بچوں پر تشدد کا کیس: جعلی پیر کی اندھی تقلید کی افسوسناک داستان کا انکشاف

اپ ڈیٹ 16 جولائ 2022
پولیس نے جعلی پیر کو گرفتار کر لیا ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی
پولیس نے جعلی پیر کو گرفتار کر لیا ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی

ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) لاہور میں گھریلو ملازم کے طور پر کام کرنے والے دو بچوں پر تشدد کے معاملے کی پولیس تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان بچوں کا آجر ان کی 7سالہ بہن سے شادی کرنا چاہتا تھا جسے پولیس نے مرکزی ملزم کے قبضے سے برآمد کر لیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ان میں سے ایک بچہ 10 سالہ کامران اپنے آجر کے دیے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا جبکہ اس کا 6 سالہ چھوٹا بھائی رضوان زخمی ہو گیا تھا۔

مزید پڑھیں: لاہور: 'فریج سے کھانا چرانے' پر کمسن گھریلو ملازم قتل، بھائی زخمی

جمعے کے روز پولیس نے مرکزی ملزم ابوالحسن کو ضلع بہاولپور میں چھاپہ مار کر گرفتار کیا جس سے ایک 7 سالہ بچی (الف) بھی برآمد ہوئی جو ان دو بچوں کی بہن نکلی۔

تحقیقات سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ ابوالحسن نے پیر ہونے کا دعویٰ کیا تھا اور سندھ کے شہر حیدرآباد کا رہائشی اور ان بچوں کا والد عرفان اس کے پاس آیا کرتا تھا۔

لاہور کے ڈی آئی جی انویسٹی گیشن کامران عادل نے ڈان کو بتایا کہ مرکزی ملزم ابوالحسن خود ڈیرہ غازی خان میں رہنے والے ایک نام نہاد پیر کا پیروکار ہے۔

انہوں نے کہا کہ ابوالحسن نے عرفان کو بتایا تھا کہ ان کا ڈیرہ غازی خان کا پیر چاہتا ہے کہ وہ ایک کم عمر لڑکی سے شادی کرے۔

ڈی آئی جی نے کہا کہ اس پر عرفان نے اپنی نابالغ بیٹی کی قربانی دینے پر آمادگی ظاہر کی اور مرکزی ملزم کے گھر منعقدہ ایک 'روح پرور تقریب' میں اسے ابوالحسن کے سپرد کر دیا۔

یہ بھی پڑھیں: مظفر گڑھ: ڈاکوؤں کا بچوں کے سامنے خاتون کے ساتھ ’گینگ ریپ‘

انہوں نے کہا کہ یہ تفصیلات اس وقت سامنے آئیں جب پولیس نے حسن اور ڈیرہ غازی خان میں رہنے والے شخص (پیر) کے درمیان موبائل فون پر ہونے والی گفتگو کی ریکارڈنگ حاصل کی۔

ڈی آئی جی نے کہا کہ پولیس کو درحقیقت ان فون کال ریکارڈنگ کے ذریعے دونوں لڑکوں کی بہن کے بارے میں پتا چلا۔

انہوں نے بتایا کہ معلومات کے بعد انہوں نے لڑکی کی بازیابی کے لیے پولیس ٹیم تشکیل دی جبکہ ٹیلی فونک شواہد کو تحقیقات کا حصہ بنایا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹیم نے بہاولپور میں ابوالحسن کے ٹھکانے کا پتا لگایا جہاں وہ گرفتاری سے بچنے کے لیے چھپا ہوا تھا۔

ڈی آئی جی نے بتایا کہ پورے واقعے میں بچوں کے والد کا کردار چونکا دینے والا تھا کیونکہ اس نے نہ تو اپنے آجروں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے لیے پولیس سے رابطہ کیا اور نہ ہی تفتیشی عمل کو آگے بڑھایا۔

مزید پڑھیں: کراچی: ڈیفنس میں 'گھریلو تنازع' پر خاتون ڈاکٹر کی 'خودکشی'

انہوں نے کہا کہ پولیس اپنے طور پر مقامی مجسٹریٹ کے پاس گئی جس نے متوفی لڑکے کے پوسٹ مارٹم کی جانچ اور اس کی تدفین کی اجازت مانگی، ہم نے بچوں کے والد کے ٹھکانے کا پتا لگایا ہے جو حیدرآباد میں کہیں مقیم تھا۔

انہوں نے کہا کہ اپنی نابالغ بیٹی کو ابوالحسن کو فروخت کرنے پر باپ کے خلاف انسانی اسمگلنگ کا مقدمہ بھی درج کیا جائے گا۔

ایک سوال کے جواب میں ڈی آئی جی نے کہا کہ مرکزی ملزم نے دعویٰ کیا تھا کہ (الف) کی عمر 13 سال ہے لیکن نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے ریکارڈ سمیت دستاویزی شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی عمر 7سال سے زیادہ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ پولیس ابوالحسن کی ازدواجی حیثیت کی تصدیق کرنے کی بھی کوشش کر رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بچپن سے جوانی تک متعدد بار جنسی ہراسانی کا نشانہ بنی، نادیہ جمیل

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مرکزی ملزم آئس ڈرگ کے نشے کا عادی ہے اور بظاہر نفسیاتی مریض لگتا ہے۔

ڈی آئی جی نے کہا کہ ہم نے یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاہور سے بھی درخواست کی ہے کہ وہ سینئر ماہر نفسیات پر مشتمل ٹیم کو اس کیس کی تفتیش کا حصہ بنائے۔

تبصرے (0) بند ہیں