نیب ترامیم سماعت: عدلیہ ایگزیکٹو کا اختیار استعمال نہیں کرسکتی، چیف جسٹس

اپ ڈیٹ 10 نومبر 2022
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی — فائل/فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی — فائل/فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے قومی احتساب بیورو (نیب) قوانین میں ترامیم کے خلاف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدلیہ ایگزیکٹو کا اختیار استعمال نہیں کر سکتی۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے نیب ترامیم کے خلاف پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی درخواست پر سماعت کی۔

یہ بھی پڑھیں: نیب ترامیم کیس: کیا عدالت پارلیمنٹ کو ترامیم لانے سے روک دے، جسٹس منصور علی شاہ

عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ غیر قانونی آمدن پر نیب کا اختیار بھی ترامیم میں ختم کر دیا گیا ہے، ایمنسٹی اسکیم صرف کالا دھن سفید کرنے کے لیے ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ نیب ترامیم سے پہلے نیب کو ایمنسٹی اسکیم میں غیر قانون آمدن پر کارروائی کا اختیار تھا، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ غیر قانونی آمدن کے احتساب کے دیگر قوانین بھی موجود ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ نظام ٹوٹ جائے تو سخت قانون بھی مؤثر نہیں رہتا۔

خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ نیب کی سستی پر سپریم کورٹ نے کرپشن کے معاملات کی تحقیقات کرائی، سپریم کورٹ نے جعلی اکاؤنٹس معاملے کی تحقیقات جے آئی ٹی سے کروائی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ سب کچھ عدلیہ کو کرنا ہے تو کیا یہ ایگزیکٹو کے اختیار پر تجاویز نہیں ہوگا، کیا ایگزیکٹو کی ناکامی پر عدلیہ سپر رول ادا کر سکتی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کو ملک چلانا نہ آئے تو کیا عدلیہ ملک کو چلائے گی، کوئی کہے حکومت مشکوک اور وزیر اعظم متنازع ہے تو عدلیہ حکومت چلائے گی، اس چیز کو کہیں تو روکنا ہوگا۔

مزید پڑھیں: نیب ترامیم کیس: اختیارات کے ناجائز استعمال کا جرم کسی دوسرے قانون میں نہیں، جسٹس اعجازالاحسن

عمران خان کے وکیل نے کہا کہ بنیادی حقوق کا تحفظ عدلیہ کی ذمہ داری ہے، آرمی چیف کے تقرر کے معاملے پر عدالت نے قانون سازی کا حکم دیا تھا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا بنیادی حقوق کے تحفظ میں اختیارات کی تقسیم کی لکیر عدلیہ عبور کر سکتی ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ عدلیہ ایگزیکٹو کے اختیار پر تجاوز نہیں کر سکتی، عدالت ایگزیکٹو کو اپنی ذمہ داری پوری کرنے کا کہہ سکتی ہے مگر ایگزیکٹو کا اختیار استعمال نہیں کر سکتی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ازخود نوٹس کا اختیار بڑے احتیاط سے استعمال کرنا پڑتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ عدلیہ نے انتظامیہ کے کئی اقدامات کالعدم قرار دیے، اس حوالے سے کئی عدالتی فیصلے بھی موجود ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ نیب ترامیم سے کئی شقوں کو نکال دیا گیا ہے۔

عمران خان کے وکیل کو مخاطب کرکے جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ کا مؤکل کہتا ہے نکالی گئی شقیں دوبارہ بحال کی جائیں، یہ صورت حال ماضی سے مختلف اور منفرد ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر نیب ترامیم بنیادی حقوق سے تصادم پر کالعدم ہو بھی جائیں تو پرانا قانون کیسے بحال ہو گا۔

عدالت عظمیٰ نے کیس کی سماعت 14 نومبر تک ملتوی کر دی۔

خیال رہے کہ گزشتہ سماعت کے دوران بھی سپریم کورٹ کے بینچ نے سوال اٹھایا تھا کہ کیا عدالت، پارلیمنٹ کو ترامیم لانے سے روک دے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے عمران خان کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ کی باتیں پارلیمنٹ کے لیے اچھی تقریر ہے، اگر آپ انتخابات جیتتے ہیں تو اپنی ترامیم لائیں۔

چیف جسٹس نے کہا تھا کہ آپ کے مطابق کرپشن کے حوالے سے کچھ بینچ مارک ہیں جنہیں برقرار رکھنا ہے، ابھی متحدہ عرب امارات بھی منی لانڈرنگ کے کمزور قوانین کی وجہ سے گرے لسٹ میں ہے۔

نیب ترامیم

یاد رہے کہ رواں سال جون میں مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت اتحادی حکومت نے نیب آرڈیننس میں 27 اہم ترامیم متعارف کروائی تھیں لیکن صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ان کی منظوری نہیں دی تھی، تاہم اس بل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کیا گیا اور بعد میں اسے نوٹیفائی کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: 'دیکھنا ہوگا نیب قانون میں ترامیم بنیادی حقوق سے متصادم ہیں یا نہیں'

نیب (دوسری ترمیم) بل 2021 میں کہا گیا ہے کہ نیب کا ڈپٹی چیئرمین، جو وفاقی حکومت کی جانب سے مقرر کیا جائے گا، چیئرمین کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد بیورو کا قائم مقام چیئرمین بن جائے گا، بل میں چیئرمین نیب اور بیورو کے پراسیکیوٹر جنرل کی 4 سال کی مدت بھی کم کر کے 3 سال کردی گئی ہے۔

قانون کی منظوری کے بعد نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکے گا، مزید یہ کہ ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری اداروں کو بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر نکال دیا گیا ہے۔

بل میں کہا گیا ہے کہ اس آرڈیننس کے تحت افراد یا لین دین سے متعلق زیر التوا تمام پوچھ گچھ، تحقیقات، ٹرائلز یا کارروائیاں متعلقہ قوانین کے تحت متعلقہ حکام، محکموں اور عدالتوں کو منتقل کی جائیں گی، بل نے احتساب عدالتوں کے ججوں کے لیے 3 سال کی مدت بھی مقرر کی ہے، یہ عدالتوں کو ایک سال کے اندر کیس کا فیصلہ کرنے کا پابند بھی بنائے گا۔

مزید پڑھیں: نیب ترامیم کیس: 21 سال میں ہونے والی پلی بارگین کی تفصیلات سپریم کورٹ میں جمع

مجوزہ قانون کے تحت نیب کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ملزم کی گرفتاری سے قبل اس کے خلاف شواہد کی دستیابی کو یقینی بنائے، بل میں شامل کی گئی ایک اہم ترمیم کے مطابق یہ ایکٹ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے شروع ہونے اور اس کے بعد سے نافذ سمجھا جائے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں