نورمقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر ذاکر جعفر کے وکیل نے تفتیشی افسر پر جرح مکمل کرلی جہاں انہوں نے کہا کہ ملزم کی پینٹ پر خون نہیں لگا ہوا تھا اور نہ ہی چاقو پر ان کے فنگر پرنٹس ہیں۔

اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت میں نورمقدم قتل کیس کی سماعت ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے کی۔

مزید پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: مرکزی ملزم ظاہر جعفر ذہنی اور جسمانی طور پر فٹ قرار

عدالت میں پراسیکیوٹر رانا حسن عباس اور مرکزی ملزم ظاہر ذاکر جعفر کے وکیل سکندر ذوالقرنین پیش ہوئے اور سماعت کے دوران تفتیشی افسر عبدالستار پر مرکزی ملزم ظاہرجعفر کے وکیل نے جرح مکمل کرلی۔

تفتیشی افسر نے جرح کے دوران بتایاکہ پولیس ڈائری میں اپنے ساتھ جانےکی بات غلط لکھی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ڈیتھ سرٹیفکیٹ پولی کلینک سے حاصل کی، جس پر مقتولہ کی موت کا وقت 12 بج کر 10 منٹ لکھا ہوا ہے اور 20 جولائی کو پونے بارہ بجے لاش مردہ خانہ کے لیے بھجوائی گئی۔

جرح کےدوران تفتیشی افسر نے مزید بتایاکہ موقعے کے نقشے پر کہیں بھی ظاہر جعفر کی موجودگی نہیں دکھائی دی۔

انہوں نے کہا کہ مقتولہ کا موبائل فون کا ای ایم ای آئی نمبر نہیں لکھا اور نہ ہی مقتولہ کی موجودگی کی تصدیق کےلیے ڈی وی آر کا فوٹو گریمیٹک ٹیسٹ کروایا۔

ان کا کہنا تھا کہ پسٹل کی این ایف ایس اے کی رپورٹ پر ظاہر جعفر کے انگلیوں کے نشان نہیں آئے، گرفتاری کے وقت مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی پینٹ پر خون نہیں لگا ہوا تھا اور نہ ہی چاقو پر ملزم کے فنگر پرنٹس تھے۔

تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ تفتیش میں ہمسائیوں اور کسی چوکیدار کا بیان نہیں لکھا اور نہ ہی گھر کے اردگرد کیمروں کی ریکارڈنگ لی گئی اور واقعے کا کوئی عینی شاہد بھی نہیں ہے۔

سماعت کے دوران مرکزی ملزم ظاہر جعفر کمرہ عدالت میں غنودگی کی حالت میں زمین پر بیٹھا رہا۔

عدالت نے نور مقدم قتل کیس کی سماعت 26 جنوری تک ملتوی کر دی۔

کیس کا پس منظر

خیال رہے کہ 20 جولائی 2021 کو اسلام آباد کے پوش سیکٹر ایف۔7/4 کے رہائشی سابق پاکستانی سفیر شوکت مقدم کی بیٹی 27 سالہ نور کو اسلام آباد میں ہی ایک گھر میں قتل کر دیا گیا تھا۔

ظاہر ذاکر جعفر کے خلاف مقتولہ کے والد کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت ایف آئی آر درج کرائی گئی تھی جس کے تحت ملزم کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔

بعدازاں عدالت میں پیش کردہ پولیس چالان میں کہا گیا کہ مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے ساتھیوں کی ملی بھگت کے باعث نور مقدم نے جان بچانے کی 6 کوششیں کی جو ناکام رہیں۔

وقوعہ کے روز 20 جولائی کو ظاہر جعفر نے کراچی میں موجود اپنے والد سے 4 مرتبہ فون پر رابطہ کیا اور اس کے والد بھی اس گھر کی صورتحال اور غیر قانونی قید سے واقف تھے۔

یہ بھی پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ملزمان پر فرد جرم عائد کرنے کا معاملہ 7 اکتوبر تک مؤخر

چالان میں کہا گیا کہ نور کی جانب سے ظاہر سے شادی کرنے سے انکار پر 20 جولائی کو دونوں کے درمیان جھگڑا ہوا جس کے بعد مبینہ قاتل نے انہیں ایک کمرے میں بند کردیا، چالان میں ملزم کے بیان کا حوالہ دیا گیا جس میں اس نے قتل کا اعتراف کیا۔

ملزم نے بتایا کہ نور مقدم نے اس کی شادی کی پیشکش مسترد کردی تھی جس پر اس نے انہیں ایک کمرے میں بند کردیا، جبری قید پر وہ انتہائی غصے میں آگئیں اور ظاہر کو نتائج سے خبردار کیا۔

مقتولہ نے ظاہر کو دھمکی دی کہ پولیس میں جا کر اس کے خلاف شکایت درج کروائیں گی، بیان کے مطابق ملزم نے اپنے والدین کو واقعے سے آگاہ کیا اور ملازمین کو ہدایت کی کہ کسی کو اندر نہ آنے دیں نہ نور کو گھر سے باہر جانے دیں۔

چالان میں کہا گیا کہ نور کمرے سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوگئی تھیں اور گھر کے مرکزی دروازے کی طرف بھاگیں لیکن سیکیورٹی گارڈ افتخار نے انہیں باہر نہیں جانے دیا، یہ وہ موقع تھا جب ان کی جان بچائی جاسکتی تھی۔

مزید پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ملزم ظاہر کے والدین کی درخواست ضمانت مسترد

کال ڈیٹا کا حوالہ دیتے ہوئے چالان میں کہا گیا کہ نور کو قتل کرنے سے قبل ظاہر نے دوپہر 2 بج کر 21 منٹ، 3 بجے، 6 بج کر 35 منٹ اور شام 7 بج کر 29 منٹ پر اپنے والدین سے رابطہ کیا۔

دوسری جانب شوکت مقدم کی درج کروائی گئی ایف آئی آر کے مطابق ان کے پوچھنے پر ظاہر جعفر نے کال کر کے بتایا کہ نور اس کے ساتھ موجود نہیں۔

تاہم 20 جولائی کو رات 10 بجے انہیں کوہسار پولیس اسٹیشن سے ایک کال موصول ہوئی جس میں انہیں بتایا گیا کہ ان کی بیٹی قتل ہوگئی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جب میں اس گھر پہنچا تو اپنی بیٹی کی گلا کٹی لاش دیکھی جس کے بعد پولیس میں شکایت درج کروائی‘ ۔

25 جولائی کو پولیس نے نور مقدم کے قتل کے مشتبہ ملزم ظاہر جعفر کے والدین اور گھریلو ملازمین کو شواہد چھپانے اور جرم میں اعانت کے الزامات پر گرفتار کیا تھا جنہیں بعد میں عدالت نے جیل بھیج دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ملزم ظاہر جعفر کے والدین کا فرد جرم سے بچنے کیلئے ہائیکورٹ سے رجوع

اس کے علاوہ اس کیس میں تھراپی ورکس کے مالک اور ملازمین بھی گرفتار ہوئے جنہیں عدالت نے 23 اگست کو رہا کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

مقامی عدالت سے ظاہر جعفر کے والدین کی ضمانت مسترد ہونے کے بعد انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا لیکن 29 ستمبر کو ہائی کورٹ نے بھی ملزم کے والدین کی درخواستِ ضمانت مسترد کردی تھی۔

جس پر انہوں نے 6 اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں