نیب ترامیم کیس: 21 سال میں ہونے والی پلی بارگین کی تفصیلات سپریم کورٹ میں جمع

06 اکتوبر 2022
نیب نے پلی بارگین کرنے والوں کی تفصیلات سپریم کورٹ میں جمع کرادی — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
نیب نے پلی بارگین کرنے والوں کی تفصیلات سپریم کورٹ میں جمع کرادی — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی قومی احتساب بیورو (نیب) کے قانون میں ترامیم کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران نیب نے 21 سال میں ملزمان سے ہونے والی پلی بارگین کی تفصیلات جمع کرا دیں۔

‏سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی درخواست پر ‏چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں ‏جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔

مزید پڑھیں: نیب قانون میں ترمیم کےخلاف عمران خان کی درخواست سماعت کیلئے مقرر کرنے کا حکم

دوران سماعت پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے تاہم اس دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا پلی بارگین کرنے والے افراد کی سزا اور جرم دونوں ختم ہو جائیں گے؟

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اگر جرم ہی ختم ہو گیا تو پھر وہ شخص کسی بھی جگہ دوبارہ ملازمت حاصل کرسکتا ہے جس پر وکیل نے بتایا کہ بالکل ایسا ہی ہے، ترامیم سے قبل پلی بارگین کے بعد سزا ختم ہوتی تھی جرم نہیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ پلی بارگین کے بعد سزا ختم ہونا سمجھ آتا ہے مگر جرم کیسے ختم ہوسکتا ہے؟

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ قتل کا مجرم مقتول کے ورثا سے تصفیہ کرلے توسزا بھی ختم ہو جاتی ہے اور اگر قاتل کی سزا ختم ہو سکتی ہے تو پھر یہ تو اس کے مقابلے میں چھوٹا جرم ہے۔

چیف جسٹس کے پوچھنے پر نیب پروسیکیوٹر نے بتایا کہ شاید اب تک تعداد 280 ہوگئی ہے تمام مقدمات واپس کمیٹی کو بھیج رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس، الیکشن ایکٹ ترمیمی بل اور نیب آرڈیننس ترمیمی بل منظور

وکیل خواجہ حارث نے ایمنسٹی اسکیم کا ذکر کیا تو جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ ایمنسٹی اسکیم بھی فراڈ ہے، ایمنسٹی اسکیم کے ذریعے پیسے کو وائٹ کرنا تو بڑے عرصے سے چل رہا ہے۔

خواجہ حارث نے بتایا کہ میں ایسا نہیں کہ رہا مگر کرپشن کی رقم کا معاملہ مختلف ہوتا ہے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ جعلی اکاؤنٹس میں بھی رکشے والے اور ایسے لوگوں کے اکاؤنٹس سے اربوں روپے نکلے تھے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ نئے قانون کے مطابق احتساب عدالت اور نیب ہاتھ کھڑے کر دے گی، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق ان ترامیم کا عمل گزشتہ حکومت نے شروع کیا تھا؟

چیف جسٹس نے کہا کہ باتوں سے باتیں نکل رہی ہیں، دو ماہ میں ان ترامیم کی ڈرافٹنگ کا کریڈٹ وزیرقانون کو جاتا ہے۔

مزید پڑھیں: 'عمران خان نیب ترامیم پر تمام سوالات اسمبلی میں بھی اٹھا سکتے تھے'

وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ کچھ کریڈٹ سابقہ حکومت کو بھی جاتا ہے جو خود اس عمل میں شامل رہی اور پھر چیلنج کر دیا تاہم، عدالت نے کیس کی سماعت 10 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔

واضح رہے کہ 26 جون کو سابق وزیر اعظم عمران خان نے نیب آرڈیننس میں موجودہ مخلوط حکومت کی جانب سے کی گئیں ترامیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا، خواجہ حارث کے توسط سے دائر نیب ترامیم کے خلاف آرٹیکل 184/3 کی درخواست تیار کی گئی، درخواست میں وفاق اور نیب کو فریق بنایا گیا۔

درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ نیب قانون کے سیکشن 2، 4، 5، 6، 25، 26، 14، 15، 21، 23 میں کی ترامیم آئین کے منافی ہیں، نیب قانون میں یہ ترامیم آئین کے آرٹیکل 9، 14، 19 اے, 24, 25 کے بنیادی حقوق کے برعکس ہیں، عدالت سے استدعا ہے کہ نیب قانون میں کی گئیں ان تمام ترامیم کو کالعدم قرار دیا جائے۔

عمران خان کی جانب سے دائر کی گئی مذکورہ درخواست کو عدالت عظمیٰ کے رجسٹرار آفس نے اعتراض لگا کر واپس بھیج دیا تھا، تاہم 7 جولائی کو سپریم کورٹ نے یہ درخواست سماعت کے لیے مقرر کرنے کا حکم دیا بعد ازاں درخواست پر سماعت کے لیے چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: نیب قانون میں ترمیم کےخلاف عمران خان کی درخواست سماعت کیلئے مقرر کرنے کا حکم

'نیب ترامیم'

خیال رہے کہ رواں سال جون میں مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت اتحادی حکومت نے نیب آرڈیننس میں 27 اہم ترامیم متعارف کروائی تھیں لیکن صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ان کی منظوری نہیں دی تھی، تاہم اس بل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کیا گیا اور بعد میں اسے نوٹیفائی کیا گیا تھا۔

نیب (دوسری ترمیم) بل 2021 میں کہا گیا ہے کہ نیب کا ڈپٹی چیئرمین، جو وفاقی حکومت کی جانب سے مقرر کیا جائے گا، چیئرمین کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد بیورو کا قائم مقام چیئرمین بن جائے گا، بل میں چیئرمین نیب اور بیورو کے پراسیکیوٹر جنرل کی 4 سال کی مدت بھی کم کر کے 3 سال کردی گئی ہے۔

قانون کی منظوری کے بعد نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکے گا، مزید یہ کہ ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری اداروں کو بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر نکال دیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: نیب ترامیم کیس: معیشت تباہی کے دہانے پر ہے، چیف جسٹس

بل میں کہا گیا ہے کہ اس آرڈیننس کے تحت افراد یا لین دین سے متعلق زیر التوا تمام پوچھ گچھ، تحقیقات، ٹرائلز یا کارروائیاں متعلقہ قوانین کے تحت متعلقہ حکام، محکموں اور عدالتوں کو منتقل کی جائیں گی، بل نے احتساب عدالتوں کے ججوں کے لیے 3 سال کی مدت بھی مقرر کی ہے، یہ عدالتوں کو ایک سال کے اندر کیس کا فیصلہ کرنے کا پابند بھی بنائے گا۔

مجوزہ قانون کے تحت نیب کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ملزم کی گرفتاری سے قبل اس کے خلاف شواہد کی دستیابی کو یقینی بنائے، بل میں شامل کی گئی ایک اہم ترمیم کے مطابق یہ ایکٹ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے شروع ہونے اور اس کے بعد سے نافذ سمجھا جائے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں