پنجاب: 4 بڑے ہسپتالوں کا 35 فیصد جھلسی ہوئی بچی کو علاج کیلئے داخل کرنے سے انکار

اپ ڈیٹ 19 اکتوبر 2022
بچی کو چلڈرن ہسپتال میں بھی داخل کرنے سے انکار کیا گیا — فائل فوٹو: ڈان نیوز
بچی کو چلڈرن ہسپتال میں بھی داخل کرنے سے انکار کیا گیا — فائل فوٹو: ڈان نیوز

لاہور میں قائم 3 ہسپتالوں سمیت پنجاب کے چار ٹیچنگ ہسپتالوں نے 35 فیصد جھلس جانے والی دو سالہ بچی کو داخل کرنے سے انکار کردیا، جس کے باعث وہ پوری رات شدید تکلیف کی حالت میں شہر کی سڑکوں پر رُلتی رہی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق علیزہ کو اس کے والد پیر کی رات اوکاڑہ سے لاہور لائے تھے جس کے جسم کے مختلف حصے شدید جھلسے ہوئے تھے۔

بعد میں بچی کے کچھ پریشان کن ویڈیو کلپس بھی منظر عام پر آئے جن میں اسے چہرے، سینے اور ٹانگوں پر جلنے کی وجہ سے درد سے چیختے ہوئے دیکھا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور: سرکاری ہسپتال ڈینگی کے مریضوں کو واپس بھیجنے لگے

بچی رات کو اوکاڑہ میں اپنے گھر میں کھیلتے ہوئے ابلے ہوئے پانی میں گرنے کی وجہ سے جھلس گئی تھی۔

ایک پرچی کے مطابق (جس کی ایک کاپی ڈان کے پاس بھی موجود ہے) ڈاکٹروں نے اسے علاج کے لیے داخل کرنے کے بجائے لاہور ریفر کردیا۔

بچی کے والد نے ڈیوٹی ڈاکٹروں کو کہا کہ اوکاڑہ سے لاہور تک کا فاصلہ تقریباً 3 گھنٹے کا ہے اور ان کے لیے اپنی روتی ہوئی بچی کو صوبائی دارالحکومت لے کر آنا انتہائی تکلیف دہ تھا اور ان سے درخواست کی کہ وہ اسے کم از کم ایک دو دن کے لیے داخل کرلیں۔

عبدالوحید نے ڈان کو بتایا کہ ’ڈاکٹروں نے میری تمام درخواستیں مسترد کردیں اور میری بیٹی کو ڈسچارج کر دیا'۔

مزید پڑھیں: لاہور: میو ہسپتال میں سیکیورٹی گارڈ کے ہاتھوں آپریشن سے بزرگ خاتون جاں بحق

انہوں نے مزید بتایا کہ اس نے کرائے پر ایک وین کا انتظام کیا اور پیر کی رات گئے اپنی بیٹی کو میو ہسپتال لاہور لے گئے وہاں کے ڈاکٹروں نے بھی اسے داخل کرنے سے انکار کردیا۔

عبدالوحید نے کہا کہ جب میں نے ڈاکٹروں سے بحث کی کہ وہ کیوں میری بچی کو داخل کرنے سے انکار کر رہے ہیں تو انہوں نے مجھے ڈانٹا جس سے میں ششدر رہ گیا۔

انہوں نے کہا کہ ڈاکٹروں میں سے ایک نے گارڈ کو بلایا اور اسے (عبدالوحید) کو ڈاکٹروں سے بحث کرنے پر باہر نکالنے کو کہا۔

بچی کے والد نے کہا کہ میں اسے فوری طور پر چلڈرن ہسپتال لے گیا لیکن وہاں موجود عملے نے بھی اسے داخل کرنے سے انکار کر دیا جس کے بعد وہ اسے جناح ہسپتال لے گئے۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور: چلڈرن ہسپتال میں آتشزدگی، لاکھوں روپے مالیت کی ادویات جل کر خاکستر

انہوں نے کہا کہ جب میں جناح ہسپتال کے شعبہ ایمرجنسی میں پہنچا تو عملے اور ڈاکٹروں نے ایک بار پھر میرے ساتھ یہ کہہ کر بے رحمانہ سلوک کیا کہ ہسپتال کی کم سن بچوں کو داخل کرنے کی کوئی پالیسی نہیں ہے۔

عبدالوحید نے کہا کہ اس نے عملے کو بلایا اور اپنی بیٹی کو داخلہ دینے سے انکار پر 'انتہائی قدم' اٹھانے کی دھمکی دی۔

اس پر ایک اور مریض کا تیماردار جو اس صورتحال کو دیکھ رہا تھا، مدد کے لیے آگے بڑھا، وہ شخص کاؤنٹر پر موجود عملے کے پاس گیا اور داخلہ سلپ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔

جب وہ پرچی لے کر ایک ڈیوٹی ڈاکٹر کے پاس گیا تو اس نے سرد مہری سے بات کی اور کہا کہ جناح ہسپتال کا معمولی جھلسنے والے مریضوں سے کوئی تعلق نہیں، یہ برنز سینٹر کا کیس ہے جو اسی ہسپتال میں قائم ہے۔

مزید پڑھیں: وزیراعلیٰ پنجاب کا ہیلتھ کارڈ کی توسیع، مفت ادویات کی منظوری کا فیصلہ

ڈاکٹر نے بعد میں اسے اپنی بیٹی کو چلڈرن ہسپتال لے جانے کا مشورہ دیا۔

بچی کے والد نے کہا کہ جب میں رات گئے [جناح سے] انتہائی مایوسی کے ساتھ واپس آرہا تھا، تو میں نے ایک لمحے کے لیے سوچا کہ اپنی بیٹی کو سڑک پر چھوڑ دوں۔

عبدالوحید نے کہا منگل کی صبح اس نے دوبارہ کوششیں تیز کیں، کچھ ’بااثر افراد‘ سے رابطہ کیا جنہوں نے میو ہسپتال میں داخلے کے لیے اس کی مدد کی، 'اب میری بیٹی کو میو کے برنز یونٹ میں داخل کرایا گیا ہے'۔

دوسری جانب وزیر اعلیٰ پرویز الہٰی نے واقعے کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔

اپنے بیان میں وزیر اعلیٰ نے کہا کہ بچی کو علاج سے انکار بنیادی حقوق کی سراسر خلاف ورزی ہے اور وہ اس میں ملوث افراد کو نہیں چھوڑیں گے۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت علیزہ کے علاج کے تمام اخراجات برداشت کرے گی، سیکریٹری صحت کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ واقعے کی انکوائری کر کے انہیں رپورٹ پیش کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں