غلط اندازوں نے امریکا کا افغانستان سے بتدریج انخلا کا منصوبہ ناکام بنایا

اپ ڈیٹ 23 اگست 2021
انخلا کا منصوبہ قومی سلامتی کے اعلیٰ عہدیداروں نے تشکیل دیا تھا — فائل فوٹو: اے ایف پی
انخلا کا منصوبہ قومی سلامتی کے اعلیٰ عہدیداروں نے تشکیل دیا تھا — فائل فوٹو: اے ایف پی

واشنگٹن: افغانستان سے بتدریج انخلا کے امریکی منصوبے کو وقت، ارادے اور بھروسے سے متعلق 3 غلط اندازوں نے سبوتاژ کیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق امریکی اخبار 'نیویارک ٹائمز' نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا کہ امریکیوں کو یہ یقین تھا کہ انہیں وقت کی آسائش میسر ہے جبکہ فوجی کمانڈروں نے افغان افواج کے لڑنے کے حوصلے کے بارے میں غلط اندازہ لگایا اور صدر اشرف غنی پر بہت زیادہ اعتماد کیا جو کابل کے سقوط کے بعد فرار ہوگئے تھے۔

اخبار کے مطابق صدر جو بائیڈن کی جانب سے انخلا کے منصوبے کا اعلان کیے جانے کے 2 ہفتوں بعد قومی سلامتی کے اعلیٰ عہدیداروں نے منصوبے کو حتمی شکل دی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: 'مسئلہ ادھورا رہ گیا'، افغانستان سے امریکی انخلا پر عالمی رہنماؤں کا ردعمل

سیکریٹری دفاع لائڈ جے آسٹن 3، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک اے ملی اور وائٹ ہاؤس اور انٹیلیجنس اداروں کے اعلیٰ عہدیداروں نے اجلاس میں شرکت کی تھی جبکہ سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن ویڈیو کانفرنس کے ذریعے شریک ہوئے۔

یہ اجلاس 4 گھنٹے تک جاری رہا، جس میں 2 چیزیں واضح ہوگئیں۔

پہلا یہ کہ پینٹاگون عہدیداروں کا کہنا تھا کہ وہ صدر جو بائیڈن کی مقرر کردہ حتمی تاریخ 11 ستمبر سے 2 ماہ قبل یعنی 4 جولائی تک افغانستان میں باقی رہ جانے والے ساڑھے 3 ہزار امریکی فوجیوں کو نکال لیں گے۔

اس منصوبے کا مطلب بگرام ایئر فیلڈ کو بند کرنا تھا جو افغانستان میں امریکی فوجی طاقت کا مرکز تھا۔

دوسرا محکمہ خارجہ کے عہدیداروں کا کہنا تھا کہ وہ ساڑھے 6 سو اہلکاروں کی حفاظت میں بقیہ 14 سو سے زائد امریکیوں کے ساتھ سفارتخانہ کھلا رکھیں گے۔

مزید پڑھیں: امریکی سفارتکاروں نے جولائی کے وسط میں طالبان کے ممکنہ قبضے کا انتباہ بھیجا تھا، رپورٹ

اجلاس میں پیش کیے گئے ایک انٹیلیجنس جائزے میں کہا گیا تھا کہ افغان فورسز، طالبان کو ایک سے 2 سال تک روکے رکھ سکتی ہیں۔

اس کے علاوہ ہنگامی انخلا کے منصوبے پر بھی مختصر بات چیت ہوئی لیکن کسی نے بھی یہ سوال اٹھایا نہ سوچا کہ اگر طالبان کابل ایئرپورٹ تک کے راستوں پر قبضہ کر لیتے ہیں تو امریکا کیا کرے گا۔

اخبار نے تبصرہ کیا کہ 'سلسلہ وار غلط اندازوں اور جو بائیڈن کے اس حساب کتاب میں ناکامی کہ امریکی فوجیوں کو نکالنے کے نتیجے میں بتدریج انخلا ہوگا، چار ماہ بعد یہ منصوبہ قابل شرم ہے'۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ حالانکہ سفارتخانے اور انخلا کے سلسلے میں وائٹ ہاؤس حکام کے 50 اجلاس ہوئے لیکن محض چند دنوں میں کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد تمام منصوبہ بندی تباہی کو روکنے میں ناکام رہی۔

ساتھ ہی دعویٰ کیا گیا کہ صدر جو بائیڈن کے انٹیلیجنس افسران نے اپنے طور پر افغانوں کی صلاحیت پر تحفظات کا اظہار کیا تھا لیکن ساتھ ہی یہ پیش گوئی بھی تھی کہ طالبان کا مکمل قبضہ ڈیڑھ سال سے پہلے نہیں ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: برطانیہ نے افغانستان سے امریکی انخلا کو غلطی قرار دے دیا

پینٹاگون میں اپریل میں ہوئے اجلاس کے بعد جنرل مارک ملی نے رپورٹرز کو بتایا تھا کہ افغان فوجیوں کے پاس مناسب تربیت، ہتھیار اور قیادت موجود ہے۔

اخبار کا کہنا تھا کہ صدر کے اعلیٰ انٹیلیجنس افسران نے افغانوں کی صلاحیتوں پر غیر یقینی کی بازگشت کی تھی لیکن یہ اندازہ نہیں تھا کہ طالبان راستے میں ہیں۔

میساچوسیٹس کے صرف ایک ڈیموکریٹ رکن کانگریس سیٹھ مولٹن بظاہر بتدریج انخلا کے منصوبے پر بھروسہ کرتے نظر نہیں آئے، انہوں نے کہا تھا کہ وہ وائٹ ہاؤس، محکمہ خارجہ اور پینٹاگون کو بتانا چاہتے ہیں انہیں افغانستان میں ویزوں کی پراسیسنگ روکنے کی ضرورت ہے جو حکومت اور اس کی افواج پر عدم اعتماد کا ووٹ ہے۔

حالانکہ محکمہ خارجہ نے اصرار کیا تھا کہ کابل میں امریکی سفارتخانہ کھلا رہے گا لیکن 27 اپریل کو سفارتخانے نے اپنے عملے کے 3 ہزار افراد کو نکل جانے کا حکم دیا اور 15 مئی کو ملک میں موجود امریکیوں کے لیے انتباہ جاری کیا جس میں سفارتخانے نے اپنے شہریوں پر زور دیا تھا کہ جتنی جلد ممکن ہو افغانستان سے نکل جائیں۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان سے انخلا اور امریکا کی ویتنام جنگ میں ناکامی کا موازنہ

25 جون کو اشرف غنی نے وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر سے ملاقات کی، حالانکہ وہ امریکی افواج کے انخلا کے فیصلے پر شدید برہم تھے لیکن انہوں نے اپنے جذبات سے عوام کو آگاہ نہیں کیا۔

تاہم انہوں نے 3 درخواستیں کی تھیں، وہ چاہتے تھے کہ امریکا، افغان ترجمانوں اور دیگر افراد کو ویزا فراہم کرنے میں ’تنگ نظری‘ سے کام لے اور ملک سے جانے کے بارے میں زیادہ بات نہ کرے جس سے ایسا محسوس ہو کہ امریکا کو ان کی حکومت پر بھروسہ نہیں ہے۔

ساتھ ہی وہ سیکیورٹی معاونت میں تیزی اور طالبان سے لڑنے والے افغان فوجیوں کے لیے امریکی طیاروں اور ہیلی کاپٹروں سے نگرانی اور امریکی افواج کی جانب سے فضائی حملے جاری رکھنے کا معاہدہ کرنا چاہتے تھے۔

امریکی صدر نے فضائی معاونت اور افغان شہریوں کے انخلا کو منظر عام پر نہ لانے پر رضامندی کا اظہار کیا اور خود بھی افغان صدر سے درخواست کی کہ ملک بھر میں لڑنے کے بجائے افغان فورسز کو اہم مقامات پر جمع کیا جائے جسے اشرف غنی نے نظر انداز کردیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں