نور مقدم کیس: مجھے اور میرے والدین کو مقدمے میں غلط پھنسایا گیا، ظاہر جعفر

اپ ڈیٹ 10 فروری 2022
ملزم نے موقف اپنایا کہ انہیں پھنسانے کے لیے ریاستی مشینری اور میڈیا کا استعمال کیا گیا— فوٹو: ڈان نیوز
ملزم نے موقف اپنایا کہ انہیں پھنسانے کے لیے ریاستی مشینری اور میڈیا کا استعمال کیا گیا— فوٹو: ڈان نیوز

نور مقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے کہا کہ ہے کہ انہیں اور ان کے والدین کو مقدمے میں غلط پھنسایا گیا اور مقدمے میں جمع کیے گئے ثبوتوں پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں پھنسانے کے لیے ریاستی مشینری اور میڈیا کا استعمال کیا گیا۔

بدھ کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں مقدمے کی سماعت کے دوران مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے ساتھ ساتھ ان کے والدین ملزم ذاکر جعفر اور ملزمہ عصمت آدم جی کو بھی عدالت میں پیش کیا گیا۔

مزید پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ملزم ظاہر کی شرٹ پر مقتولہ کا خون لگا ہوا تھا، پولیس

کرمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ 342 کے تحت سوالنامہ جاری کیا گیا جو 25 سوالات پر مشتمل تھا اور عدالت میں مرکزی ملزم ظاہر ذاکر جعفر کے وکیل شہریار نواز اور عثمان ریاض گل نے سوالات کے جوابات دیے۔

سماعت کے موقع پر مرکزی ملزم ظاہر جعفر، ملزم ذاکر جعفر اور ملزمہ عصمت آدم جی بھی عدالت میں موجود تھے۔

ملزم کا کہنا تھا کہ میں نے کبھی بھی نور مقدم کو اغوا نہیں کیا، نور مقدم کے ساتھ میرا لیونگ ریلیشن شپ تھا، نور مقدم کی مرضی سے ہمارا تعلق تھا اور اس وجہ سے ڈی این اے رپورٹ مثبت آیا۔

انہوں نے کہا کہ اس تعلق کا علم ہمارے اہلخانہ کو بھی تھا، مقتولہ ہمارے خاندان کے فرد کی طرح فیملی فنکشن میں آتی تھی اور میں بھی ان کے فیملی فنکشن اور تقریبات میں جاتا تھا۔

ملزم نے دعویٰ کیا کہ نور مقدم کے قتل سے قبل گزشتہ چھ ماہ سے وہ ان سے رابطے میں نہیں تھے، نور نے 18 جولائی کو ان سے رابطہ کیا تھا اور پارٹی منعقد کرنے کو کہا تھا لیکن میں نے انکار کر دیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ نور مقدم 18 جولائی 2021 کی رات ان کے گھر آئی تھی، اس کے پاس منشیات تھی اور وہ پارٹی پر اصرار کرتی رہی، نور مقدم نے اپنے دوستوں کو بھی پارٹی میں بلایا جو میرے گھر آئیں۔

یہ بھی پڑھیں: نورمقدم قتل کیس: چاقو پر ظاہر جعفر کےفنگر پرنٹس نہیں، تفتیشی افسر

ظاہر جعفر کے مطابق اس نے امریکا کے لیے فلائٹ بک کرائی تھی اور اسے 19 جولائی کو روانہ ہونا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں 19 جولائی کو رات کو اپنے گھر سے ایئرپورٹ کے لیے نکلا تھا جبکہ نور مقدم مجھ سے مستقل کہتی رہی کہ میں فلائٹ چھوڑ دوں، وہ میرے ساتھ امریکا جانا چاہتی تھی، اس نے اپنے دوستوں سے ٹکٹ خریدنے کے لیے پیسے مانگے تھے اور ٹیکسی ڈرائیور سے بھی خود ہی کہہ دیا تھا کہ وہ چلا جائے۔

ظاہر نے بتایا کہ 20 جولائی کو نور نے اپنے دوستوں کو پارٹی کے لیے اپنے گھر بلایا، اس دن اس کے والدین اور خاندان کے دیگر افراد عید منانے کراچی گئے ہوئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ جب پارٹی شروع ہوئی تو میں منشیات کے زیر اثر ہوش کھو بیٹھا اور جب مجھے ہوش آیا تو میں نے اپنے آپ کو اپنے گھر پر بندھا پایا، تھوڑی دیر بعد جب پولیس وردی اور سادہ لباس میں ملبوس لوگ رہائش گاہ پر آئے تو تب معلوم ہوا کہ پارٹی میں کسی نے نور کو قتل کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مجھے اور میرے والدین کو اس معاملے میں غلط پھنسایا گیا ہے کیونکہ یہ واقعہ میرے گھر پر ہوا تھا۔

مرکزی ملزم نے مزید کہا کہ شکایت کنندہ نور مقدم کے والد شوکت مقدم اور ان کے رشتہ دار پولیس کے پہنچنے سے پہلے ان کے گھر پر موجود تھے لیکن پولیس نے ان میں سے کسی سے بھی تفتیش نہیں کی جو نور کے ساتھ رابطے میں تھے۔

مزید پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: مرکزی ملزم ظاہر جعفر ذہنی اور جسمانی طور پر فٹ قرار

انہوں نے اپنے جوابات میں مزید دلیل دی کہ ریاستی ادارے اور میڈیا کو میرے خلاف استعمال کیا گیا۔

اس سلسلے میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ اسلام آباد کے ایس ایس پی مصطفیٰ تنویر نے جائے وقوع کا دورہ کیا اور نور کے سامان میں سے منشیات برآمد کیں، جب ایس ایس پی نے میڈیا کے سامنے اس حقیقت کو ظاہر کرنے کی کوشش کی تو ریاستی مشینری کے دباؤ پر انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسی وجہ سے مقتولہ کے سامان کو کیس پراپرٹی کا حصہ نہیں بنایا گیا تھا۔

ظاہر نے اپنے جوابات میں مزید کہا کہ جائے وقوع سے ملنے والے آلہ قتل پر ان کے فنگر پرنٹس نہیں تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے ایک پستول بھی برآمد کیا جو لائسنس یافتہ تھا اور میرے گھر پر موجود تھا، پولیس نے شکایت کنندہ کے ساتھ مل کر اسے کیس پراپرٹی کا حصہ بنایا، یہی وجہ ہے کہ پستول کی فرانزک رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ اس پر میری انگلیوں کے نشانات ملے ہیں۔

ملزم کا کہنا تھا کہ جب وہ پولیس کی تحویل میں تھے تو پولیس نے ان کے فنگر پرنٹس لے لیے تھے جو قانونی طور پر طریقہ کار کی خلاف ورزی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: مرکزی ملزم ظاہر جعفر سمیت تمام 12 ملزمان پر فرد جرم عائد

ان کا مزید کہنا تھا کہ استغاثہ کے پیش کردہ شواہد کے مطابق جائے وقوع پر کوئی ڈیجیٹل ویڈیو ریکارڈر موجود نہیں تھا، ڈی وی آر ثبوت کو مضبوط کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔

ظاہر جعفر نے کہا کہ کسی بھی کال ڈیٹیل ریکارڈز کا کوئی ٹرانسکرپٹ تیار نہیں کیا گیا، جبکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق سی ڈی آر کو ٹرانسکرپٹ کے بغیر ثبوت کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔

انہوں نے کہا کہ ثبوت میں شامل سی ڈی آر کا ڈیٹا نہ تو موبائل سروس فراہم کرنے والی کمپنی سے حاصل کیا گیا اور نہ ہی اس کی تصدیق کی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ نور کے فون کا آئی ایم ای آئی بتائے گئے سی ڈی آر کے تحت فرانزک لیبارٹری کی رپورٹ سے میل نہیں کھاتا۔

مقدمے کے مرکزی ملزم نے کہا کہ ان کا موبائل فون ان کی گرفتاری کے وقت تفتیش افسران نے اپنی تحویل میں لیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ مقدمے کی زیادہ تر تفتیش پولیس اسٹیشن کے اندر کی گئی، ان کے سامان کی بازیابی کے حوالے سے صرف ایک گواہ کا ذکر کیا گیا تھا جبکہ سی آر پی سی کی دفعہ 103 کے تحت دو گواہوں کی موجودگی ضروری ہے۔

انہوں نے 20 جولائی پولیس کی جانب سے گھر کی تلاشی کے بیانیے کی تردید کی اور جائے وقوع سے برآمد خون آلود شرٹ کے بارے میں سوال کے جواب میں دعویٰ کیا کہ ان کے کپڑے انہیں مقدمے میں ملوث کرنے کے لیے استعمال کیے گئے تھے۔

مزید پڑھیں: نور مقدم کے والد نے بیان ریکارڈ کرادیا، ظاہر جعفر کو سزائے موت سنانے کا مطالبہ

اپنی جسمانی حالت کے ٹیسٹ کے بارے میں ایک اور سوال کے جواب میں ظاہر جعفر نے کہا کہ یہ درست ہے کہ استغاثہ کے گواہ نمبر 13 نے میرا طبی معائنہ کیا تھا لیکن اس نے یہ صرف سطحی طور پر کیا تھا۔

پستول پر انگلیوں کے نشانات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے میری انگلیوں کے نشانات لیے اور ان کا استعمال مجھے مقدمے میں پھنسانے کے لیے کیا۔

آڈیو اور ویڈیو تجزیہ اور فوٹو گرامیٹری ٹیسٹ کے نتائج کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایسا انہیں مقدمے میں غلط پھنسانے کے لیے بھی کیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں