کورونا وائرس کی نئی قسم ڈیلٹا (جس کو سب سے پہلے بھارت میں دریافت کیا گیا تھا) دیگر اقسام کے مقابلے میں 30 سے 100 فیصد زیادہ تیزی سے پھیل سکتی ہے۔

یہ بات برطانیہ کے امپرئیل کالج لندن کے ماہرین نے دریافت کی۔

ماہرین کی ٹیم کی قیادت کرنے والے پروفیسر نیل فرگوسن کے مطابق کورونا وائرس کی قسم ڈیلٹا برطانیہ میں کچھ عرصے پہلے تیزی سے پھیلنے والی قسم ایلفا (جو گزشتہ سال برطانیہ میں دریافت ہوئی تھی) کے مقابلے میں 30 سے 100 فیصد زیادہ متعدی ہوسکتی ہے۔

انہوں نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ہم یقیناً مزید ڈیٹا اکٹھا کریں گے مگر بدقسمتی سے اب تک کی صورتحال مثبت نہیں، اس وقت بہترین تخمینہ یہی ہے کہ ڈیلٹا نامی یہ قسم ایلفا قسم سے ممکنہ طور پر 60 فیصد زیادہ متعدی ہے۔

انہوں نے مزید بتایا 'اس حوالے سے صورتحال غیریقینی ہے یہ 30 فیصد زیادہ تیزی سے بھی پھیل سکتی ہے اور ہوسکتا ہے کہ یہ سو فیصد زیادہ متعدی ہو'۔

خیال رہے کہ ویسے تو اس قسم کا اعلان مارچ 2021 میں ہوا مگر یہ اکتوبر 2020 میں کووڈ سیکونسنگ کے ڈیٹا بیس میں دریافت ہوچکی تھی، مگر اس وقت زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔

یہ نئی قسم ممکنہ طور پر زیادہ تیزی سے پھیلتی ہے اور صرف بھارتی ریاست مہاراشٹرا میں ہی 60 فیصد سے زیادہ کیسز اس کا نتیجہ ہیں۔

وائرسز میں اکثر تبدیلیاں آتی ہیں اور یہ مخصوص نہیں ہوتیں بلکہ جگہ بھی جگہ میوٹیشن ہوتی ہے۔

نیا کورونا وائرس، ایچ آئی وی اور انفلوائنزا وائرسز سب میں جینیاتی انسٹرکشنز کے لیے مالیکیول آر این اے کو استعمال کرتے ہیں اور ان میں دیگر وائرسز کے مقابلے میں اکثر تبدیلیاں آتی ہیں، جس کی وجہ میزبان خلیات میں وائرسز کی نقول بنانے کے دوران ہونے والی غلطیاں ہوتی ہیں۔

عالمی پبلک ڈیٹا بیس میں نئے کورونا وائرس کے لاکھوں جینیاتی سیکونسز موجود ہیں، جن میں متعدد میوٹیشنز پر توجہ نہیں دی جاسکی، مگر کچھ میوٹیشنز سے امینوایسڈز میں تبدیلی آئی، جو وائرل پروٹیشن کی تیاری کی بنیاد ہیں، جس کے نتیجے میں ان کی خصوصیات بدل گئیں۔

جب ایک یا زیادہ میوٹیشن برقرار رہتی ہیں تو ایک ایسی نئی قسم تشکیل پاتی ہے جو دیگر مختلف ہوتی ہیں اور انہیں ایک نیا نام دیا جاتا ہے۔

ڈیلٹا نامی اس قسم کو پہلے بی 1617 کا نام دیا گیا تھا اور حال ہی میں عالمی ادارہ صحت نے کورونا وائرس کی اقسام کے نئے ناموں کا اعلان کیا تھا۔

اس نئی قسم میں 2 اہم میوٹیشنز موجود ہیں، پہلی میوٹیشن اسپائیک پروٹین 452 میں ہوئی اور دوسری پروٹین 484 میں۔

ویسے اس نئی قسم میں صرف 2 میوٹیشنز نہیں ہوئیں بلکہ مجموعی طور پر 13 تبدیلیاں آئی ہیں، جن میں سے 7 اسپائیک پروٹین میں موجود ہیں۔

یہ وائرس اسپائیک پروٹین کو پھیپھڑوں اور دیگر انسانی خلیات کی سطح پر موجود ایس 2 ریسیپٹر پروٹین سے جڑنے کے لیے استعمال کرتا ہے اور پھر بیمار کرتا ہے۔

وائرس میں 8 ویں میوٹیشن ناپختہ اسپائیک پروٹین کے وسط میں ہوئی جو وائرس کے پھیلاؤ میں تیزی کا باعث ہوسکتی ہے۔

اسپائیک پروٹین میں آنے والی تبدیلیاں اس کی شکل اور ساخت کو بدل دیتی ہیں جس سے وائرس کو اینٹی باڈیز سے بچنے میں مدد ملتی ہے، اس سے وائرس کی بقا اور نقول بنانے کی صلاحیت بھی بڑھتی ہے۔

ماہرین کے مطابق اسپائیک پروٹین میں کسی بھی میوٹیشن سے وائرس کے افعال، پھیلاؤ اور دیگر پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

مختلف تحقیقی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ ایل 452 آر نامی میوٹیشن سے وائرس کی خلیات کو متاثر کرنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے یعنی وہ تیزی سے اپنی نقول بناتا ہے اور ایس 2 ریسیپٹر کو زیادہ سختی سے جکڑتا ہے۔

اسی طرح ای 484 نامی میوٹیشن وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز سے بچنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔

یہ قسم اب تک دنیا بھر میں 50 سے زیادہ ممالک تک پھیل چکی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں