نور مقدم قتل کیس: ملزم ظاہر کی شرٹ پر مقتولہ کا خون لگا ہوا تھا، پولیس

اپ ڈیٹ 25 جنوری 2022
ملزم ظاہر جعفر کے وکیل نے تفتیشی افسر پر جرح کی تھی---فائل/فوٹو: ڈان نیوز
ملزم ظاہر جعفر کے وکیل نے تفتیشی افسر پر جرح کی تھی---فائل/فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد پولیس نے نورمقدم قتل کیس کے حوالے سے بیان میں کہا ہے کہ مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو جب گرفتار کیا گیا تو اس وقت اس کی شرٹ پر مقتولہ کے خون کی چھینٹیں تھیں۔

اسلام آباد پولیس نے ایک روز قبل عدالت میں ملزم کے وکیل کے جرح کے دوران تفتیشی افسر کے دیے گئے بیان کی وضاحت جاری کردی ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ نیشنل فارنزک ایجنسی (این ایف ایس اے) کو جائے وقوع سے ملنے والے چاقو پر ظاہر کے فنگرپرنٹ نہیں ملے۔

مزیدپڑھیں: نورمقدم قتل کیس: چاقو پر ظاہر جعفر کےفنگر پرنٹس نہیں، تفتیشی افسر

انہوں نے کہا تھا کہ ظاہر جعفر کی پینٹ پر بھی خون نہیں لگا ہوا تھا اور نہ ہی اطراف کی تصاویر لی گئیں۔

اسلام آباد پولیس نے وضاحتی بیان میں کہا کہ آئی جی اسلام آباد محمد احسن یونس نے گزشتہ روز ہونے والی عدالتی سماعت اور میڈیا رپورٹس کی روشنی میں کیس کا جائزہ لینے کے لیے اجلاس منعقد کیا اور سینئر افسران کو وضاحت کرنے کی ہدایت کی۔

پولیس نے بتایا کہ میڈیا کی چند رپورٹس میں سماعت اور وکیل صفائی کے جرح پر تفتیشی افسر کے بیان کو سیاق و سباق سےہٹ کر پیش کیا گیا اور آئی جی کو بتایا گیا کہ تفتیشی افسر کو جرح کے موقع پر مختصر جواب ہاں یا ناں میں دینے کا کہا گیا تھا۔

بیان میں کہا گیا کہ جواب کیس کی فائل کے حقائق کی تصدیق سے متعلق ہونا چاہیے تاہم چند میڈیا رپورٹس میں پوری سماعت کو غلط رپورٹ کی گئی۔

پولیس نے اپنے بیان میں پوچھے گئے سوالات کو بھی پیش کیا اور اس کے حوالے بھی دیے۔

مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی پینٹ پر خون نہ کے دھبے نہ ہونے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا کہ پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی (پی ایف ایس اے) کی رپورٹ کے مطابق پینٹ میں دھبے نہیں تھے لیکن ملزم کی شرٹ پر مقتولہ کے خون کی چھینٹیں تھیں۔

انہوں نے کہا کہ جائے وقوع سے برآمد ہونے والے چاقو میں فنگز پرنٹ نہیں تھے، تاہم دوسرے فرانزک رپورٹ میں مرکزی ملزم کے ملوث ہونے کی نشان دہی کی۔

مزید پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: مرکزی ملزم ظاہر جعفر ذہنی اور جسمانی طور پر فٹ قرار

پولیس نے کہا کہ جائے وقوع سے برآمد چاقو قبضے میں لے کر این ایف ایس اے نے سیل کرکے پی ایف ایس اے کو فنگرپرنٹس کے لیے بھیج دیا تھا جس کو مؤخر الذکر تیار نہیں کر پایالیکن رپورٹ میں تصدیق ہوئی کہ چاقو پر نور مقدم کا خون لگا ہوا تھا۔

مقتولہ کی شناخت کے لیے فوٹوگریمٹری ٹیسٹ کے حوالے سے پولیس نے کہا کہ یہ ٹیسٹ نہیں کیا گیا تھا کیونکہ یہ ٹیسٹ ملزم کی شناخت کے لیے صرف اس وقت کیا جاتا ہے جب وہ جائے وقوع میں موجودگی سے انکار نہ کرسکے۔

پولیس نے بتایا کہ پی ایف ایس اے کی تفصیلی رپورٹ اگلی سماعت میں پڑھ کر سنائی جائے گی، جس میں فرانزک ثبوت کی جامع تفصیلات موجود ہیں جو ملزم کو سزا دلانے کے لیے کافی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ پولیس کے سینئرترین افسران نے جائے وقوع کا دورہ کیا این ایف ایس اے کے فرانزک ماہرین کی جانب سے ثبوت اکٹھے کرنے کا مشاہدہ کیا تاکہ کوئی ثبوت ضائع نہ ہو۔

بیان میں 5 حقائق کو بھی نمایاں کیا گیا کہ کہ پی ایف ایس اے کی رپورٹس میں نور مقدم کے قتل سے قبل ریپ کیے جانے سمیت دیگر حقائق کی تصدیق ہوئی۔

پولیس نے کہا کہ مقتولہ نے اپنی جان بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی اور ملزم ظاہر کے ڈی این اے، ان کی جلد مقتولہ کے ناخنوں کے نیچے پائی گئی۔

بیان میں کہا گیا کہ ظاہر کی پہنی شرٹ جو برآمد کرلی گئی تھی، اس میں نور کا خون لگا ہوا تھا اور شرٹ میں مقتولہ کا ڈی این اے تھا۔

پولیس کا کہنا تھا کہ نور مقدم کو سوئس چاقو سے قتل کیا گیا جو جائے وقوع سے برآمد ہوئے اور ان کا خون چاقو اور ہینڈل میں لگا ہوا تھا اور اس کے علاوہ دھاتی چیز سے بھی حملہ کیا گیا تھا جو جائے وقوع سے ملی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نور مقدم کیس: مرکزی ملزم ظاہر بخشی خانہ سے عدالت میں پیش

اسلام آباد پولیس نے بتایا کہ یہ تمام ثبوت جائے وقوع سے پیشہ ورانہ انداز میں جمع کرکے پی ایف ایس اے کو بھیج دیے گئے تھے، یہ فرانزک ثبوت کی بڑی چیزیں ہیں اور تفتیشی ٹیم نورمقدم کو انصاف دلانے کے لیے پرعزم ہیں۔

آئی جی اسلام آباد نے عہدیداروں کو ہدایت کی کہ وہ کیس کو ہر ممکن طریقے سے اچھے طریقے سے آگے بڑھائیں اور انہیں اس حوالے سے مسلسل آگاہ کریں۔

پولیس کے مطابق اجلاس میں آئی جی اسلام آباد کے علاوہ ڈی آئی جی آپریشنز، چیف پراسیکیوٹر، ایس ایس پی انوسٹی گیشن، ایس پی انوسٹی گیشن، ڈی ایس پی لیگل اور تفتیشی افسر بھی شریک تھے۔

کیس کا پس منظر

خیال رہے کہ 20 جولائی 2021 کو اسلام آباد کے پوش سیکٹر ایف۔7/4 کے رہائشی سابق پاکستانی سفیر شوکت مقدم کی بیٹی 27 سالہ نور کو اسلام آباد میں ایک گھر میں قتل کر دیا گیا تھا۔

ظاہر ذاکر جعفر کے خلاف مقتولہ کے والد کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت ایف آئی آر درج کرائی گئی تھی جس کے تحت ملزم کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔

بعدازاں عدالت میں پیش کردہ پولیس چالان میں کہا گیا کہ مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے ساتھیوں کی ملی بھگت کے باعث نور مقدم نے جان بچانے کی 6 کوششیں کی جو ناکام رہیں۔

وقوعہ کے روز 20 جولائی کو ظاہر جعفر نے کراچی میں موجود اپنے والد سے 4 مرتبہ فون پر رابطہ کیا اور اس کے والد بھی اس گھر کی صورتحال اور غیر قانونی قید سے واقف تھے۔

یہ بھی پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ملزمان پر فرد جرم عائد کرنے کا معاملہ 7 اکتوبر تک مؤخر

چالان میں کہا گیا کہ نور کی جانب سے ظاہر سے شادی کرنے سے انکار پر 20 جولائی کو دونوں کے درمیان جھگڑا ہوا جس کے بعد مبینہ قاتل نے انہیں ایک کمرے میں بند کردیا، چالان میں ملزم کے بیان کا حوالہ دیا گیا جس میں اس نے قتل کا اعتراف کیا۔

ملزم نے بتایا کہ نور مقدم نے اس کی شادی کی پیشکش مسترد کردی تھی جس پر اس نے انہیں ایک کمرے میں بند کردیا، جبری قید پر وہ انتہائی غصے میں آگئیں اور ظاہر کو نتائج سے خبردار کیا۔

مقتولہ نے ظاہر کو دھمکی دی کہ پولیس میں جا کر اس کے خلاف شکایت درج کروائیں گی، بیان کے مطابق ملزم نے اپنے والدین کو واقعے سے آگاہ کیا اور ملازمین کو ہدایت کی کہ کسی کو اندر نہ آنے دیں نہ نور کو گھر سے باہر جانے دیں۔

چالان میں کہا گیا کہ نور کمرے سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوگئی تھیں اور گھر کے مرکزی دروازے کی طرف بھاگیں لیکن سیکیورٹی گارڈ افتخار نے انہیں باہر نہیں جانے دیا، یہ وہ موقع تھا جب ان کی جان بچائی جاسکتی تھی۔

مزید پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ملزم ظاہر کے والدین کی درخواست ضمانت مسترد

کال ڈیٹا کا حوالہ دیتے ہوئے چالان میں کہا گیا کہ نور کو قتل کرنے سے قبل ظاہر نے دوپہر 2 بج کر 21 منٹ، 3 بجے، 6 بج کر 35 منٹ اور شام 7 بج کر 29 منٹ پر اپنے والدین سے رابطہ کیا۔

دوسری جانب شوکت مقدم کی درج کروائی گئی ایف آئی آر کے مطابق ان کے پوچھنے پر ظاہر جعفر نے کال کر کے بتایا کہ نور اس کے ساتھ موجود نہیں۔

تاہم 20 جولائی کو رات 10 بجے انہیں کوہسار پولیس اسٹیشن سے ایک کال موصول ہوئی جس میں انہیں بتایا گیا کہ ان کی بیٹی قتل ہوگئی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جب میں اس گھر پہنچا تو اپنی بیٹی کی گلا کٹی لاش دیکھی جس کے بعد پولیس میں شکایت درج کروائی‘ ۔

25 جولائی کو پولیس نے نور مقدم کے قتل کے مشتبہ ملزم ظاہر جعفر کے والدین اور گھریلو ملازمین کو شواہد چھپانے اور جرم میں اعانت کے الزامات پر گرفتار کیا تھا جنہیں بعد میں عدالت نے جیل بھیج دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ملزم ظاہر جعفر کے والدین کا فرد جرم سے بچنے کیلئے ہائیکورٹ سے رجوع

اس کے علاوہ اس کیس میں تھراپی ورکس کے مالک اور ملازمین بھی گرفتار ہوئے جنہیں عدالت نے 23 اگست کو رہا کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

مقامی عدالت سے ظاہر جعفر کے والدین کی ضمانت مسترد ہونے کے بعد انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا لیکن 29 ستمبر کو ہائی کورٹ نے بھی ملزم کے والدین کی درخواستِ ضمانت مسترد کردی تھی۔

جس پر انہوں نے 6 اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں