'دیکھنا ہوگا نیب قانون میں ترامیم بنیادی حقوق سے متصادم ہیں یا نہیں'

اپ ڈیٹ 10 اکتوبر 2022
عدالت عظمیٰ نے درخواست پر سماعت کل دوپہر ایک بجے تک ملتوی کردی — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
عدالت عظمیٰ نے درخواست پر سماعت کل دوپہر ایک بجے تک ملتوی کردی — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی قومی احتساب بیورو (نیب) کے قانون میں ترامیم کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ دیکھنا ہوگا کہ نیب قانون میں ترامیم بنیادی حقوق سے متصادم ہیں یا نہیں۔

‏سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی درخواست پر ‏چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں ‏جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔

سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائی جاری رکھے جب کہ اس دوران جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ابھی اصل کیس باقی ہے، دیکھنا ہوگا کیا نیب قانون میں تبدیلی بنیادی حقوق سے متصادم ہے یا نہیں؟ یہ بھی دیکھنا ہے نیب قانون سے درخواست گزار کے حقوق کیسے متاثر ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: نیب ترامیم کیس: 21 سال میں ہونے والی پلی بارگین کی تفصیلات سپریم کورٹ میں جمع

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی دلیل ہے کہ نیب قانون سے کسی ملزم کا جرم قبول کرنا اب کوئی جرم ہی نہیں رہا، وکیل عمران خان خواجہ حارث نے کہا کہ اب درخواستیں دیے بغیر مقدمات واپس بھیجے جارہے ہیں، پہلے سے پلی بارگین یا رضاکارانہ رقوم کی ادائیگی بھی واپس ہو جائے گی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ 2018 میں نیب قانون کی تبدیلی سے پہلے کیا پلی بارگین کی رقم اقساط میں ادا ہو رہی تھی، اب دیکھنا چاہتے ہیں کیا پلی بارگین یا رضاکارانہ رقوم کی واپسی پر اقساط ملتی رہیں یا ادائیگی نہیں ہوئی، جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ اس کا جواب نیب کے پاس ہوگا۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیے کہ نیب قانون کا سیکشن 25 پلی بارگین کی قسط کی عدم ادائیگی سے متعلق ہے، خواجہ حارث نے کہا کہ نئی ترامیم میں ملزم پلی بارگین کی رقم واپسی کامطالبہ بھی کر سکتا ہے، اس پر جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ ابھی تک آپ کیس کے بنیادی نکتے پرآئے ہی نہیں ہیں، بتانا ہے کہ نیب ترامیم سے کون سے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس سے تو یہ ثابت ہوا کہ پلی بارگین کے بعد بھی ملزم کا اعتراف جرم تصور نہیں ہوگا، پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ سیکشن 9 اے 5 میں ترمیم کے بعد ملزم سےنہیں پوچھا جاسکتا کہ اثاثے کہاں سے بنائے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ کیا اب کسی کو غیر قانونی ذرائع سے بنائے گئے اثاثے نیب کو ثابت کرنا ہوں گے؟

مزید پڑھیں: 'عمران خان نیب ترامیم پر تمام سوالات اسمبلی میں بھی اٹھا سکتے تھے'

اس کے ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کل دوپہر ایک بجے تک ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ 26 جون کو سابق وزیر اعظم عمران خان نے نیب آرڈیننس میں موجودہ مخلوط حکومت کی جانب سے کی گئیں ترامیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا، خواجہ حارث کے توسط سے دائر نیب ترامیم کے خلاف آرٹیکل 184/3 کی درخواست تیار کی گئی، درخواست میں وفاق اور نیب کو فریق بنایا گیا۔

درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ نیب قانون کے سیکشن 2، 4، 5، 6، 25، 26، 14، 15، 21، 23 میں کی ترامیم آئین کے منافی ہیں، نیب قانون میں یہ ترامیم آئین کے آرٹیکل 9، 14، 19 اے, 24, 25 کے بنیادی حقوق کے برعکس ہیں، عدالت سے استدعا ہے کہ نیب قانون میں کی گئیں ان تمام ترامیم کو کالعدم قرار دیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: ’احتساب کا قانون آج تک وقتی ضرورت کے مطابق آگے بڑھا‘

عمران خان کی جانب سے دائر کی گئی مذکورہ درخواست کو عدالت عظمیٰ کے رجسٹرار آفس نے اعتراض لگا کر واپس بھیج دیا تھا، تاہم 7 جولائی کو سپریم کورٹ نے یہ درخواست سماعت کے لیے مقرر کرنے کا حکم دیا بعد ازاں درخواست پر سماعت کے لیے چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔

'نیب ترامیم'

خیال رہے کہ رواں سال جون میں مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت اتحادی حکومت نے نیب آرڈیننس میں 27 اہم ترامیم متعارف کروائی تھیں لیکن صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ان کی منظوری نہیں دی تھی، تاہم اس بل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کیا گیا اور بعد میں اسے نوٹیفائی کیا گیا تھا۔

نیب (دوسری ترمیم) بل 2021 میں کہا گیا ہے کہ نیب کا ڈپٹی چیئرمین، جو وفاقی حکومت کی جانب سے مقرر کیا جائے گا، چیئرمین کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد بیورو کا قائم مقام چیئرمین بن جائے گا، بل میں چیئرمین نیب اور بیورو کے پراسیکیوٹر جنرل کی 4 سال کی مدت بھی کم کر کے 3 سال کردی گئی ہے۔

قانون کی منظوری کے بعد نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکے گا، مزید یہ کہ ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری اداروں کو بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر نکال دیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: سابق وزیر اعظم عمران خان نے نیب قانون میں ترامیم سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا

بل میں کہا گیا ہے کہ اس آرڈیننس کے تحت افراد یا لین دین سے متعلق زیر التوا تمام پوچھ گچھ، تحقیقات، ٹرائلز یا کارروائیاں متعلقہ قوانین کے تحت متعلقہ حکام، محکموں اور عدالتوں کو منتقل کی جائیں گی، بل نے احتساب عدالتوں کے ججوں کے لیے 3 سال کی مدت بھی مقرر کی ہے، یہ عدالتوں کو ایک سال کے اندر کیس کا فیصلہ کرنے کا پابند بھی بنائے گا۔

مجوزہ قانون کے تحت نیب کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ملزم کی گرفتاری سے قبل اس کے خلاف شواہد کی دستیابی کو یقینی بنائے، بل میں شامل کی گئی ایک اہم ترمیم کے مطابق یہ ایکٹ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے شروع ہونے اور اس کے بعد سے نافذ سمجھا جائے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں