جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا چیف جسٹس کو خط، جونیئر ججز کی نامزدگی واپس لینے کی درخواست

اپ ڈیٹ 24 اکتوبر 2022
جسٹس فائز عیسیٰ کی جانب سے مذکورہ خط جوڈیشل کمیشن کے آج ہونے والے اجلاس کے پس منظر میں لکھا گیا — فوٹو: سپریم کورٹ/ویب سائٹ
جسٹس فائز عیسیٰ کی جانب سے مذکورہ خط جوڈیشل کمیشن کے آج ہونے والے اجلاس کے پس منظر میں لکھا گیا — فوٹو: سپریم کورٹ/ویب سائٹ

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے سپریم کورٹ میں ترقی کے لیے ان 3 جونیئر ججوں کے نام واپس لینے کی درخواست کی ہے جنہیں 28 جولائی کو جوڈیشل کمیشن کے آخری اجلاس میں میں مسترد کردیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 21 اکتوبر کو جسٹس عمر عطا بندیال کے نام اپنے خط میں درخواست کی کہ ’میں معزز چیئرمین سے انتہائی عاجزی کے ساتھ آئینی، قانونی اور اخلاقی طور پر ذمہ داری ادا کرنے اور ان جونیئر ججوں کے نام واپس لینے کی درخواست کرتا ہوں جنہیں جوڈیشل کمیشن نے پہلے ہی مسترد کردیا ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ میں ترقی کیلئے 3 ججوں کے ناموں پر نظرثانی، بار کونسلز کا اعتراض

مذکورہ خط سپریم کورٹ میں تقرر کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کے علاوہ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد وحید اور سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس شفیع صدیقی کی نامزدگی پر غور کے لیے جوڈیشل کمیشن کے آج ہونے والے اجلاس کے پس منظر میں لکھا گیا۔

23 اکتوبر کو پاکستان بار کونسل اور عدالت عظمیٰ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ میں ترقی کے لیے 3 ججوں کے ناموں پر دوبارہ غور کرنے کے اقدام پر تشویش کا اظہار کیا تھا، پاکستان بار کونسل کے علاوہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور سندھ بار کونسل نے بھی قراردادوں کے ذریعے اس معاملے پر تشویش کا اظہار کیا۔

اپنے خط میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس سے استدعا کی کہ جوڈیشل کمیشن کے 2 ارکان کی تجویز کے مطابق پانچوں ہائیکورٹس کے چیف جسٹس اور سینئر ترین 5 ججوں کو نامزد کیا جائے۔

مزید پڑھیں: ججز کی تعیناتی پر چیف جسٹس کی جلد بازی سوالیہ نشان ہے، جسٹس فائز عیسیٰ

28 جولائی کو جوڈیشل کمیشن کے آخری اجلاس کی ریکارڈنگ اور پھر اس کی آڈیو ریکارڈنگ جاری کیے جانے کا حوالہ دیتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے افسوس کا اظہار کیا کہ چیئرمین نے اراکین کے سامنے یہ نہیں بتایا کہ اجلاس خفیہ طور پر ریکارڈ کیا جارہا ہے اور آڈیو جاری کرنے سے پہلے جوڈیشل کمیشن اجازت بھی نہیں لی۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر یہ واضح ہوتا کہ اجلاس کی ریکارڈنگ کی جارہی ہے جوکہ ریلیز بھی کی جاسکتی ہے تو ارکان اپنے خیالات کا اظہار کرنے میں زیادہ محتاط ہوتے۔

خط میں کہا گیا کہ افسوس کی بات ہے کہ عدلیہ کے سربراہ کی جانب سے آڈیو جاری کیے جانے کے نتیجے میں ہائی کورٹ کے حاضر سروس ججوں کی ساکھ اور اختیار کو نقصان پہنچا۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کے سینئر ججوں کا چیف جسٹس کو خط، خالی اسامیوں پر فوری تعیناتی پر زور

خط میں الزام عائد کیا گیا کہ چیئرمین کی اپنی بات میں بھی تضاد نظر آیا جب انہوں نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن کا اجلاس 24 اکتوبر کو دوبارہ ہوگا، تقریباً 3 ماہ کی مدت کے بعد اجلاس کا دوبارہ آغاز قانون اور عقل سے بالاتر ہے۔

انہوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ جولائی میں ہونے والے اجلاس کو 24 اکتوبر کو مختلف ایجنڈے کے ساتھ دوبارہ شروع کرنے کا کیسے کہا جاسکتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں