے ہیں لیکن ہمیں کوئی سراغ نہ مل سکا، ٹیم قدرے بہتر موسم کا انتظار کررہی ہے جب تلاش ممکن ہوسکے’۔

موسم کی سختی کس طرح تلاش کے عمل کو محدود کرتا ہے کہ وضاحت کرتے ہوئے جاسمین ٹورز کے سربراہ علی اصغر پوریک نے بتایا کہ ہیلی کاپٹر کو 4 گھنٹے پرواز کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے لیے صاف موسم درکار ہوتا ہے۔

مزید پڑھیں: کے ٹو کی مہم جوئی کے دوران علی سدپارہ، ٹیم کے 2 اراکین لاپتا، تلاش جاری

انہوں نے کہا کہ 'ہیلی کاپٹر کو اسکردو سے کے-2 بیس کیمپ پہنچنے کے لیے 40 منٹ لگتے ہیں، سمت کے تعین کے لیے موسم صاف ہونا ضروری ہے، 5 ہزار میٹر بلندی پر موسم شدید اور ناقابل اعتبار ہوجاتا ہے۔

دوسری جانب کے-2 پر سرچ آپریشن میں رضاکارانہ طور پر شامل ہونے والے محمد علی سد پارہ کے 2 رشتہ دار بھی واپسی کی راہ پر ہیں۔

علی اصغر پوریک نے کہا کہ یہ دونوں تجربہ کار بلند چوٹیوں کے پورٹر ہیں اور ساجد سد پارہ کی بحفاظت نیچے آنے میں مدد گار تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ چونکہ یہ دونوں بھی محمد علی سد پارہ کے خاندان سے ہیں اس لیے ان کے لیے دونوں خاص جذبات رکھتے ہیں تاہم ہم نے ان سے واپس زمین پر آنے کی درخواست کی جس پر وہ واپس آرہے ہیں۔

علی اصغر پوریک کے مطابق جان اسنوری نے موسم سرما میں کے-ٹو سر کرنے کے لیے ان کی جاسمین ٹورز کی خدمات حاصل کی تھی اور محمد علی اور ساجد ان کے ہمراہ اس مہم کے لیے پورٹر کے طور پر ساتھ گئے تھے۔

A photo posted by Instagram (@instagram) on

دریں اثنا ذرائع کا کہنا تھا کہ نیپالی کوہ پیماؤں نے اپنا بیس کیمپ لپیٹ دیا ہے، کینیڈین فلم ساز ایلیا سیک لے اور کوہ پیما پاسنگ نوربو شیر پا کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے واپس اسکردو پہنچادیا گیا۔

اس ضمن میں علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سدپارہ نے کے-ٹو سرچ آپریشن کے بعد اسکردو میں میڈیا سے بات چیت میں کہا تھا کہ علی سدپارہ اور ان کے ساتھیوں کو کے-ٹو سر کرنے کے بعد واپسی میں کوئی حادثہ ہوا ہے، وہ 8200 میٹر کی بلندی تک پہنچے تھے۔

ساجد پارہ نے کہا تھا کہ تین دنوں تک لاپتا ہونے کے بعد شدید ترین سردی میں زندہ بچنے کے بہت کم امکانات ہیں، اس موسم میں بغیر ساز و سامان کے تین دنوں تک کوئی زندہ نہیں رہ سکتا ہے تاہم باڈیز کو لانے کے لیے آپریشن کیا جاسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کے ٹو سر کرنے کے خواہشمند بلغارین کوہ پیما گر کر ہلاک

میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ساجد نے کہا تھا کہ جب دیگر کوہ پیما نیچے اتر گئے تھے تو میں، میرے والد علی سد پارہ، جان اسنوری اور جے پی موہر نے رات 12 بجے کے-2 کی چوٹی کا مشن شروع کیا تھا لیکن 8 ہزار 200 میٹر کی بلندی پر آکسیجن ریگولیٹر کم ہونے کی وجہ سے مجھے واپس آنا پڑا۔

انہوں نے بتایا تھا کہ دوپہر 12 بجے انہوں نے بوٹل نیک سے نیچے اترنا شروع کیا اور 5 بجے کیمپ 3 پر پہنچ گئے تھے لیکن مواصلاتی آلات نہ چلنے کی وجہ سے ان کا کوہ پیماؤں سے رابطہ نہیں ہوسکا۔

ساجد سد پارہ نے کہا تھا کہ بیس کیمپ تھری پر انہوں نے اپنے خیمے کی لائٹ جلا کر رکھی تا کہ لاپتا کوہ پیما اسے دیکھ سکیں، ہفتے کے روز کمپ منیجر نے ساجد کو موسمی حالات کی وجہ سے اوپر جانے سے منع کیا اور انہیں نیچے آنے کا مشور دیا۔

ساجد ہفتے کی شامل کے-2 کے بیس کیمپ میں پہنچ گئے تھے انہوں نے بتایا کہ 'بدقسمتی سے کوہ پیما اگلے روز بھی واپس نہ آسکے۔

انہوں نے کہا کہ جمعے کی صبح 11 بجے ان کے والد علی سد پارہ اور دیگر 2 کوہ پیما بوٹل نیک پار کررہے تھے جو کے ٹو کا سب سے خطرناک مقام ہے اور مجھے یقین ہے کہ انہیں چوٹی سے واپسی میں ہی کوئی حادثہ پیش آیا ہوگا۔

خیال رہے کہ محمد علی سدپارہ رواں برس 2 فروری کو 45 برس کے ہوئے تھے لیکن کے-ٹو سر کرنے کی مہم دوبارہ شروع کرنے کی وجہ سے وہ اپنی سالگرہ نہیں مناسکے تھے۔

2 فروری کو محمد علی سدپارہ کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے کی گئی ٹوئٹ میں سالگرہ کی مبارکباد دینے والے ساتھیوں کا شکریہ ادا کیا گیا تھا۔

ٹوئٹ میں کہا گیا تھا کہ سالگرہ کی خوشی منانے کے لیے وقت کم ہے کیونکہ ہم کل (3 فروری کی) صبح 4 بجے بیس کیمپ سے روانہ ہونے کی تیاریاں کررہے ہیں۔

مزید پڑھیں: سوشل میڈیا صارفین محمد علی سدپارہ، ساتھیوں کی باحفاظت واپسی کیلئے دعاگو

محمد علی سدپارہ کی ٹوئٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ ہم یہ (موسم سرما میں کے-ٹو سر کرنے کے لیے پُرعزم ہیں، ہمیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔

یہاں یہ بات مدنظر رہے کہ محمد علی سدپارہ اور آئس لینڈ کے جان اسنوری موسمِ سرما میں کے-ٹو سر کرنے کی دوسری محمد کے دوران لاپتا ہوئے۔

اس سے قبل 24 جنوری کو محمد علی سدپارہ، ساجد علی سدپارہ اور جان اسنوری نے کو کے -ٹو سر کرنے کی مہم کا آغاز کیا تھا لیکن 25 جنوری کی دوپہر کو 6 ہزار 831 میٹرز پر پہنچنے کے بعد موسم کی خراب صورتحال کی وجہ سے انہوں نے مہم چھوڑ کر بیس کیمپ کی جانب واپسی کا سفر شروع کیا تھا اور فروری میں دوبارہ کے-ٹو سر کرنے کی مہم کا اعلان کیا تھا۔

A photo posted by Instagram (@instagram) on

موسم سرما میں کے-ٹو سر کرنے کی مہم سے قبل 45 سالہ محمد علی سدپارہ پاکستان میں تمام پانچوں، 8 ہزار میٹر بلند چوٹیاں سر کرچکے ہیں جن میں کے- ٹو (8،611 میٹر)، گیشربرم -ون (8،080 میٹر)، گیشربرم-ٹو (8،034 میٹر)، نانگا پربت (8،126 میٹر) اور براڈ چوٹی (8،051 میٹر) شامل ہیں۔

یہاں یہ بات بھی مدنظر رہے کہ محمد علی سدپارہ موسم سرما میں نانگا پربت سر کرنے والے پہلے شخص ہیں۔

وہ چین اور نیپال کے درمیان موجود علاقے تبت کی 8 ہزار 516 میٹر بلند لہوٹسے چوٹی بھی سر کرچکے ہیں، وہ 8 ہزار 485 میٹر بلند مکلو چوٹی اور نیپال میں 8 ہزار 156 میٹر بلند مناسلو چوٹی بھی سر کرچکے ہیں۔

محمد علی سدپارہ بوٹلڈ آکسیجن کے بغیر نیپال کی لہوٹسے چوٹی بھی سر کرچکے ہیں جبکہ ان کے بیٹے نے ان کے ہمراہ 2019 میں پاکستان کے کم عمر ترین کوہ پیما کی حیثیت سے موسمِ گرما میں کے-ٹو سر کی تھی۔

ان کے لاپتا ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر محمد علی سدپارہ کا ایک بیان بھی گردش کررہا ہے جس میں انہوں نے 2016 میں ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’پہاڑ جوش مانگتے ہیں، آپ کی دل لگی ہونی چاہیے پہاڑوں کے ساتھ’۔

تبصرے (0) بند ہیں