کالعدم تحریک طالبان کا صوبائی وزیر خیبرپختونخوا سے 80 لاکھ روپے بھتے کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 19 اکتوبر 2022
عاطف خان نے ٹی ٹی پی کی جانب سے بھتے کی رقم کا خط موصول ہونے کی تصدیق کی — تصویر: ٹوئٹر
عاطف خان نے ٹی ٹی پی کی جانب سے بھتے کی رقم کا خط موصول ہونے کی تصدیق کی — تصویر: ٹوئٹر

کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے مبینہ خط میں خیبر پختونخوا کے صوبائی وزیر عاطف خان سے لاکھوں روپے بھتے کا مطالبہ کردیا۔

کالعدم تنظیم نے صوبائی وزیر خوراک، کھیل و امور نوجوانان اور سائنس و انفارمیشن ٹیکنالوجی عاطف کو خان کو ایک مبینہ خط لکھ کر تنبیہ کی کہ 'آپ ٹی ٹی پی مردان کے مطلوبہ افراد کی فہرست میں شامل ہیں'۔

ڈان کے پاس دستیاب کالعدم ٹی ٹی پی کے مبینہ خط کی نقل کے مطابق صوبائی وزیر کو کہا گیا کہ ہم آپ کو بہت نزدیک سے جانتے ہیں، آپ کا تمام ڈیٹا اور ریکارڈ ہمارے پاس موجود ہے، آپ ٹی ٹی پی کے مطلوب افراد کی فہرست میں شامل ہیں، آپ کی باری آچکی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ٹی ٹی پی کے حملے بڑھنے کا خدشہ، وزارت داخلہ نے الرٹ جاری کردیا

خط میں دھمکی دی گئی ہے کہ اس فہرست سے نکلنے کے لیے آپ کو ہمارا مطالبہ ماننا پڑے گا یا اپنی زندگی سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔

خط میں کہا گیا کہ آپ سے ہمارا مطالبہ 80 لاکھ روپے کا ہے، ہمیں تین دن میں جواب چاہیے۔

عاطف خان کو موصول ہونے والے دھمکی آمیز خط کا عکس—تصویر: سراج الدین
عاطف خان کو موصول ہونے والے دھمکی آمیز خط کا عکس—تصویر: سراج الدین

دوسری جانب عاطف خان نے کالعدم تحریک طالبان کی جانب سے بھتے کی رقم کا خط موصول ہونے کی تصدیق کی۔

انہوں نے کہا کہ باقی لوگوں کی طرح مجھ سے بھی بھتے کا مطالبہ کیا ہے تاہم اس سوال پر کہ کیا وزیر اعلیٰ کے بھائی کو بھی بھتے کی پرچی ملی ہے؟ انہوں نے کہا کہ باقی لوگوں کا مجھے علم نہیں۔

صوبائی وزیر نے مزید کہا ہے خط متعلقہ سیکیورٹی اداروں کے ساتھ شیئر کیا گیا ہے، آگے ان کا کام ہے۔

دوسری جانب صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف نے کہا کہ خیبر پختونخوا حکومت بھتے کی کالوں کو بالکل برداشت نہیں کرے گی، جس کسی کو بھی ایسی کال یا خط ملے وہ پولیس کو آگاہ کرے۔

ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ صوبائی وزیر عاطف خان کو موصول ہونے والے خط سمیت دیگر اس طرح کی کالز کی تحقیقات کی جائیں گی اور قانون کے مطابق اس پر ایکشن لیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ بعض جرائم پیشہ افراد کی جانب سے اس طرح کی کارروائیاں کی جارہی ہیں، صوبائی حکومت ان کا مکمل سدباب کرے گی۔

خیال رہے کہ گزشتہ ماہ سینیٹ کی کمیٹی برائے دفاع کو ایک بریفنگ میں سیکیورٹی حکام نے ٹی ٹی پی کے دوبارہ سر اٹھانے کی رپورٹس کو مسترد کرتے ہوئے انہیں 'مبالغہ آرائی' قرار دیا تھا۔

مزید پڑھیں: کالعدم ٹی ٹی پی نے پی ٹی آئی رکن اسمبلی پر حملے میں ملوث ہونے کی تردید کردی

ذرائع کے مطابق سیکیورٹی حکام نے ان خبروں کی بھی تردید کی تھی کہ ’ٹی ٹی پی کے مسلح افراد‘ کو امن مذاکرات کے دوران طے پانے والی کسی سمجھوتے کے تحت افغانستان میں ان کے محفوظ ٹھکانوں سے وطن واپس آنے کی اجازت دی گئی تھی۔

ٹی ٹی پی کے متعدد جنگجو جون اور جولائی میں افغانستان سے حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کے دوران واپس آئے تھے، واپس آنے والے عسکریت پسندوں کو پہلی مرتبہ اگست کے شروع میں سوات کے علاقے دیر میں دیکھا گیا جب انہوں نے ایک فوجی افسر اور ایک پولیس اہلکار کو یرغمال بنایا تھا۔

بعد ازاں دونوں کو مقامی عمائدین کے ساتھ بات چیت کے بعد رہا کردیا گیا تھا، اس کے بعد سے علاقے میں تشدد میں اضافہ ہوا ہے اور اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری کے واقعات کی اطلاعات ہیں۔

خیال کیا جاتا ہے کہ تقریباً 450 عسکریت پسندوں کو اپنے ہتھیاروں سمیت واپس جانے کی اجازت دی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: سوات: ‘دہشت گردی کی بڑھتی لہر’ کے خلاف سیکڑوں افراد کا احتجاج

اس وقت یہ بھی کہا گیا تھا کہ انہیں پہاڑیوں میں ہتھیار رکھنے کی اجازت تھی، لیکن انہیں غیر مسلح ہو کر اپنے گھروں میں جانا تھا۔

جب یہ رپورٹیں پہلی بار منظر عام پر آئیں تو دعویٰ کیا گیا کہ حکومت کی جانب سے مذاکرات کرنے والوں نے جذبہ خیر سگالی کے طور پر عسکریت پسندوں کو ان کے گھروں کو جانے کی اجازت دی تھی۔

تاہم ذرائع نے بتایا تھا کہ حکام نے واضح کیا ہے کہ ایسا کوئی سمجھوتہ نہیں تھا اور چند عسکریت پسند پاک افغان سرحد کے بغیر باڑ والے حصوں میں گھس آئے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں