حکومتی مشیروں نے ایل این جی پلانٹس کی فروخت سےمتعلق شرائط عائد کردیں

12 ستمبر 2022
این پی پی ایم سی ایل تقریباً 2500 میگاواٹ کی صلاحیت کے 2 ایل این جی پلانٹس چلاتی ہے—فائل فوٹو:ڈان
این پی پی ایم سی ایل تقریباً 2500 میگاواٹ کی صلاحیت کے 2 ایل این جی پلانٹس چلاتی ہے—فائل فوٹو:ڈان

نیشنل پاور پارکس مینجمنٹ کمپنی لمیٹڈ (این پی پی ایم سی ایل) کے مالیاتی مشیر نے حکومت سے کہا ہے کہ اگر وہ قطر کو دونوں یونٹ جلد فروخت کرنا چاہتی ہے تو گیس کی فروخت اور بجلی کی خریداری، قرضوں کا از سر نو جائزہ اور ادائیگی کے طریقہ کار کے معاہدوں کو فوری طور پر حتمی شکل دے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق این پی پی ایم سی ایل تقریباً 2500 میگاواٹ کی صلاحیت کے 2 ایل این جی پلانٹس چلاتی ہے۔

حکومت 2 پاور پلانٹس جن میں قصور کے بلوکی علاقے میں ایک ہزار 223 میگاواٹ کا پلانٹ اور جھنگ میں ایک ہزار 230 میگاواٹ کا حویلی بہادر شاہ پلانٹ شامل ہیں، انہیں عالمی مالیاتی فنڈ کی شرائط کے تحت حکومت سے حکومتی بنیادوں پر قطر کو فروخت کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نجکاری کمیشن بورڈ کی پاور فرم کی نجکاری کا عمل تیز کرنے کی منظوری

اس سلسلے میں پاکستانی حکام دوحہ میں قطری حکام کے ساتھ کئی ملاقاتیں بھی کر چکے ہیں۔

این پی پی ایم سی ایل کے مشیر کریڈٹ سوئس سنگاپور جو اپریل 2019 سے ان پاور پلانٹس کی خرید و فروخت کے معاملے اور ٹرانزیکشن سے وابستہ ہے، اس نے اسلام آباد کو بتایا ہے کہ سیکیورٹی پیکج جس میں گیس کی فروخت، بجلی کی خریداری اور نفاذ سے متعلق معاہدے (جی ایس اے، پی پی اے، آئی اے) کو حتمی شکل دینا، اس پر عمل درآمد کرنا اور دیگر ان مرکزی مسائل کو حل کرنا جن کی وجہ سے نجکاری کا عمل متاثر ہو رہا ہے جن میں خاص طور پر قابل وصول رقم کی ادائیگی بھی شامل ہے، پرائیویٹائزیشن کو متاثر کرنے والے وہ اہم مسائل ہیں جنہوں نے خاص طور پر ٹرانزیکشن کے عمل کو معطل کردیا ہے۔

پنجاب کے یہ 2 پلانٹس نواز شریف کی قیادت میں بننے والی سابقہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی جانب سے قائم کیے گئے تھے، ملک کے یہ اولین ایل این جی پاور ٹرمینلز قطر کے ساتھ طویل المدتی ایل این جی سپلائی کے معاہدے پر دستخط کرکے بجلی کی بندش پر قابو پانے کے لیے جنگی بنیادوں پر تعمیر کیے گئے تھے۔

اس انتظام کے تحت پلانٹس کو لازمی طور پر چلایا جانا تھا (یعنی ان سے پیدا ہونے والی تمام بجلی لازمی طور پر استعمال کی جانی تھی) جب کہ گیس کمپنیوں کی جانب سے 66 فیصد ایل این جی کی ضمانت کے ساتھ۔ سالانہ گیس کی ترسیل کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: روزویلیٹ ہوٹل کی نجکاری کیلئے مالیاتی مشیر کی تعیناتی کا عمل جاری

تاہم، پاور سیکٹر نے بجلی کی خریداری کے معاہدوں اور ایل این جی سپلائی کی ادائیگیوں کے معاہدے کی پابندی نہیں کی۔

جس کے نتیجے کے طور پر، پی ٹی آئی حکومت نے اپریل 2021 میں، ایل این جی سے چلنے والے پبلک سیکٹر پاور پلانٹس قائداعظم تھرمل پاور پلانٹ، بلوکی پاور پلانٹ اور حویلی بہادر شاہ پاور پلانٹ میں کم از کم 66 ٹیک یا پے کمٹمنٹ کے تحت بجلی کی خریداری اور گیس کی فراہمی کے معاہدے کی چھوٹ کی منظوری دی۔

سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) اور پیٹرولیم ڈویژن نے اس اقدام کی مخالفت کی تھی کیونکہ اس اقدام کے باعث پیٹرولیم کمپنیوں- پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او)، پاکستان ایل این جی لمیٹڈ اور ایس این جی پی ایل کو بھی نقصان پہنچایا اور عملی طور پر گردشی قرضہ کو پاور سیکٹر سے کمپنیوں سے پیٹرولیم کمپنیوں کو منتقل کر دیا۔

تبصرے (0) بند ہیں