بھارت: نئے سوشل میڈیا قوانین کے خلاف واٹس ایپ کا عدالت سے رجوع

26 مئ 2021
مقدمے کی وجہ سے مودی حکومت اور ٹیک جائنٹس بشمول فیس بک، گوگل کی پیرنٹ الفابیٹ اور ٹوئٹر کے مابین کشیدگی میں اضافہ ہوگیا ہے—فائل فوٹو: رائٹرز
مقدمے کی وجہ سے مودی حکومت اور ٹیک جائنٹس بشمول فیس بک، گوگل کی پیرنٹ الفابیٹ اور ٹوئٹر کے مابین کشیدگی میں اضافہ ہوگیا ہے—فائل فوٹو: رائٹرز

معروف میسجنگ ایپلی کیشن واٹس ایپ نے 26 مئی سے نافذ ہونے والے سوشل میڈیا قوانین کے خلاف دہلی میں بھارتی حکومت کے خلاف مقدمہ دائر کردیا۔

ذارئع کا کہنا تھا کہ ماہرین کے مطابق بھارت کے نئے قوانین کیلیفورنیا میں واقع فیس بک یونٹ کی پرائیویسی کا تحفظ توڑنے پر مجبور کریں گے۔

برطانوی خبررساں ادارے 'رائٹرز' کی رپورٹ کے مطابق دہلی ہائی کورٹ میں دائر مقدمے میں کہا گیا کہ نافذ کیے گئے قوانین میں سے ایک بھارت کے آئین میں موجود رازداری کے حقوق کی خلاف ورزی ہے کیونکہ اس میں سوشل میڈیا کمپنیوں کو حکام کے مطالبے پر کسی 'انفارمیشن سے وابستہ' پہلے شخص کی نشاندہی کرنی ہوگی۔

اگرچہ نئے قانون میں واٹس ایپ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ صرف ان لوگوں کو بے نقاب کرے جن پر مصدقہ طور پر غلط کاموں کا الزام لگایا گیا ہے لیکن کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ عملی طور پر تنہا یہ کام نہیں کرسکتی۔

مزید پڑھیں: کیا بھارت میں آج سے فیس بک، ٹوئٹر اور واٹس ایپ پر پابندی لگ جائے گی؟

کمپنی کے مطابق چونکہ پیغامات اینڈ-ٹو-اینڈ انکرپٹڈ ہیں اور مذکورہ قانون کی تعمیل کے لیے واٹس ایپ کو پیغام موصول کرنے والوں کے لیے اور بھیجنے والوں کے لیے انکرپشن کو توڑنا ہوگا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ رائٹرز کی جانب سے آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کی جاسکی کہ واٹس ایپ کی جانب سے عدالت میں شکایت دائر کی گئی ہے جس کے بھارت میں 40 کروڑ سے صارفین موجود ہیں نا ہی یہ معلوم ہوا ہے کہ عدالت کی جانب سے درخواست کا جائزہ کب تک لیا جائے گا۔

تاہم معاملے کی حساسیت کی وجہ سے اس معاملے سے واقف افراد نے شناخت ظاہر کرنے سے انکار کیا ہے اور جب ترجمان واٹس ایپ سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اس موضوع پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔

دوسری جانب بھارت کے ایک حکومتی عہدیدار نے کہا کہ واٹس ایپ، گمراہ کن معلومات پھیلانے والوں کو تلاش کرنے کا طریقہ ڈھونڈ سکتا ہے جو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کا ایک طویل المدتی مؤقف ہے۔

انہوں نے کہا کہ واٹس ایپ کو انکرپشن توڑنے کا نہیں کہا جارہا۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت میں پب جی سمیت مزید 118 چینی ایپس پر پابندی

علاوہ ازیں بھارت کی وزارت ٹیکنالوجی نے مذکورہ معاملے پر کوئی بات چیت نہیں کی۔

اس مقدمے کی وجہ سے مودی حکومت اور ٹیک جائنٹس بشمول فیس بک، گوگل کی پیرنٹ الفابیٹ اور ٹوئٹر کے مابین کشیدگی میں اضافہ ہوگیا ہے۔

رواں ہفتے پولیس کی جانب سے ٹوئٹر کے دفتر کے دورے کے بعد تناؤ میں اضافہ ہوا ہے۔

مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ نے بھارت کی حکمراں جماعت کے ترجمان اور دیگر کی کچھ پوسٹس کو 'جوڑ توڑ پر مبنی میڈیا' پر مشتمل کا مواد قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس میں جعلی مواد شامل کیا گیا تھا۔

جس پر بھارتی حکومت نے ٹیکنالوجی کمپنیوں پر زور دیا تھا کہ وہ نہ صرف بھارت میں کورونا وائرس سے متعلق گمراہ معلومات قرار دیے گئے مواد کو ہٹائیں بلکہ بحران سے متعلق حکومتی ردعمل پر تنقید کو بھی ہٹائیں۔

یہ قانون نافذ ہونے سے 90 روز قبل جب فروری میں اسے پیش کیا گیا تھا اسی وقت سے کمپنیوں کو ان پر شدید شکوک و شبہات ہیں۔

بھارت کی وزارت ٹیکنالوجی کی جانب سے نافذ کی گئیں انٹرمیڈیری گائیڈ لائنز اور ڈیجیٹل میڈیا ایتھکس کوڈ کے ذریعے 'نمایاں سوشل میڈیا انٹرمیڈیریز' کو پابند کیا گیا ہے اگر وہ ان کی تعمیل پر ناکام ہوئے تو قانونی چارہ جوئی اور مجرمانہ استغاثہ کے تحفظ سے محروم ہوجائیں گے۔

واٹس ایپ، اس کی پیرنٹ کمپنی فیس بک اور دیگر ٹیکنالوجی حریفوں نے بھارت میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے لیکن کمپنی حکام کو نجی طور پر تشویش ہے کہ مودی حکومت کے ان سخت قوانین سے ترقی کے امکانات کو کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔

مزید پڑھیں: بھارت کی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو 'انڈین ویریئنٹ' سے متعلق مواد ہٹانے کی ہدایت

نئے قواعد میں یہ تقاضے بھی شامل ہیں کہ سوشل میڈیا کمپنیاں کلیدی تعمیل کے لیے بھارتی شہریوں کو تعینات کریں، قانونی حکم نامے کے 36 گھنٹوں کے اندر اندر مواد کو ہٹایاجائے اور شکایات کا جواب دینے کے لیے ایک طریقہ کار وضع کیا جائے۔

اس کے ساتھ ہی انہیں پورنوگرافی کے خاتمے کے لیے خود کار عمل بھی استعمال کرنا چاہیے۔

فیس بک نے کہا ہے کہ وہ بیشتر شقوں سے اتفاق کرتے ہیں لیکن پھر بھی اس کے کچھ پہلوؤں پر بات چیت کر رہے ہیں۔

دوسری جانب ٹوئٹر جسے حکومتی ناقدین کی پوسٹس ہٹانے میں ناکامی کی وجہ سے تنقید کا سامنا ہوا ہے، اس کمپنی نے اس معاملے پر تبصرے سے انکار کردیا۔

انڈسٹری میں کچھ لوگ نئے قواعد کے تعارف میں تاخیر کی امید کر رہے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں