نئی تفصیلات سامنے آنے پر ارشد شریف کے قتل کا معاملہ مزید پیچیدہ

اپ ڈیٹ 27 اکتوبر 2022
کینیا کے صحافی برائن اوبیا نے کہا کہ ارشد شریف کو لگنے والی گولی کار کے عقب میں دیکھنے والے آئینے کے ذریعے ٹھیک نشانے پر چلائی گئی — فوٹو: ارشد شریف/فیس بک
کینیا کے صحافی برائن اوبیا نے کہا کہ ارشد شریف کو لگنے والی گولی کار کے عقب میں دیکھنے والے آئینے کے ذریعے ٹھیک نشانے پر چلائی گئی — فوٹو: ارشد شریف/فیس بک

کینیا کے صحافیوں نے پاکستانی صحافی ارشد شریف کے قتل کی نئی تفصیلات منظر عام پر لاتے ہوئے واقعے پر سوالات کھڑے کردیے ہیں جس کے بعد معاملہ مزید پیچیدہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کینیا کے ’نیشن میڈیا گروپ‘ کی جانب سے شائع ہونے والی ایک خبر میں ایک سینیئر تفتیشی رپورٹر نے کہا کہ پولیس کے دعووں کے مطابق ارشد شریف کی کار میں سوار شخص نے جنرل سروس یونٹ (جی ایس یو) کے افسران پر گولی چلائی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ارشد شریف کے قتل کی سازش پاکستان میں ہوئی، ثبوت مٹا دیے گئے، فیصل واڈا

رپورٹ کے مطابق ’ارشد شریف اور خرم احمد نے اتوار کی دوپہر نیروبی سے 85 کلو میٹر دور کاموکورو میں ’ایمو ڈمپ‘ نامی ایک انٹرٹینمنٹ کمپلیکس میں گزاری، اس کملیکس میں نشانہ بازی کے لیے ایک شوٹنگ رینج بھی ہے جو پاکستانی بندوقوں کا شوق رکھنے والوں میں مقبول ہے‘۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ’خرم احمد کا تعلق اس خاندان سے ہے جو نیروبی میں ارشد شریف کی میزبانی کر رہا تھا اور ایسا لگتا ہے کہ وہ کافی عرصے سے کینیا میں رہائش پذیر ہیں کیونکہ ان کے پاس ٹیکس دہندگان کو دیا جانے والا کینیا ریونیو اتھارٹی کا پن نمبر ہے، واقعے کے روز ان دونوں کے زیر استعمال ٹویوٹا لینڈ کروزر گاڑی خرم احمد کے نام پر رجسٹرڈ ہے‘۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ’ممکنہ طور پر یہ دونوں افراد رات 8 بجے کے قریب انٹرٹینمنٹ کمپلیکس سے نیروبی کی جانب روانہ ہوئے، جب وہ مین روڈ پر پہنچے تو انہیں جی ایس یو کے افسران نے روکا، پولیس کے مطابق جی ایس یو افسران اس علاقے میں ایک چوری کی گاڑی دیکھے جانے کی اطلاعات ملنے پر گاڑیوں پر نظر رکھے ہوئے تھے‘۔

مزید پڑھیں: ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کیلئے بنائی گئی ٹیم کی تشکیل نو، آئی ایس آئی افسر کو نکال دیا گیا

رپورٹ میں پولیس کے متضاد بیانات کا ذکر کیا گیا جس میں پہلے دعویٰ کیا گیا تھا کہ ارشد شریف اور ان کے بھائی نے ایک چوکی پر روکے جانے احکامات کی خلاف ورزی کی، لیکن بعد میں الزام عائد کیا کہ ارشد شریف کے بھائی نے ایک افسر کو گولی مار کر زخمی کردیا تھا جس نے پولیس کو جوابی فائرنگ کرنے پر مجبور کیا۔

رپورٹ میں ایک نامعلوم پولیس اہلکار کے بیان کا حوالہ دیا گیا گیا جس میں کہا گیا کہ ’ان دونوں کو رکنے کا کہا گیا تھا لیکن انہوں نے ہمارے افسران پر فائرنگ کی، جس کی وجہ سے وہ نیروبی کی جانب جانے والی اس گاڑی پر جوابی فائرنگ پر مجبور ہوگئے‘۔

رپورٹ میں سوال اٹھایا گیا کہ ارشد شریف کی گاڑی سے مبینہ طور پر فائرنگ کے بعد پولیس نے اپنی گاڑی پر ان کا پیچھا کیوں نہ کیا؟

دوسری جانب ٹوئٹر پر کینیا کے تفتیشی صحافی برائن اوبیا نے کہا کہ ’ارشد شریف کو لگنے والی گولی کار کے عقب میں دیکھنے والے آئینے کے ذریعے ٹھیک نشانے پر چلائی گئی‘۔

انہوں نے کہا کہ ارشد شریف جس گاڑی میں سفر کر رہے تھے اس پر کُل 9 گولیاں داغی گئیں، 4 گولیاں بائیں جانب لگیں اور ایک دائیں جانب سے ٹائر میں لگی۔

برائن اوبیا نے اس سے قبل یہ بھی کہا تھا کہ ارشد شریف کی لاش کینیا کے چیرومو مردہ خانے سے ملی جو کہ پولیس کے مطابق جائے وقوع سے 78 کلومیٹر دور واقع ہے۔

تاہم نیروبی کے سابق گورنر مائیک سونوکو نے کینیا کی پولیس کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ انہیں ارشد شریف کی موت کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جانا چاہیے، پولیس نے اس غلط فہمی میں پاکستانی شہری کو گولی ماری کہ وہ گاڑی کی چوری میں ملوث تھا۔

ان کے مطابق ارشد شریف کو ایک ’پاکستانی قاتل اسکواڈ‘ نے ٹریس کیا تھا کیونکہ وہ پاکستانی سیاست دانوں کے حوالے سے ’منی لانڈرنگ سنڈیکیٹ‘ کی تحقیقات کر رہے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں