سپریم کورٹ کے سینئر ججوں کا چیف جسٹس کو خط، خالی اسامیوں پر فوری تعیناتی پر زور

08 اکتوبر 2022
خط میں غیرضروری افواہوں سے بچنے کے لیے ججوں کی فوری تعیناتی پر زور دیا گیا ہے—فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
خط میں غیرضروری افواہوں سے بچنے کے لیے ججوں کی فوری تعیناتی پر زور دیا گیا ہے—فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بعد مزید دو سینئر ججوں اور سپریم جوڈیشل کمیشن کے اراکین نے بھی عدالت عظمیٰ میں خالی اسامیاں پر کرنے کے لیے چیف جسٹس کو خط لکھ دیا۔

سپریم کورٹ میں ججوں کی تعیناتی کے حوالے سے جسٹس طارق مسعود اور جسٹس منصور علی شاہ نے چیف جسٹس عمر عطابندیال کے نام خط میں لکھا ہے کہ سپریم کورٹ میں کوئی اسامی خالی ہونے کی صورت میں آئین کے آرٹیکل 175 اے (8) کے تحت جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کا اجلاس خود بخود شیڈول ہونا چاہیے۔

مزید پڑھیں: جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کا ججوں کی تقرری کے معاملے پرجوڈیشل کمیشن کے اجلاس کیلئے چیف جسٹس کو خط

انہوں نے لکھا کہ کمیشن کے مجموعی ارکان کی اکثریت سپریم کورٹ کی ہر اسامی کے لیے ایک جج کی نامزدگی پارلیمانی کمیٹی کو بھیجے۔

سپریم کورٹ کے ججوں نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے اراکین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عدالت میں آسامیوں پر بروقت تعیناتی یقینی بنائیں اور اس حوالے سے کسی قسم کی تاخیر بدقسمتی اور نامناسب ہے۔

خط میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ میں فروری سے اب تک 5 آسامیاں خالی ہیں اور وہ ان آسامیوں کو پر کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً چیف جسٹس سے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کا اجلاس طلب کرنے کی درخواست کرتے رہے ہیں لیکن ان کے ساتھ اجلاس بغیر نتیجے کے ختم ہوگئے۔

جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس منصور علی شاہ نے نشان دہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی 28 ستمبر کو چیف جسٹس آف پاکستان کو اسی معاملے پر خط لکھے چکے تھے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ یہ سمجھنا اہم ہے کہ تعیناتیوں میں تاخیر سے غیرضروری افواہیں جنم لیتی ہیں، جس سے نہ صرف ادارے کی بدنامی ہوتی ہے بلکہ تعیناتی کے عمل میں غیرجانب داری اور شفافیت پر سنجیدہ اثرات پڑتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ میں 5 ججوں کی تعیناتی چیف جسٹس کی حمایت کے باوجود کثرت رائے سے مسترد

سپریم کورٹ کے دونوں ججوں نے لکھا ہے کہ انہوں نے آئین کے تحت اس کے تحفظ اور دفاع کا حلف اٹھایا ہے اور کہا کہ سپریم کورٹ نے 1996 کے الجہاد ٹرسٹ کیس میں قانونی سمت واضح کردی ہے۔

مذکورہ حوالے میں کہا گیا ہے کہ یہ فیصلہ کہتا ہے کہ عدالتی دفاتر میں مستقل آسامیوں تعیناتی فوری طور پر ہونی چاہیے اور 30 دن سے تاخیر نہ ہو۔

جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ اس حوالے سے پہلے ہی 9 ماہ کی تاخیر ہوچکی ہے اور اس کو ہنگامی بنیاد پر پہلے حل کرنا چاہیے۔

انہوں نے لکھا کہ ججوں نے پہلے ہی تجویز دی تھی کہ پانچوں ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز کو ان آسامیوں کے لیے مدنظر رکھنا چاہیے یا ہر ہائی کورٹ سے سینئر دو ججوں کو دیکھنا چاہیے اور اس کے بعد جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے اگلے اجلاس میں اس پر ووٹنگ ہونی چاہیے۔

سپریم کورٹ کے ججوں نے کہا ہے کہ ججوں کے آسان انتخاب کا عمل ترتیب دینے تک مذکورہ تجاویز بہترین ہیں اور آئینی طور پر رولز بھی تیار کیے جاسکتے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا خط

اس سے قبل سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کو لکھے گئے خط میں مطالبہ کیا تھا کہ سپریم کورٹ میں ججوں کی خالی اسامیوں پر نامزدگی کے لیے جوڈیشل کمیشن کا اجلاس فوری طلب کیا جائے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کے دو ججز کا چیف جسٹس کی حالیہ تقریر پر اظہار مایوسی

انہوں نے کہا تھا کہ ججوں کی تقرری کی سفارش کرنے والا جوڈیشل کمیشن 9 ارکان پر مشتمل ہے جبکہ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس اور 16جج ہوتے ہیں لیکن اس وقت سپریم کورٹ میں 5 ججوں کی اسامیاں خالی ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خط میں کہا تھا کہ جسٹس قاضی امین کو ریٹائرہوئے 187 دن، جسٹس گلزار کو 239 دن، جسٹس مقبول باقر کو 177دن، جسٹس مظہر عالم میاں خیل کو 77 دن اور جسٹس سجاد علی شاہ کو ریٹائر ہوئے 46 دن ہو چکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں 700 کے قریب اسٹاف ہے، عوام سپریم کورٹ پر بھاری رقم خرچ کرتے ہیں، سمجھ سے بالاتر ہے کہ سپریم کورٹ 30 فیصد کم استطاعت پر کیوں چل رہا ہے، خدشہ ہے کہ کہیں سپریم کورٹ غیر فعال ہی نہ ہو جائے۔

سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج نے کہا تھا کہ آئین انصاف کی فوری فراہمی پر زور دیتا ہے، آئین کی پاسداری سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا تھا کہ میں نے متعدد بار آپ (چیف جسٹس) آئینی ذمہ داری کے حوالے سے آگاہ کیا، اور اراکین کو اپنی ذمہ داری پوری کرنے دیں، آپ سے درخواست ہے کہ جوڈیشل کمیشن کا اجلاس فوری بلایا جائے تاکہ سپریم کورٹ میں ججوں کی نامزدگی کی جاسکے۔

یاد رہے کہ 28 جولائی کو جوڈیشل کمیشن نے سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے نامزد 5 ججوں کی تعیناتی کثرت رائے سے مسترد کردی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: دوست مزاری کی رولنگ کالعدم کرنے پر سخت ردعمل آیا مگر تحمل کا مظاہرہ کیا، چیف جسٹس

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمر عطابندیال کی زیر صدارت جوڈیشل کمیشن کا اجلاس ہوا تھا جہاں چیف جسٹس کے نامزد کسی بھی جج کو سپریم کورٹ لانے کی منظوری نہ ہو سکی تھی، زیر غور تمام ناموں کو 4 کے مقابلے میں 5 کی کثرت رائے سے مسترد کردیا گیا تھا۔

اجلاس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سردار طارق مسعود، اٹارنی جنرل پاکستان اشتر اوصاف، وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور نمائندہ بار اختر حسین نے چیف جسٹس عمر عطابندیال کی نامزدگیوں کی مخالفت میں ووٹ دیا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس طارق مسعود نے کمیشن کے 28 جولائی کے اجلاس کے فوراً بعد خطوط لکھے تھے اور کہا گیا تھا کہ اجلاس میں ججوں کی تعیناتی کے لیے نامزدگیاں مسترد کردی گئی تھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں