روس کا یوکرین پر حملے کا خدشہ، بائیڈن اور پیوٹن کے درمیان گفتگو کا امکان

12 فروری 2022
ایک امریکی اہلکار کا کہنا تھا کہ امریکی صدر جو بائیڈن ہفتے کے روز روسی صدر دلادیمیر پیوٹن سے بات کریں گے— فائل فوٹو:رائٹرز
ایک امریکی اہلکار کا کہنا تھا کہ امریکی صدر جو بائیڈن ہفتے کے روز روسی صدر دلادیمیر پیوٹن سے بات کریں گے— فائل فوٹو:رائٹرز

امریکا کی جانب سے خبردار کیے جانے کے بعد کہ روس کسی بھی دن یوکرین پر حملہ کرسکتا ہے، امریکی صدر جو بائیڈن کا روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے بات کرنے کا امکان ہے۔

دوسری جانب امریکی محکمہ خارجہ نے روس کے ساتھ کشیدگی میں اضافے کے بعد یوکرین میں اپنے سفارتخانے کے غیر ہنگامی عملے کو کیف سے نکل جانے کا حکم دیا ہے۔

امریکی سفارت خانے کا اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہنا تھا کہ 'سفارتی عملے میں کمی کے باوجود سفارتخانے کی بنیادی ٹیم، ہمارے یوکرینی ساتھی اور محکمہ خارجہ اور دنیا بھر میں امریکی اہلکار یوکرین کی سلامتی، جمہوریت اور خوشحالی کی حمایت میں مسلسل سفارتی اور امدادی کوششیں جاری رکھیں گے۔'

امریکا نے گزشتہ روز ڈرامائی طور پر یوکرین پر خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی اور کہا تھا کہ فضائی بمباری کے ساتھ روسی حملہ چند دنوں میں شروع ہو سکتا ہے اور امریکی شہریوں کو 48 گھنٹوں کے اندر وہاں سے نکل جانے کو کہا جاسکتا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے واشنگٹن میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک لاکھ سے زیادہ روسی فوجی یوکرین کی سرحد ساتھ موجود ہے جو کسی بھی دن یوکرین پر حملہ کر سکتی ہے۔

ان قیاس آرائیوں کو مسترد کرتے ہوئے کہ کریملن کبھی بھی بحران کو جنم نہیں دے گا جبکہ بیجنگ اولمپکس ابھی روس کے قریبی اتحادی چین میں جاری ہیں، سلیوان نے کہا کہ 20 فروری کو گیمز ختم ہونے سے پہلے اس طرح کا حملہ ہو سکتا ہے۔

مشیر قومی سلامتی جیک سلیوان کا مزید کہنا تھا کہ ایک فوری حملے کا منظر نامہ بہت ہی واضح ہے۔

یہ بھی پڑھیں: روس بیجنگ اولمپکس کے دوران یوکرین پر حملہ کر سکتا ہے، امریکا

اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اب تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ روسی صدر حملہ کرنے کا فیصلہ کرچکے ہیں، جیک سلیوان کا کہنا تھا کہ امریکا، یوکرین کے دارالحکومت پر فوری حملے سمیت بد ترین صورتحال سے آگاہ کر رہا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو امکان ہے کہ فضائی بمباری اور میزائلوں سے حملہ کرے گا، ان کا کہنا تھا کہ اگلے 24 سے 48 گھنٹوں کے دوران یوکرین میں موجود امریکی شہری جتنا جلد ممکن ہو سکے وہاں سے نکل جائیں۔

سرد جنگ کے خاتمے کے بعد مغرب اور روس کے درمیان بدترین بحران پر صدر جو بائیڈن اور چھ یورپی رہنماؤں، نیٹو اور یورپی یونین کے سربراہان کے درمیان بات چیت کے فوراً بعد مشیر قومی سلامتی نے یہ بیان دیا۔

ایک امریکی اہلکار کا کہنا تھا کہ امریکی صدر جو بائیڈن ہفتے کے روز روسی صدر دلادیمیر پیوٹن سے بات کریں گے، جبکہ فرانسیسی حکومت نے کہا ہے کہ صدر ایمانوئیل میکرون بھی ہفتے کے روز روسی ہم منصب کو فون کریں گے۔

تاریک صورتحال کے باعث یوکرین سے کئی ممالک کے سفارت کاروں اور شہریوں نے نکلنا شروع کردیا ہے جبکہ تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا اور امریکی حصص گر گئے۔

مزید پڑھیں: روس کی بحری مشقیں ہائبرڈ جنگ کا حصہ ہیں، یوکرین

مغرب، نیٹو کا اتحاد

جیک سلیوان نے ایک بار پھر خبردار کیا کہ حملہ کرنے کی صورت میں روس کو سخت مغربی پابندیوں کا خطرہ ہے اور نیٹو، جسے روسی صدر مشرقی یورپ سے پیچھے دھکیلنا چاہتے ہیں، اب حالیہ تاریخ میں پہلے سے زیادہ منظم، زیادہ بامقصد اور زیادہ متحرک ہے۔

پینٹاگون نے اعلان کیا ہے کہ وہ اتحادی پولینڈ کو مضبوط کرنے کے لیے مزید 3 ہزار فوجی بھیج رہا ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن نے اپنے یوکرینی ہم منصب دیمترو کولیبا کو فون کیا اور بتایا کہ یوکرین کو اس کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے لیے امریکا کی مستقل اور ثابت قدم حمایت حاصل ہے۔

امریکی اور یورپی رہنماؤں کے درمیان گروپ فون کال کے بعد جرمن چانسلر اولاف شولز کے ترجمان کا کہنا تھا کہ مقصد یورپ میں جنگ کو روکنا ہے، لیکن اگر روس پیچھے ہٹنے میں ناکام ہوتا ہے تو اتحادیوں نے مشترکہ طور پر روس کے خلاف تیز اور سخت پابندیاں عائد کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔

یورپی یونین کی سربراہ ارسولا وان در لین کا کہنا تھا کہ یہ پابندیاں مالیاتی اور توانائی کے شعبوں کو نشانہ بنائیں گی۔

وائٹ ہاؤس سے جاری ایک بیان کے مطابق جیک سلیوان نے گزشتہ روز ارسولا وان در لین کے چیف آف اسٹاف سے ویڈیو کال کے ذریعے بات کی اور ممکنہ ٹرانس اٹلانٹک ردعمل کی تفصیلات، بشمول مالیاتی پابندیاں اور برآمدی کنٹرول دونوں کو مربوط کرنے پر بات کی۔

یہ بھی پڑھیں: تناؤ میں کمی کے لیے یوکرین اور روس کے درمیان پیرس میں مذاکرات

یوکرین، روس کے گھیرے میں

روس کی بحری افواج اور فوجی دستے، بشمول پورے ملک سے لائے گئے یونٹس، اب یوکرین کو جنوب، مشرق اور شمال سے گھیرے ہوئے ہیں۔

روس، جو یوکرین پر حملے کے کسی بھی منصوبے سے انکار کرتا ہے، 2014 میں قبضے میں لیے گئے کریمیا کے علاقے پر پہلے سے ہی کنٹرول رکھتا ہے اور مشرق میں یوکرین کے ڈونباس علاقے کو کنٹرول کرنے والی علیحدگی پسند فورسز کی حمایت کرتا ہے۔

کریملن کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد نیٹو کو یوکرین کو رکنیت کبھی نہ دینے پر راضی کرنا اور پہلے سے اتحاد میں شامل مشرقی یورپی ممالک سے دستبردار کرانا ہے، جس کا مقصد مؤثر طریقے سے یورپ کو سرد جنگ کے طرز کے اثر و رسوخ کے دائرہ اثر میں شامل کرنا ہے۔

امریکا اور اس کے یورپی اتحادیوں نے ان مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے اصرار کیا ہے کہ روس کو نیٹو سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔

کشیدگی میں اضافہ کرتے ہوئے، گزشتہ روز آمرانہ اتحادی بیلاروس کے ساتھ بڑے پیمانے پر روسی فوجی مشقیں جاری تھیں، جو کیف کے بالکل شمال میں واقع ہے اور جس کی سرحدیں یورپی یونین کی سرحد سے بھی ملتی ہے۔

روس کی وزارت دفاع نے گزشتہ روز کہا تھا کہ وہ بحیرہ اسود میں یوکرین کی سرحد کے قریب فوجی مشقیں بھی کر رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: روس نے یوکرین کے سر پر بندوق تان رکھی ہے، برطانوی وزیراعظم

ناروے کی ملٹری انٹیلی جنس سروس کے سربراہ کے مطابق روس، یوکرین میں وسیع پیمانے پر فوجی آپریشن کرنے کے لیے عملی طور پر تیار ہے اور کریملن کو صرف کال کرنے کی ضرورت ہے۔

پینٹاگون نے گزشتہ روز اپنے ایک بیان میں بتایا کہ اعلیٰ امریکی جنرل اور ان کے روسی ہم منصب نے جمعہ کو فون پر بات کی، مگر بات چیت کی کوئی تفصیلات فراہم نہیں کیں۔

یوروپی یونین نے کہا ہے کہ اس کے غیر ضروری عملے کو یوکرین چھوڑ دینا چاہے جبکہ اسرائیل نے کہا کہ اس کے سفارت کاروں کے اہل خانہ کو نکالا جارہا ہے، برطانیہ کے بعد ناروے نے بھی اپنے شہریوں کو وہاں سے نکل جانے کا کہہ دیا ہے۔

ایمانوئیل میکرون نے اس ہفتے کے شروع میں ماسکو اور کیف دونوں کا دورہ کیا تھا اور توقع ہے کہ جرمن چانسلر بھی آنے والے دنوں میں دورہ کریں گے، وہ ماسکو میں پیوٹن کے ساتھ اپنی پہلی ذاتی ملاقات بھی کریں گے۔

برطانوی وزیر دفاع بین والیس اپنے روسی ہم منصب سرگئی شوئیگو کے ساتھ غیر معمولی بات چیت کے لیے جمعہ کو ماسکو میں تھے۔

ان کے ساتھ برطانیہ کے چیف آف ڈیفنس اسٹاف ٹونی راڈاکن بھی تھے اور یہ دونوں روس کے اعلیٰ فوجی جنرل ویلری گیراسیموف سے بھی ملاقات کریں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں